ہم نہ تھے طالع مسعود سکندر جیسے
اور دنیا بھی نہ چھوڑی ہے قلندر جیسے
جب تیرے در سے اٹھائے گئے محسوس ہوا
آسماں زور سے پٹخا ہو زمیں پر جیسے
آنکھ چھلکی ہے تمہیں دیکھ کے حیران نہ ہو
چودھویں رات کو بپھرا ہو سمندر جیسے
کیسے گزرے ہیں شب و روز بچھڑ کر تم سے
صبح تا شام چلے جسم پہ خنجر جیسے
میں بھی پیاسا تھا ذرا دید کی خواہش کرکے
حلق میں تیر لگا ہے علی اصغر جیسے
سیف معلوم نہ تھے دشت کے رستے پہلے
تھام کر ہاتھ چلا عشق ہو رہبر جیسے
سیف اللہ خان مروت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں