منگل، 16 فروری، 2021

کے ‏ٹو ‏نامہ ‏قسط ‏10

کے ٹو بیس کیمپ سے کانکورڈیا
18 جولائی 2018

صبح سویرے اٹھے اور خیمے سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو ایسا لگ رہا تھا جیسے خیمہ ٹوٹ کر بکھر رہا ہو۔ رات کی برفباری کی وجہ سے خیمے پر برف کی تہہ جم چکی تھی تو ٹوٹ کر گر رہی تھی۔ آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو آسمان صاف تھا۔ یہ دیکھ کر خوشگوار سا احساس ہوا۔ پہاڑوں میں صبح صبح خیمے سے نکل کر آپ کی پہلی نظر آسمان کی طرف ہی اٹھتی ہے اس دعا کے ساتھ کہ موسم صاف رہے۔
کچن ٹینٹ میں ناشتہ بن رہا تھا۔ پورٹرز نے جہاں رات گزاری تھی وہ دیکھی تو یقین نہیں آیا کہ انہوں نے یہاں رات بسر کی ہے۔ پلاسٹک کی شیٹ جو کمروں کی چھتیں بناتے وقت اوپر بچائی جاتی ہے وہ پتھروں کی ایک چارفٹ اونچی عارضی دیوار کے سہارے اوپر لگا کر سب اسکے نیچے لیٹے تھے اور یہیں یہ ٹھنڈی رات گزاری تھی۔
ناشتے سے فارغ ہوکر اپنا سامان پیک کیا اور اور اپنا بیک پیک لیکر میموریل کی طرف چل پڑے۔ کے ٹو میموریل بیس کیمپ پہنچتے ہوئے بائیں طرف پہاڑ کا ایک چھوٹا سا کونا ہے جسکی اونچائی اتنی زیادہ نہیں۔ وہاں سیکڑوں کی تعداد میں ان لوگوں کی یادگاریں ہیں جو کے ٹو کی محبت میں زندگی ہار کر امر ہوگئے۔ جسکے جسم کا کچھ حصہ یا سامان کا کچھ حصہ مل گیا تو وہ رکھ دیا نہیں تو انکے نام کی تختی لگا دی۔ کچھ تختیاں باقاعدہ چھپی ہوئی ہیں کچھ لوگوں کے نام تاریخ پیدائش اور وفات سٹیل کی پلیٹ یا ٹرے پر کیل ٹھوک ٹھوک کر لکھی ہوئی ہے۔ کسی کی کھوپڑی کی ہڈیاں ٹوکری میں پڑی ہیں تو کسی کا جبڑا کہیں کسی کو مل گیا تو وہ رکھ دیا۔
آدھے گھنٹے میں ہم اوپر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر ایک عجیب طرح کا احساس ہوتا ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا۔ احترام اور دکھ کا ملا جلا سا احساس ہوتا ہے۔ ان لوگوں میں 20 سے 25 سالہ نوجوان بھی ہیں اور 60، 65 سالہ کوہ پیما بھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں موت نہیں ڈرا سکی اور جنہیں دنیا کی آسائشوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ سرپھرے لوگوں کا مسکن ہے۔ اس یاد گار پر کھڑے ہوکر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کے ٹو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہو،
ہٹ کر چلے وہ ہم سے جسے سر عزیز ہو
ہم سر پھروں کے ساتھ کوئی سرپھرا چلے
یہاں اہل خرد کی کوئی جگہ نہیں۔ یہ مجنووں کا مسکن ہے۔ ایسے مجنوں جن کی لیلی پہاڑ ہیں جہاں پہنچتے پہنچتے بھی کئی پہاڑوں برفانی تودوں اور بپھری ہوئی ندیوں کو عبور کرکے آنا پڑتا ہے۔ جہاں چاروں طرف فلک بوس پہاڑ ہیں جن کی چوٹیاں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ جہاں انسان کو اپنا آپ بہت ہیچ اور حقیر محسوس ہوتا ہے۔ یہاں آکر آپ سوچتے ہیں کہ میں جو خود کو اتنا بڑا محسوس کرتا رہا درحقیقت کتنا چھوٹا ہوں۔ پہاڑ کتنے بڑے ہیں۔ جس نے پہاڑ بنائے وہ کتنا بڑا ہے۔ پھر صرف یہی پہاڑ ہی نہیں اور پہاڑ کتنے ہیں پھر صرف پہاڑ ہی نہیں صحرا، جنگل، سمندر میدان یہ پوری زمین، پھر یہ پوری کہکشاں اور پھر ایسی ہزاروں لاکھوں کہکشائیں۔ انسانی ذہن کی سوچنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے لیکن اس خالق کی بڑائی کے ایک حصے کا بھی احاطہ نہیں کرپاتی۔ پہاڑوں میں جب بھی مجھے تنہائی میسر آتی ہے تو میرا ذہن بہت دور دور تک بھٹک جاتا ہے۔
کے ٹو کے سوختہ پروانوں کیلئے مشترکہ دعا کی۔ اس دعا میں مسلمان، عیسائی، اور بدھ مت کے پیروکار سب شامل تھے۔ اسکے بعد بیس کیمپ پر موجود زندہ کوہ پیماوں کی سلامتی کی دعا مانگی۔ اور پھر تصویریں بنا کر آہستہ آہستہ نیچے کی طرف سفر شروع کردیا۔
واپسی کے سفر میں عباس ساتھ تھا جو کہ ایک انتہائی تجربہ کار گائیڈ ہے اسلئے راستے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ براڈ پیک بیس کیمپ پر ہم سب اکٹھے ہوگئے۔ تھوڑی دیر سستائے اور اسکے بعد پھر سفر شروع ہوا۔ براڈ پیک بیس کیمپ سے کانکورڈیا تک ویسے تو راستہ سیدھا ہے اور آپ بغیر گائیڈ کے بھی جاسکتے ہیں کیونکہ کیمپ سامنے نظر آرہا ہوتا ہے اور دائیں بائیں بھٹکنے کے امکانات نہیں ہوتے۔ لیکن کیمپ سے ڈیڑھ دو کلومیٹر کے فاصلے پر نیچے گلیشئیر تک اتر کر پھر اوپر چڑھنا ہوتا ہے جہاں کیمپ آپکو نظر نہیں آتا اور یہاں ذرا مشکل پیش آتی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں ہمارے اپنےگائیڈ کو راستہ بھولنے کی عادت تھی اور وہ بڑی مستقل مزاجی سے راستہ بھول کر ہمیں دائیں بائیں گھماتے رہے۔ پیدل چلتے اور پہاڑی ڈھلوانوں پر چڑھتے اترتے ہمیں مسلسل 9 دن ہوچکے تھے اور یہ دسواں دن تھا اسلئے توانائی اتنی بچی تھی کہ اسے ضائع نہیں کیا جاسکتا تھا۔ گائیڈ ہمیں ایک طرف لے گیا کہ یہاں سے ہم شارٹ کٹ لیکر جاتے ہیں۔ آگے جاکر دیکھا تو ایک بہت بڑی برفانی دراڑ منہ کھولے ہمیں نگلنے کے لئےگویا منتظر تھی۔ چار و ناچار واپس لوٹنا پڑا۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی تھی جسکا میں نے راستے میں اپنے باورچی کے اسسٹنٹ حسین سے بھی ذکر کیا تھا۔ وہ اسی لئے ہمیں چھوڑ کر تیزی سے آگے نکل گیا تاکہ ہمارے پہنچنے سے پہلے کھانے کا بندوبست کرسکے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کھانے تک پہنچا کیسے جائے۔ میرے ساتھی کو میری بھوک کی فکر ہورہی تھی۔ اسلئے جب دو تین بار راستہ بھولے تو اس نے گائیڈ پر برسنا شروع کردیا۔ ظاہر ہے گائیڈ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ مجھے اس پر بہت ترس آیا کیونکہ وہ بھی اتنا ہی چلا تھا جتنا ہم چلے تھے بلکہ اس سے کچھ یاد ہی چلا تھا۔ دو تین اور پورٹر کے سامنے اسکو ڈانٹ پڑی تو مجھے بہت برا لگا۔ اگرچہ غصہ تو مجھے بھی آرہا تھا لیکن کسی کے سامنے اسکو ڈانٹ کر اسکی عزت نفس مجروح کرنا مجھے ناگوار گزرا۔ میں نے آگے جاکر اپنے ساتھی کو ڈانٹا شروع کردیا کہ اس طرح سب کے سامنے ڈانٹ کر غلط کیا اگر صرف ہم ہوتے تو کوئی بات نہیں تھی۔
پہاڑوں میں تھکاوٹ اور جسم میں آکسیجن کی کمی اور بے آرامی آپ کے مزاج کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ کبھی آپ کو شدید چڑچڑے پن کے دورے پڑتے ہیں تو کبھی بے اختیار رونے کو دل کرتا ہے۔ میری ڈانٹ کا اثر یہ ہوا کہ میرے ساتھی نے منہ پھلا لیا اور ساتھ چلنے سے انکار کردیا۔ میں آگے نکل گیا یہ سوچ کر کہ خود ہی تھوڑی دیر میں آجائے گا۔ جہاں ہم تھے وہاں سے نیچے جاکر پھر ایک برفانی تودے کو عبور کرنا تھا جسکی برف بہت سخت تھی اور چڑھائی ذرا مشکل تھی۔ اکیلے آدمی کا جانا درست نہیں تھا کہ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے تو کوئی آس پاس تو ہو گرتے ہوئے دیکھ لے تاکہ بعد میں زندہ آدمی یا کم سے کم لاش ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔ میں اس برفانی تودے سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ سامنے کیمپ نظر آرہا تھا جو بمشکل ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ حسین وہاں سے اشارے کر رہا تھا کہ کھانا تیار ہے لیکن میں اپنے ساتھی کا منتظر تھا۔ آدھا گھنٹہ بیٹھے رہنے کے بعد بھی جب نہ اسکے کوئی آثار نظر آئے نہ میں اپنی جگہ سے ہلا تو حسین نے یہ سمجھ لیا کہ ہم تھک گئے ہیں اور چل نہیں پارہے۔ وہ ایک تھرماس لیکر تیزی سے ہماری طرف آنے لگا اور دس منٹ میں پہنچ گیا۔ وہ نوڈلز بنا کر لایا تھا۔ اتنی دیر میں پیچھے آنے والے بھی پہنچ گئے۔ نوڈلز کھانے کے بعد کچھ توانائی بحال ہوئی اور ہم نے دوبارہ چلنا شروع کردیا۔ شام سے پہلے ہم واپس کیمپ پہنچ گئے۔
کونکورڈیا میں ایک خیمے میں ایک جنرل سٹور ہے۔ یہاں ضروری اشیاء جیسے مٹی کا تیل آٹا، چینی، پتی، کولڈ ڈرنکس، سیگریٹ، نسوار وغیرہ مل جاتی ہیں۔ شام کی نماز پڑھنے میں اس خیمے کے  اندر گیا۔ خیمہ اندر گرم تھا اور نماز کیلئے جگہ ذرا کھلی تھی۔ نماز پڑھنے کے بعد وہیں بیٹھ گیا۔ ہمارے باورچی حسن بھی وہاں آئے اور آٹا لینے لگے۔ میں نے پوچھا کہ آٹا کیوں کم ہوا کوئی اضافی دن تو ہم نے نہیں گزارا ابھی تک منصوبے کے مطابق ہی چل رہے ہیں۔ تو اس نے بتایا کہ دراصل ہم کچھ چاول ساتھ لائے تھے لیکن چونکہ آپ چاول نہیں کھاتے اسلئے آٹا تھوڑا کم پڑ رہا ہے۔ اس نے دوکلو آٹا لیا جو 450 روپےفی کلو کے حساب سے تھا۔ تب آٹا غالبا 25 یا 30 روپے کلو تھا۔ یہ قیمت سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ میں نے پوچھا گولڈ لیف کی ڈبی کتنے کی ہے تو پتا چلا 500 کی۔ اسکے بعد میں نے کسی اور چیز کی قیمت نہیں پوچھی۔
اس سٹور کا مالک ایک دلچسپ آدمی تھا۔ اس کے ساتھ گپ شپ ہوتی رہی۔ کہنے لگا کیا مصیبت پڑی تھی جو اتنے دور پیاڑوں میں خوار ہورہے ہیں آرام سے اپنے گھر میں پڑے رہتے گاڑی میں ادھر ادھر گھومتے عیش کی زندگی گزارتے ان پہاڑوں میں کیا رکھا ہے۔ مجھے تو مجبوری نہ ہو تو کبھی پہاڑوں میں نہ آوں۔ میں نے کہا جس طرح آپ کے لئے اس زندگی میں دلکشی ہے اور آرام پسند ہے اسی طرح مجھے ان مشکلوں میں مزہ آتا ہے۔ کہنے لگا یہاں آپ نے کوے دیکھے ہیں بڑے بڑے؟ میں نے کہاں ہاں دیکھے ہیں۔ کہنے لگا یہ کوے نہیں ڈائنیں ہیں۔ میں ہنس پڑا پوچھا وہ کیسے۔ کہنے لگا جب پہاڑوں پہ کوئی مرتا ہے تو یہ سب سے پہلے اسکی آنکھیں نکال لیتی ہیں پھر اسکے بعد چہرہ نوچتی ہیں ۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے اسکی آنکھیں سب سے پہلے کھائی گئی ہوتی ہیں۔ میں نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اسکی ایک وجہ ہے۔ کہنے لگا وجہ یہی ہے کہ یہ ڈائنیں ہیں اور ڈائنیں آنکھیں کھاتی ہیں۔ میں نے کہا نہیں وجہ یہ ہے کہ پہاڑوں پر جب کوئی مرتا ہے تو پاوں میں بوٹ پہنے ہوتے ہیں اوپر گلے تک موٹے موٹے کپڑوں میں ملبوس ہوتے ہیں، سر پر اونی ٹوپی ہوتی ہے ہاتھوں میں دستانے ہوتے ہیں اور صرف چہرہ ہی کھلا رہتا ہے۔ اب ایسے میں کوا آنکھیں اور چہرہ ہی نوچے گا باقی جسم تو اسے کھلا ملتا نہیں۔ پھر اسکے بعد پہاڑ پر مرنے والوں اور انکی یادگاروں کی باتیں ہونے لگیں۔ میں نے کہا یہ لوگ خوش قسمت تھے جو اپنا شوق پورا کرتے ہوئے مرے۔ کہنے لگا ایسی خوش قسمتی کا کیا فائدہ۔ آپ خوش قسمت بننا چاہتے ہیں اور وہاں تختی لگانا چاہتے ہیں تو مجھے پیسے دے دینا میں وہاں لگا کر آجاوں گا اسکے لئے پہاڑ کے اوپر جاکر مرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اسکے بعد اسنے غونڈوغورو کے بارے میں بات شروع کی اور اب تک جتنے حادثات ہوئے تھے سب کی تفصیلات بتائیں کتنے لوگ کب اور کیسے مرے۔ اب مجھے سمجھ آنے لگی بات کہ وہ یہ ساری باتیں ہمارے گائیڈ کے کہنے پہ کر رہا ہے تاکہ ہم غونڈوغورو پاس کی بجائے اسی راستے الٹے قدموں لوٹ جائیں۔ مجھے ہنسی آگئی۔
کھانا تیار ہوچکا تھا اور کچن سے سٹاف والے آوازیں دینے لگے۔ ہم کچن ٹینٹ میں گئے اور کھانا کھایا۔ اسکے بعد حسب معمول اگلے دن کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ گائیڈ کی ابھی بھی رائے تھی کہ ہم اسی راستے واپس چلیں کیونکہ موسم خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ میں نے کہا کہ اگر بات صرف موسم کی ہے تو پھر تو مسئلہ حل ہوگیا۔ صبح اٹھ کر دیکھیں گے اگر موسم ٹھیک ہوا تو آگے جائیں گے ورنہ پیچھے لوٹ جائیں گے۔ گائیڈ کو کچھ نہ کچھ تسلی ہوئی کیونکہ اسکی پیشن گوئی کے مطابق رات کو موسم خراب ہوگا۔ میں نے کہا کہ مجھے زندگی میں پہاڑوں پر کبھی بھی خراب موسم نے نہیں روکا ہمیشہ موسم صاف ملا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ کل یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے یا جاری رہتا ہے۔ وہ پھر بتانے لگا کہ اس طرف سے چڑھنا مشکل ضرور ہے لیکن اتنا خطرناک نہیں برف جمی ہوئی ہے لیکن دوسری طرف سے اترنا بہت مشکل ہے۔ رسی سے لٹک کر اترنا پڑتا ہے اور ایک پاوں غلط پڑنے سے موت ہوسکتی ہے یا اوپر سے کسی اور کا پاوں غلط پڑا اور ایک پتھر لڑھکا دیا تو پورا گروپ مارا جائیگا اور پھر کئی ایسے واقعات سنائے۔ میں نے اسکی باتیں تسلی سے سن کر کہا کہ دیکھیں گے یا تو زندہ لوٹ جائیں گے یا پھر لوگوں کو سنانے کیلئے ایک اور گروپ کی موت کی کہانی بن جائیگی۔ بہر حال صبح موسم دیکھ کر فیصلہ کریں گے ابھی دونوں راستے کھلے رکھیں۔
اسکے بعد خیمے میں آکر سوگیا۔ آدھی رات کو باہر شور سنائی دیا۔ جب پوری طرح جاگا تو پتا چلا کہ باہر بہت تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا جیسے خیمہ اکھڑ جائیگا۔
(ابھی بھی جاری ہے)

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...