اتوار، 5 جولائی، 2020

کورونائی ‏امتحان

جب پاکستان میں کورونا کی وبا کی آمد ہوئی تو ہمارا امتحان درمیان میں ہی روک دیا گیا۔ امید یہ تھی کہ کچھ دن بعد حالات ٹھیک ہوجائیں گے تو دوبارہ امتحان لے لیا جائیگا۔ لیکن حالات کچھ ایسے الجھے کہ سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ لہذا یونیورسٹی نے اعلان کیا کہ جو پرچہ ہماری جان پر قرض ہے وہ ہمیں گوگل کلاس روم میں دے دیا جائیگا اور جوابات لکھ کر انکے عکس ہم نے وہاں جمع کرنے ہیں۔ یعنی کہ انہیں ہماری ایمانداری کا پورا پورا یقین ہے یا پھر اس بات کا کہ ہم گھر بیٹھ کر اور کتابیں کھول کر بھی جوابات لکھنے کے اہل نہیں۔ خوش گمانی کا تقاضا ہے کہ اول الذکر کو ہی درست سمجھا جائے۔ 
ہم نے بیگم اور بچوں کو متاثر کرنے کیلئے رات کے کھانے پر اعلان کردیا کہ صبح ہم گھر میں بیٹھ کر امتحان دیں گے۔ اسکے ساتھ ہی ایمانداری اور دیانتداری کی اہمیت اس کے فضائل و فوائد اور بے ایمانی کے نقصانات پر مفصل تقریر بھی کرڈالی۔ وہ بھی یونیورسٹی کے ہمارے بارے میں خیالات سن کر بہت خوش ہوئے۔ 
صبح ہم اٹھے اور ناشتہ کرکے ضروری کتابیں میز پر سامنے رکھ لیں۔ کتابیں رکھنے کا مقصد نقل کرنا ہر گز نہیں تھا بلکہ میز کی اونچائی قدرے کم تھی تو سوچا کتابوں کے اوپر رکھ کر لکھنا ذرا آسان ہوگا۔ 
کمپیوٹر آن کیا اور پرچہ ڈاون لوڈ کیا۔ سکرین پر سامنے سوالیہ پرچہ تھا۔ ہم نے بسم اللہ پڑھ کر کتاب کھولنے کی کوشش ہی کی تھی کہ چھوٹی بیٹی اور بیٹا کمرے میں داخل ہوئے۔ کتاب کھولتے دیکھ کر بیٹے کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ حیرت زدہ کر کہا پاپا آپ نقل کر رہے ہیں؟ میں نے کہا نہیں تو۔ بیٹی نے فورا" اپنے بڑے بھائی پر جوابی حملہ کردیا۔ کہنے لگی پاپا نقل نہیں کرتے ویسے ہی کتاب سیدھی کر رہے تھے۔ میرے پاپا ایسے نہیں۔ اگر تمہیں شک ہے تو میں اور کتابیں دیتی ہوں پاپا کو۔ بیٹے نے میرے سامنے پڑی ہوئی کتاب اٹھا لی اور بیٹی نے سب سے ضخیم کتاب فیروزالغات جامع اٹھا کر سامنے رکھ دی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ زیادہ موٹی کتاب ہے لکھنے میں زیادہ آسانی ہوگی۔ بچے ناشتہ کرنے گئے تو میں نے جلدی جلدی گوگل سے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ سوچا پہلے سب سوالوں کے جواب ڈھونڈ لوں پھر آرام سے لکھنے بیٹھتا ہوں۔ دس سے پندرہ منٹ لگے ہوں گے سارے جوابات ڈھونڈنے میں۔ میں نے لکھنا شروع کیا تو تھوڑی دیر بعد سارے بچے اپنا اپنا ناشتہ اٹھا ئے کمرے میں آگئے۔ میں نے جلدی سے سکرین تبدیل کرلی اور سوالیہ پرچہ اوپر رکھ دیا۔ بچے خاموشی سے ناشتہ کرنے لگے اور سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔ میں نے سوچا تھا کہ ناشتہ کرکے چلے جائیں گے یا پھر میں خود باہر بھیج دوں گا کہ تم لوگ شور کر رہے ہو لیکن وہ نہ تو شور کر رہے تھے نہ ناشتہ ختم کرنے کے بعد کمرے سے جانے کا ارادہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد سب قریب آکر میرے پیچھے ایک قطار میں کھڑے ہوگئے۔ میں نے موقع غنیمت جان کر کہا تم لوگ جاو کھڑے کھڑے تھک جاوگے۔ وہ سب خاموشی سے نکل گئے اور تھوڑی دیر بعد ڈائننگ ٹیبل کی کرسیاں اٹھا کر اندر آگئے اور میرے پیچھے ایک قطار میں بیٹھ گئے۔ میں نے انہیں ٹالنے کیلئے کہا کہ جاو اپنی اپنی کلاسوں کی تیاری کرو۔ سب نے کہا کہ آج تو اتوار ہے۔ مجھے غصہ آنے لگا وہ کسی شکی مزاج استاد کی طرح سر پر کھڑے تھے اور مجھے موقع نہیں دے رہے تھے کہ گورے پروفیسروں کے علم سے استفادہ کرسکوں۔ میں نے موبائل فون اٹھایا تو بڑی بیٹی نے ہاتھ سے لیکر کہا کہ پاپا امتحان میں موبائل فون ڈسٹرب کریگا ادھر مجھے دیں۔ میں نے چپ کرکے دے دیا۔ وہ لوگ کوئی ایسی حرکت نہیں کر رہے تھے جسے بنیاد بنا کر میں کمرے سے باہر بھیج دیتا۔ آخر میں نے کہا کہ جاو اپنی اپنی پڑھائی کرو۔ کہنے لگے وہ تو روزانہ کرتے ہیں آج ہم آپ سے یہ سیکھنا چاہتے ہیں کہ امتحان ہال میں پرچہ کیسے حل کیا جاتا ہے۔ 
اب کوئی راستہ نہیں بچا تھا سوائے اسکے کہ جو کچھ آتا تھا لکھ لوں۔ 
خاموشی سے جو ٹوٹا پھوٹا آتا تھا لکھ لیا۔ جب پرچہ ختم ہوا تو بچے خاموشی سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ امید پہ دنیا قائم ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انشاء اللہ کورونا جلد ختم ہوجائیگا پھر ہم آزادی سے یونیورسٹی میں نرم دل اساتذہ کے زیر نگرانی امتحانات دے سکیں گے۔

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...