اسکولی سے جولا کیمپ (حصہ اول)
اسکولی کیمپ وہ آخری مقام ہے جہاں تک کوئی گاڑی جا سکتی ہے۔ اس مقام سے آگے پیدل یا خچر کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اسکولی میں کافی ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔ ایک چھوٹا سا ہوٹل ایک دوکان اور ساتھ کیمپنگ ایریا۔ ہمارا کچن ٹینٹ نہیں لگا تھا اسلئے گائیڈ نے کہا کہ کھانا ہوٹل سے ہی کھائیں گے۔ اس نے کھانے کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا کہ میں تو دال خورا ہوں لیکن وہ سمجھے شاید میں تکلف برت رہا ہوں اسلئے اس نے چکن کڑاہی کا آرڈر دے دیا۔ ہم ایک بغلی کمرے میں جا کر بیٹھ گئے۔ کمرے کے اندر قدرے گرم ماحول بہت بھلا لگ رہا تھا۔ ایک کونے میں کمبل اور رضائیوں کا ڈھیر پڑا ہوا تھا۔ ایک رضائی بچھا کر اور ایک کمبل اوپر ڈال کر دبک کر بیٹھ گئے۔ یہ ٹھنڈے موسم کیساتھ پہلا تعارف تھا۔ اگرچہ سکردو میں بھی موسم کافی بہتر تھا لیکن وہاں پنکھا ہلکی رفتار سے چلا کر کمبل ڈالنا پڑتا تھا۔ یہاں سردی قدرے زیادہ تھی۔ آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد کھانا آگیا۔ تندور کی گرم روٹیوں کی خوشبو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس مہک نے بھوک کو اور بھڑکایا اورمیں نے اتنا کھانا کھایا جتنا کھا سکتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد دوکان کی طرف گئے وہاں سے کچھ چھوٹی موٹی چیزیں مثلا اضافی جرابیں، اونی دستانے، سرسوں کا تیل کچھ ٹارچ کیلئے اضافی سیل وغیرہ خرید لئے۔ کچھ خشک کھجوریں بھی لے لیں کہ شاید آگے کام آجائیں۔ تب تک ہمارے ٹینٹ تیار ہوچکے تھے اسلئے ٹینٹ میں جاکر لیٹ گئے اور صبح کا بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ سلیپنگ بیگ جو بطور خاص کوئٹہ سے لیا تھا پہلی بار کھولا۔ بنانے والے کا دعویِ ِتھا کہ یہ منفی تیس درجے فارن ہائٹ تک کھلے آسمان تلے کام کر سکتا ہے لیکن اسمیں گھسنے کے بعد اندازہ ہوا کی شاید اس سے بھی زیادی سردی برداشت کرلیگا۔ ابھی اسکی ایک پرت استعمال کی تھی اور تھوڑی دیر بعد پسینے آنے لگے اسلئے اندر سے نکل کر اسکے اوپر ہی سوگیا۔ جب سردی لگنے لگی تو قمیض اتار کر پھر اندر گھس گیا۔ وہ تو اچھا ہوا نیند آگئی ورنہ نہ جانے کیا کیا اتر جانا تھا۔ صبح سویرے جب باہر کسی گروپ کے گائیڈ کی پہلی گڈ مارننگ سنائی دی تو آنکھ کھل گئی۔ باہر نکل کر دیکھا تو آسمان بالکل صاف تھا۔ یہ ایک اچھا شگون تھا۔ سامان سمیٹ کر کچن ٹینٹ پہنچے جہاں ناشتہ تیار تھا۔ ناشتہ کرکے فارغ ہوئے تو سامان کو پورٹرز کے حساب سے رکسیک میں بند کرکے اسکے بوجھ بنائے گئے۔ حکومت پاکستان کے قوانین کے مطابق ایک پورٹر کو زیادہ سے زیادہ پچیس کلو وزن دیا جا سکتا ہے۔تاہم پورٹر سردار ہر پورٹر کو کم سے کم تیس کلو وزن دیتا ہے۔ اسطرح چھ پورٹرز کا بوجھ پانچ پورٹر اٹھالیتے ہیں اور انہیں ایک پورٹر کے پیسے بچ جاتے ہیں۔ یعنی یہ ایک طرح کا استحصال ہے جو جاری ہے۔ پورٹرز اسکے خلاف آواز بلند نہیں کر سکتے کیونکہ صبح سویرے آس پاس کے دیہاتوں سے بہت سے پورٹر بوجھ کی تلاش میں وہاں آجاتے ہیں اور جس کو بوجھ یعنی مزدوری مل جائے تو وہ بہت خوش ہوتا ہے۔ لیکن پورٹر کے بوجھ کا کل وزن تیس سے بھی کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ پورٹرز اپنے کھانے پینے کا سامان یعنی راشن اور برتن وغیرہ ساتھ لے جاتے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق ہر پورٹر لگ بھگ پینتیس کلو وزن اٹھا کر چلتا ہے۔ پورٹرز کے پاوں میں عام سی چپل یا ربڑ کے بوٹ ہوتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ اچھے جوتے ہوں تو کسی سیاح کی طرف سے دھان کردہ پرانے بوٹ یا لنڈے سے خریدے ہوئے جوگرز ہوتے ہیں۔ ہمارا سامان کچھ پورٹرز نے اٹھا لیا اور کچھ دوسرے گروپ کا وزن اٹھانے والے خچروں پر لاد دیا گیا۔ خچر تین پورٹرز کا بوجھ اٹھاتا ہے یعنی ستر سے اسی کلو کے قریب جبکہ گھوڑا دو بوجھ اٹھا لیتا ہے جو پچاس سے ساٹھ کلو کے قریب بنتا ہے۔ ہمارا وہ گائیڈ جسکا اندراج کاغذات میں ہوا تھا یہیں سے واپس چلا گیا اور ہمیں اسی گائیڈ کے حوالے کردیا جسکو لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے آرمی والوں نے رد کردیا تھا۔ میں نے اسکا نام نان کسٹم پیڈ گائیڈ رکھ دیا۔ ہم نے اپنا وہ تمام ضروری سامان جو راستے میں ضرورت پڑ سکتا تھا اپنے اپنے بیک پیک میں ڈالا اور ٹریک کی طرف بڑھ گئے۔ ہمارے پورٹرز باورچی اور گائیڈ کچن اور راشن پیک کرنے میں لگے ہوئے تھے جنہوں نے بعد میں ہمارے پیچھے چلنا تھا۔ ہماری رہنمائی کیلئے ایک پورٹر آگے چل رہا تھا ہم اسکے پیچھے ہو لئے۔ اسکولی سے آدھا گھنٹا چلنے کے بعد راستہ دائیں طرف مڑگیا جہاں ایک خوبصورت عمارت نظر آرہی تھی۔ وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ قراقرم نیشنل پارک کی حدود یہاں سے شروع ہوتی ہیں اور یہاں پارک میں انٹری کی رجسٹریشن ہوتی ہے اور اسکی فیس ادا کی جاتی ہے۔ یہاں تھوڑی دیر سستانے کر تازہ دم ہوئے اتنے میں گائیڈ بھی پیچھے آن پہنچا۔ فارم بھر کر دستخط کردئیے اور گروپ کی فیس تین ہزار روپے گائید نے ادا کردی۔ پاکستانیوں کیلئے گروپ کی فیس تین ہزار روپے ہے چاہے ممبران جتنے بھی ہوں۔ غیر ملکی سیاحوں کیلئے یہ فیس فی کس کے حساب سے لی جاتی ہے اور فیس زیادہ ہے۔ یہاں سے فارغ ہوکر ہم عقبی دروازے سے نکل کر ایک بار پھر چل پڑے۔ راستے میں چلتے ہوئے گائیڈ نے بتایا کہ گھر سے میں اپنے علاقے کا خاص تحفہ لایا ہوں۔ گائیڈ کا گھر اسکولی کیمپ سے ایک گھنٹہ پیدل مسافت پر تھا اسلئے رات کو وہ اجازت لیکر شب گزاری کیلئے گھر چلا گیا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ گزشتہ رات میرے بہنوئی نے چوری چھپے ایک مارخور کا شکار کیا تھا۔ ہمارے یہاں شکار کا گوشت سب رشتہ داروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ میں نے گوشت کا یک حصہ آپ لوگوں کیلئے الگ کروایا تھا اور رات کے کھانے میں وہی گوشت پکائیں گے۔ ٹریکنگ اور ہائیکنگ میں دوپہر کا کھانا واجبی سا ہوتا ہے۔ صبح ناشتے کے وقت ہی بنا کر پیک کرلیا جاتا ہے اور دوپہر میں کہیں رک کر کھا لیا جاتا ہے۔ باقی سامان منزل پر پہنچ کر ہی کھولا جاتا ہے تاہم چائےاور سوپ کے برتن الگ رکھے جاتے ہیں اور دوپہر میں سوپ اور چائے بنائی جاتی ہے۔ راستہ ہموار تھا کوئی خاص اتار چڑھاو نہیں تھے اسلئے چلنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آرہی تھی۔ موسم بالکل صاف تھا اور بہت تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی جسکی وجہ سے گرم جیکٹ میں پسینے آنا شروع ہوگئے۔ ٹریکنگ کیلئے گرم جیکٹ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اور جیکٹ سب سے اچھی وہی ہوتی ہے جو گرم ہونے کے ساتھ ساتھ وزن میں سب سے ہلکی ہو۔ سب سے مناسب زداون جیکٹ ہوتی ہے۔ اس مِیں پرندوں کے پر بھرے ہوتے ہیں اور بہت ہلکی لیکن انتہائی گرم ہوتی ہے۔ جسم کی گرمی سے اسکے اندر ہوا پھیل جاتی ہے اور اسکی موٹائی میں اضافی ہوجاتا ہے۔ عام جیکٹ سے یہ کم سے کم پانچ گنا اور لیدر جیکٹ سے دس بیس گنا ہلکی ہوتی ہے۔ عموما لوگ گرمی محسوس کرتے ہی جیکٹ اتار دیتے ہیں جبکہ ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہئے۔ ٹھنڈی ہوا لگنے کی وجہ سے پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور سفر میں آپ کو بہت دشواری پیش آسکتی ہے۔ چلتے ہوئے جسم جتنا گرم رہے اتنا ہی اچھا ہے۔ پسینہ نکلنے سے اگر چہ پیاس زیادہ لگتی ہے لیکن پانی کی بوتلیں ساتھ ہوتی ہیں جو اگر خالی بھی ہوجائیں تو راستے میں کسی چشمے یا جھرنے سے بھری جا سکتی ہیں اسلئے کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ ایک اور بات جو میں نے ذاتی تجربے سے اخذ کی ہے وہ یہ کہ چلتے ہوئے کم سے کم رکیں اگر رک جائیں تو بیٹھنے سے حتی الوسع گریز کریں اور اگر بیٹھنا بہت ضروری ہو تو زیادہ دیر نہ بیٹھیں۔ زیادہ دیر بیٹھنے کے بعد پٹھوں میں کھچاو محسوس ہوتا ہے اور دوبارہ چلنا کافی مشکل ہوجا تا ہے۔ چلتے ہوئے سانس پھولنے لگے تو رفتار آہستہ کرلیں اور جب سانس بحال ہوجائے تو دوبارہ معمول کی رفتار سے چلتے رہیں۔ اپنے معمول کی رفتار سے تیز یا آہستہ چلنے سے تھکاوٹ جلدی ہوجاتی ہے۔ بارہ بجے کے قریب ہمیں درختوں کا ایک جھنڈ دکھائی دینے لگا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہم کچھ دیر کیلئے یہیں پڑاو ڈالیں گے اور دوپہر کا کھانا کھائیں گے اور پھر اپنا سفرجاری رکھیں گے۔ درخت کے نیچے اپنا بیک پیک رکھ کر اور جیکٹ بوٹ وغیرہ اتار کر تھوڑی دیر سستانے سے جو سکون ملا وہ سکون پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا۔ بوتل کا پانی دھوپ کی وجہ سے گرم ہوچکا تھا اور اس سے پیاس نہیں بجھ رہی تھی۔ میں نے اپنے بیگ سے ایک لمبی ڈوری نکالی اور بوتل کیساتھ باندھ کر ندی میں ڈال دی اور ایک جھاڑی کیساتھ باندھ دیا۔ یہ ندی اوپر کسی گلیشئر سے آرہی تھی اور اسکا پانی بہت ٹھنڈا تھا۔ میں نے اسے بطور فرج استعمال کیا۔ تھوڑی دیر بعد نوڈلز سوپ تیار ہوکر آگیا۔ اور ساتھ پراٹھے، انڈےاور پنیر کی ڈلیاں۔ کچھ کھجوریں اور خشک خوبانیاں بھی ساتھ تھیں۔ اسکے بعد چائے کا دور چلا۔ تقریبا ایک گھنٹا سستانے اور کھانے پینے کے بعد سفر ایک بار پھر شروع ہوگیا۔ ہم خوشی خوشی چل پڑے اس بات بے خبر کہ آگے حادثہ منتظر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں