آج بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی میرا موڈ بھانپ گئے۔ پوچھنے لگے خیریت ہے آج تیور کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہیں۔
میرے نبی کے گستاخ کو آزاد کردیا عدالت نے میرا ایمان اور اسلام دونوں خطرے میں ہیں۔ باباجی مسکرا کر بولے کیوں فیصلہ تم نے کیا ہے؟ عرض کیا نہیں وہ تو تین ججوں نے کیا ہے۔ تو پھر تمہارا ایمان کیوں خطرے میں ہے؟ اگر تم کچھ غلط کرتے ہو تو اسکا جواب قیامت کے دن میں دوں گا یا تم دوگے؟ باباجی نے سوالیہ نظروں سے مجھے گھورنا شروع کردیا۔ جی وہ تو مجھے ہی دینا پڑے گا، میں نے عرض کیا۔ تو پھر ججوں کے اعمال کا جواب تم کیوں دوگے اگر بالفرض انہوں نے ایمانداری سے فیصلہ نہیں دیا؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا اسلئے میں نے انکی بات نظر انداز کردی اور پرجوش لہجے میں بولا کہ اس سے اسلام کا کتنا نقصان ہورہا ہے آپکو اندازہ بھی ہے؟ باباجی ایک بار پھر اپنے شفیق انداز میں مسکرائے اور کہنے لگے بات میں وزن ہے مذہب کے حوالے سے پریشانی تو بنتی ہے۔ جب ایک انسان کا مذہب خطرے میں ہو اسکا بے چین ہونا فطری بات ہے۔ انکی تائید سن کر میرا حوصلہ بڑھ گیا اور کچھ کہنے کیلئے منہ کھولنے لگا تھا کہ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ پھر کہنے لگے کہ مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ جس مذہب کو ابولہب اور ابوجہل جیسے مکے کے سردار اس وقت ختم نہیں کرسکے جب اسکے ماننے والے بمشکل آٹھ دس لوگ تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے پھر جب ایک شہر مدینہ میں بمشکل تین سو تیرہ کے لشکر پر ہزار جنگجووں کے حملے میں بھی اسکا کچھ نہ بگڑا اور قیصر و کسریٰ بھی اسے نہ مٹا سکے اس عظیم مذہب کو ایک کمزور سی خاتون سے اتنا خطرہ کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ ایک بار پھر مجھے دلیل سے مات دے چکے تھے اس لئے میں نے پینترا بدلا۔ عرض مجھے ان سب چیزوں سے کوئی غرض نہیں لیکن اگر روز قیامت میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ میری شان میں گستاخی ہوئی تو تم نے کیا کیا تو پھر میں کیا جواب دوں گا؟ کونسا منہ دکھاؤں گا اس آقا کو جو میرے لئے رات رات بھر روتے ہوئے اللہ کے حضور سجدے میں پڑے رہتے تھے کہ اللہ میرے اس گنہگار امتی کا حساب مجھ سے لے لو اسکو کچھ نہ کہنا۔ کیا میں ایسے نبی کی شان میں گستاخی پر نہ تڑپوں؟
باباجی نے بڑے حوصلے سے میری بات سنی انکی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کہنے لگے بنتا ہے بالکل بنتا ہے۔ اب پہلا سوال تو یہ ہے کہ تم نے اس خاتون کو گستاخی کرتے دیکھا ہے یا سنی سنائی بات ہے؟ عرض کیا دیکھا تو نہیں۔ پھر کہنے لگے اچھا تو تم نے مکمل تحقیق کی ہوگی جن گواہوں کے سامنے گستاخی کی انکے بارے میں بھی تحقیق کی ہوگی کہ وہ واقعی سچے ہیں اور انکی باتوں کو عقل دلیل اور منطق کی کسوٹی پہ رکھ کر پرکھا ہوگا اور پھر یقین آگیا ہوگا کہ وہ واقعی گستاخ ہے تب تمہیں اتنا غصہ ہے؟ عرض کیا ایسا تو کچھ نہیں کیا۔ اچھا تو سپریم کورٹ کے ججوں نے کسی سے سنا ہوگا کہ اس نے گستاخی نہیں کی اور انہوں نے عجلت میں فیصلہ دے دیا ہوگا؟ عرض کیا نہیں وہ تو کئی سال سے کیس سن رہے تھے۔ اب باباجی تیوری چڑھا کر بولے کہ اچھا تم نے کوئی تحقیق نہیں کی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے تین ججوں نے کئی سال لگا کر اس کیس کو سنا اور اب تم ٹھیک ہو اور وہ غلط ہیں؟ یہ کونسی منطق ہے ذرا وہ منطق مجھے بھی سمجھاو تاکہ اپنے بنی کے سامنے میں بھی سرخ رو ہونے کا شرف حاصل کرلوں۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
مجھے خاموش پاکر شاید باباجی کو ترس آگیا۔ نرم لہجے میں بولے بیٹا ان سب باتوں کا جواب تو رحمت دو عالم پہلے ہی دے چکے ہیں اگر تمہیں نہیں پتا یہ تمہاری کمزوری ہے۔ جب اسلام کے ابتدائی ایام تھے اور مسلمان بہت کمزور تھے تو ابوجہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی۔ اور گستاخی اس درجہ کہ میں وہ الفاظ اپنی زبان پر لانا اور دہرانا بھی کفر سمجھتا ہوں۔ جب سید الشہداء امیر حمزہ کو خبر ملی ابھی وہ مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے تو بجائے گھر جانے کے سیدھے ابوجہل کے پاس گئے بغیر سوال جواب کے کمان اس زور سے اسکے سر میں ماری کہ اسکا سر پھٹ گیا۔ اور پھر للکار کر پورے مجمعے کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر کسی نے میرے بھتیجے محمد کے ساتھ آئندہ سروکار رکھا تو اسکا انجام اس سے بھی بدتر ہوگا۔ پھر اپنے بھتیجے کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں بھتیجے مجھے پتا چلا کہ آج دن کو کیا ہوا تھا۔ اور میں نے آپکی ہتک کا بدلہ لے لیا اور آپکے دشمن کا سر پھاڑ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتا ہے جواب میں کیا کہا؟ فرمانے لگے مجھے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی اگر آپ یہ کہہ دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور پھر حمزہ رضی اللہ عنہ نے اپنے محبوب بھتیجے اور اسکے رب دونوں کو راضی کرلیا۔
بیٹا حمزہ تو خو قسمت تھے۔ جب یہ واقعہ ہوا وہ اسی دنیا میں تھے۔ لیکن ہم اتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔ جب ہمارا سامنا اپنے نبی سے ہوگا تو ہمارے اعمال نامے بند ہوچکے ہوں گے۔ اور تب جب اللہ کے رسول یہ فرمائیں گے کہ مجھے اس سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی کہ تم میری ایک سنت کو زندہ کرلیتے تو ہم کیا جواب دیں گے؟ کیا ہم سب مسلمان ہمہ وقت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل آزاری میں مصروف نہیں؟ ہم وہ سب کام کرتے ہیں جن سے انہوں نے منع کیا اور ان سب کاموں کو چھوڑ دیا جنکا انہوں نے حکم دیا۔ کبھی اس پر بھی سوچا؟
میرے پاس جواب میں کہنے کیلئے کچھ نہیں تھا سوائے میرے ان سب برے اعمال کے جن پر اللہ نے پردہ ڈالا ہوا ہے اور جو اگر لوگوں کو معلوم ہوجائیں تو مجھ پر تھوکنا بھی گوارا نہ کریں۔
میرے نبی کے گستاخ کو آزاد کردیا عدالت نے میرا ایمان اور اسلام دونوں خطرے میں ہیں۔ باباجی مسکرا کر بولے کیوں فیصلہ تم نے کیا ہے؟ عرض کیا نہیں وہ تو تین ججوں نے کیا ہے۔ تو پھر تمہارا ایمان کیوں خطرے میں ہے؟ اگر تم کچھ غلط کرتے ہو تو اسکا جواب قیامت کے دن میں دوں گا یا تم دوگے؟ باباجی نے سوالیہ نظروں سے مجھے گھورنا شروع کردیا۔ جی وہ تو مجھے ہی دینا پڑے گا، میں نے عرض کیا۔ تو پھر ججوں کے اعمال کا جواب تم کیوں دوگے اگر بالفرض انہوں نے ایمانداری سے فیصلہ نہیں دیا؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا اسلئے میں نے انکی بات نظر انداز کردی اور پرجوش لہجے میں بولا کہ اس سے اسلام کا کتنا نقصان ہورہا ہے آپکو اندازہ بھی ہے؟ باباجی ایک بار پھر اپنے شفیق انداز میں مسکرائے اور کہنے لگے بات میں وزن ہے مذہب کے حوالے سے پریشانی تو بنتی ہے۔ جب ایک انسان کا مذہب خطرے میں ہو اسکا بے چین ہونا فطری بات ہے۔ انکی تائید سن کر میرا حوصلہ بڑھ گیا اور کچھ کہنے کیلئے منہ کھولنے لگا تھا کہ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ پھر کہنے لگے کہ مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ جس مذہب کو ابولہب اور ابوجہل جیسے مکے کے سردار اس وقت ختم نہیں کرسکے جب اسکے ماننے والے بمشکل آٹھ دس لوگ تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے پھر جب ایک شہر مدینہ میں بمشکل تین سو تیرہ کے لشکر پر ہزار جنگجووں کے حملے میں بھی اسکا کچھ نہ بگڑا اور قیصر و کسریٰ بھی اسے نہ مٹا سکے اس عظیم مذہب کو ایک کمزور سی خاتون سے اتنا خطرہ کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ ایک بار پھر مجھے دلیل سے مات دے چکے تھے اس لئے میں نے پینترا بدلا۔ عرض مجھے ان سب چیزوں سے کوئی غرض نہیں لیکن اگر روز قیامت میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کہ میری شان میں گستاخی ہوئی تو تم نے کیا کیا تو پھر میں کیا جواب دوں گا؟ کونسا منہ دکھاؤں گا اس آقا کو جو میرے لئے رات رات بھر روتے ہوئے اللہ کے حضور سجدے میں پڑے رہتے تھے کہ اللہ میرے اس گنہگار امتی کا حساب مجھ سے لے لو اسکو کچھ نہ کہنا۔ کیا میں ایسے نبی کی شان میں گستاخی پر نہ تڑپوں؟
باباجی نے بڑے حوصلے سے میری بات سنی انکی آنکھوں میں آنسو تھے۔ کہنے لگے بنتا ہے بالکل بنتا ہے۔ اب پہلا سوال تو یہ ہے کہ تم نے اس خاتون کو گستاخی کرتے دیکھا ہے یا سنی سنائی بات ہے؟ عرض کیا دیکھا تو نہیں۔ پھر کہنے لگے اچھا تو تم نے مکمل تحقیق کی ہوگی جن گواہوں کے سامنے گستاخی کی انکے بارے میں بھی تحقیق کی ہوگی کہ وہ واقعی سچے ہیں اور انکی باتوں کو عقل دلیل اور منطق کی کسوٹی پہ رکھ کر پرکھا ہوگا اور پھر یقین آگیا ہوگا کہ وہ واقعی گستاخ ہے تب تمہیں اتنا غصہ ہے؟ عرض کیا ایسا تو کچھ نہیں کیا۔ اچھا تو سپریم کورٹ کے ججوں نے کسی سے سنا ہوگا کہ اس نے گستاخی نہیں کی اور انہوں نے عجلت میں فیصلہ دے دیا ہوگا؟ عرض کیا نہیں وہ تو کئی سال سے کیس سن رہے تھے۔ اب باباجی تیوری چڑھا کر بولے کہ اچھا تم نے کوئی تحقیق نہیں کی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے تین ججوں نے کئی سال لگا کر اس کیس کو سنا اور اب تم ٹھیک ہو اور وہ غلط ہیں؟ یہ کونسی منطق ہے ذرا وہ منطق مجھے بھی سمجھاو تاکہ اپنے بنی کے سامنے میں بھی سرخ رو ہونے کا شرف حاصل کرلوں۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
مجھے خاموش پاکر شاید باباجی کو ترس آگیا۔ نرم لہجے میں بولے بیٹا ان سب باتوں کا جواب تو رحمت دو عالم پہلے ہی دے چکے ہیں اگر تمہیں نہیں پتا یہ تمہاری کمزوری ہے۔ جب اسلام کے ابتدائی ایام تھے اور مسلمان بہت کمزور تھے تو ابوجہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی۔ اور گستاخی اس درجہ کہ میں وہ الفاظ اپنی زبان پر لانا اور دہرانا بھی کفر سمجھتا ہوں۔ جب سید الشہداء امیر حمزہ کو خبر ملی ابھی وہ مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے تو بجائے گھر جانے کے سیدھے ابوجہل کے پاس گئے بغیر سوال جواب کے کمان اس زور سے اسکے سر میں ماری کہ اسکا سر پھٹ گیا۔ اور پھر للکار کر پورے مجمعے کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر کسی نے میرے بھتیجے محمد کے ساتھ آئندہ سروکار رکھا تو اسکا انجام اس سے بھی بدتر ہوگا۔ پھر اپنے بھتیجے کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں بھتیجے مجھے پتا چلا کہ آج دن کو کیا ہوا تھا۔ اور میں نے آپکی ہتک کا بدلہ لے لیا اور آپکے دشمن کا سر پھاڑ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتا ہے جواب میں کیا کہا؟ فرمانے لگے مجھے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی اگر آپ یہ کہہ دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور پھر حمزہ رضی اللہ عنہ نے اپنے محبوب بھتیجے اور اسکے رب دونوں کو راضی کرلیا۔
بیٹا حمزہ تو خو قسمت تھے۔ جب یہ واقعہ ہوا وہ اسی دنیا میں تھے۔ لیکن ہم اتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔ جب ہمارا سامنا اپنے نبی سے ہوگا تو ہمارے اعمال نامے بند ہوچکے ہوں گے۔ اور تب جب اللہ کے رسول یہ فرمائیں گے کہ مجھے اس سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی کہ تم میری ایک سنت کو زندہ کرلیتے تو ہم کیا جواب دیں گے؟ کیا ہم سب مسلمان ہمہ وقت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دل آزاری میں مصروف نہیں؟ ہم وہ سب کام کرتے ہیں جن سے انہوں نے منع کیا اور ان سب کاموں کو چھوڑ دیا جنکا انہوں نے حکم دیا۔ کبھی اس پر بھی سوچا؟
میرے پاس جواب میں کہنے کیلئے کچھ نہیں تھا سوائے میرے ان سب برے اعمال کے جن پر اللہ نے پردہ ڈالا ہوا ہے اور جو اگر لوگوں کو معلوم ہوجائیں تو مجھ پر تھوکنا بھی گوارا نہ کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں