نہ لگاو زخم نئے نئے کہ پرانے زخم ادھڑ گئے
نہ چلے تھے ساتھ میں دو قدم سر راہ جن سے بچھڑ گئے
میں تیری تلاش میں چل دیا سر راہ تجھ کو پکار تا
جو قدم کے آبلے مٹ گئے تو زباں میں آبلے پڑ گئے
میری مانگ عمر دراز تھی جو طویل تر شب غم سے ہو
پھر اک عمر غم میں گزار دی شب وصل لمحے سکڑ گئے
یونہی لغو دعوی ہے سائنس کا کہ سمٹ رہی ہے یہ کہکشاں
کہ ہمارے بیچ کے فاصلے تو پلک جھپکتے ہی بڑھ گئے
نہ لبوں پہ اب تیرا نام ہے جو لکھا تھا دل پہ وہ مٹ گیا
جہاں مل کے نام لکھے کبھی وہ درخت جڑ سے اکھڑ گئے
سیف اللہ خان مروت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں