منگل، 16 فروری، 2021

کے ‏ٹو ‏نامہ ‏قسط ‏6

خوبرسے سے اردوکس کیمپ تک
14 جولائی 2018

صبح سویرے اٹھے تو طبیعت اتنی ہشاش بشاش نہیں تھی۔ پچھلے دن کے مشکل سفر کی وجہ سے جسم میں جگہ جگہ درد محسوس ہورہا تھا۔ اگرچہ ابھی ٹانگوں نے جواب نہیں دیا تھا تاہم لگ رہا تھا کہ مسلسل سفر کے آثار جسم پر ظاہر ہورہے تھے۔ ہمارے ساتھ جو اک دوسرا گروپ چل رہا تھا اس میں کچھ تلخی پیدا گے تھی۔ اس گروپ کے ارکان ابھی تک ایک صفحے پر نہیں تھے۔
پہاڑوں میں سفر کرنے کیلئے ساتھی بہت اہم ہوتے ہیں۔ سب لوگوں کی رائے ایک ہونا ضروری ہے۔ اب اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ یا تو گروپ پہلے سے اکٹھے سفر کرتا رہا ہو اور ایک دوسرے کا احترام موجود ہو اور پھر گروپ کا لیڈر ایسا ہو جو اپنی بات منوا سکے۔ اس گروپ میں ایک کمپنی کا مالک تھا جو ڈرون کیمرے سے اشتہاروں کیلئے وڈیوز بناتا جاتا تھا اور اپنی مرضی سے چل رہا تھا۔ دوسری کراچی کی ایک خاتون تھی جسکے لئے چلنا مشکل ہورہا تھا اور خوبرسے پہنچتے پہنچتے اسکی ٹانگیں جواب دے گئی تھیں لیکن وہ آگے جانے پر ضد تھیں۔ ایک پشاور کا پٹھان تھا جو گائیڈ کی کم سنتا اور اپنی مرضی زیادہ کرتا۔ اور ایک پرتگال کا ٹریکر تھا جو جسمانی لحاظ سے کافی مضبوط تھا اور اپنے گروپ کی سست رفتاری سے خاصا نالاں تھا۔ پچھلے روز کیمپ پہنچنے کے بعد ان میں کچھ تند و تیز باتیں ہوئیں لیکن مسئلہ کسی نہ کسی طرح حل ہوگیا تاہم انکا گائیڈ مطمئن نہیں تھا اور اسکا شکوہ یہی تھا کہ سب اپنی مرضی سے چلتے ہیں اس کی کوئی نہیں سنتا۔ صبح وہ ہم سے پہلے ہی چل پڑے تھے۔ ہم بھی اپنا سامان سمیٹ کر چل پڑے۔ اب راستہ بلتورو گلیشئیر کے دائیں طرف پہاڑ کے ساتھ تھا۔ جہاں پہاڑ راستہ نہ دیتا وہاں گلیشئیر کی طرف اتر کر گزرتے اور پھر پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلنے لگتے۔ یہ کل کے راستے جتنا مشکل اور خطرناک نہیں تھا لیکن تھکا دینے والا ضرور تھا۔ پہاڑ کے دامن میں مختلف قسم کی جھاڑیاں تھیں اور چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے خوبصورت پھول کھلے ہوئے تھے۔ ہماری رفتار سست تھی۔ بار بار رکنا پڑ رہا تھا۔ ہر بار نڈھال ہوکر یہی سوچتے کہ مزید آگے جانے کا واقعی کوئی فائدہ ہے۔ لیکن جونہی سانس بحال ہوتی اور جسم میں توانائی لوٹ آتی دوبارہ سفر شروع ہوجاتا۔ اب پائیو پیک ہمارے پیچھے تھی اور ٹرینگو ٹاور بائیں طرف گلیشئر کے پار بہت واضح اور نظر آرہا تھا۔ ٹرینگو ٹاور بچپن میں کسی سیگریٹ کے اشتہار میں ٹی وی پر دیکھا تھا۔ ٹرینگو ٹاور کی ساخت بالکل ایسی ہے جیسے کسی نے ایک بہت بڑی سیدھی چٹان کھڑی کردی ہو۔ راستے میں گلیشئیرز کا مشاہدہ کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ ڈیڑھ دو کلومیٹر چوڑے اور نامعلوم گہرائی کے اس برفانی دریا کے اوپر اتنے بڑے بڑے پہاڑ نما پتھر کہاں سے اور کیسے آگئے۔ پتھر نزدیکی پہاڑ سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر بھی تھے۔ اور وہ ڈھلان اتنی بڑی نہیں تھی کہ اتنا بڑا پتھر اتنی دور تک کسی طرح لڑھک کر پہنچ جائے۔ لہذا یہ مفروضہ تو غلط تھا۔ دوسرا مفروضہ یہ ہوسکتا ہے کہ جوبرف نظر آرہی ہے یہ پہلے سے موجود تھی اور پھر اوپر سے پانی کا کوئی بہت بڑا ریلا ان پتھروں کو یہاں تک لایا۔ یہ اسلئے درست نہیں لگتا کہ یہاں اتنا پانی کہاں سے آیا۔ اس علاقے میں بارش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے سارا سال برفباری ہی ہوتی ہے۔ اور اگر اتنا بڑا ریلا کبھی آیا ہوگا تو میدانی علاقوں میں تو آبادی بچی ہی نہیں ہوگی۔ ایسا صرف طوفان نوح میں ممکن تھا۔ میں یہ سارا سفر گلیشئیرز کی ساخت اور ان کے اوپر موجود پہاڑ نما پتھروں کی گتھی سلجھانے میں الجھا رہا۔ دوپہر کا کھانا راستے میں رک کر کھایا۔ کھانے میں پراٹھے کے اندر آملیٹ رکھ کر پیش کیا گیا جو صبح ناشتے کے وقت بنایا گیا تھا۔
کھانے کا وقفے میں کھانے سے زیادہ اچھا وہ آرام تھا جو اس نسبتا" طویل وقفے کے بعد نصیب ہوا۔ ہمارے ساتھ کے تقریبا" سارے گروپ آگے نکل چکے تھے اور ہمارے پورٹرز بھی۔ ہم اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہے تھے یہ سوچ کر کہ کونسا ہم نے کیمپ میں جلدی جاکر حاضری لگانی ہے۔
تین بجے کے قریب اوپر جھاڑیوں کی طرف اشارہ کرکے گائیڈ نے بتایا کہ وہ اردوکس کیمپ ہے۔ سارے دن کی تھکاوٹ کے بعد یہ چڑھائی عذاب لگ رہی تھی۔ لیکن کیمپ نظر آگیا تھا اسلئے ہم نے اپنی رفتار مزید کم کردی تاکہ طاقت یکجا کرکے اوپر چڑھ سکیں۔ اور پھر رینگتے ہوئے کیمپ میں پہنچ گئے۔ کیمپ میں انتہائی بائیں طرف ایک بہت بڑی چٹان پر میرا خیمہ لگا ہوا تھا۔ یہ کیمپ کی سب سے خوبصورت جگہ تھی۔ یہاں سے ایک طرف پورا کیمپ اور دوسری طرف پورا گلیشئیر نظر آرہا تھا۔
میرے سٹاف والوں کو مجھ سے خصوصی محبت تھی اسلئے جن کے پاس میرا خیمپ ہوتا وہ پورٹر ہر کیمپ میں کوشش کرکے سب سے پہلے پہنچتا اور سب سے اچھی جگہ خیمہ نصب کرتا۔
تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد کیمپ کا جائزہ لینے کیلئے نکل پڑا۔ یہ بھی بہت خوبصورت کیمپ ہے۔ یہاں بڑے درخت تو نہیں لیکن قد آدم جھاڑیاں اور سبزہ کافی مقدار میں ہے۔
16 اگست 2011 کو اس کیمپ میں ایک پہاڑی چٹان گری۔ "ہنزہ گائیڈز پاکستان" کی قیادت میں انگلینڈ کی "دی ماونٹین" کمپنی کے سیاحوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ضلع شگھر سے تعلق رکھنے والے تین پورٹر محمد حسین، محمد اکبر اور محمد ایک چٹان کے نیچے دب گئے تھے۔ اس چٹان پر یادگاری تختیاں لگی ہوئی ہیں۔ ان کے ایصال ثواب کیلئے اس زیر چٹان قبر پر فاتحہ پڑھی۔ کیمپ کے اوپر اب بھی بڑی بڑی چٹانیں موجود ہیں جو زلزلے کی صورت میں کسی بھی وقت لڑھک سکتی ہیں۔ کیمپ کے مشرق میں ایک فوجی کیمپ ہے اور اوپر پہاڑی پر وائرلیس ٹاور بھی نصب کیا گیا ہے۔
شام کے قریب واپس خیمے میں آکر تھوڑی دیر آرام کیا۔ رات کا کھانا تیار ہوا تو کھانا کھایا اور طے یہ ہوا کہ کل دوپہر کو تھوڑی دیر گورو ون Goro-I  پر رکیں گے اور رات گورو ٹو Goro-II کیمپ میں گزاریں گے۔ اس کیمپ کے بعد پہاڑ سے بالکل ہٹ کر بلتورو گلیشئیر کے سینے پر چل کر سفر کرنا تھا. رات کے وقت کل کے سفر کے بارے میں سوچتے سوچتے جانے کس وقت آنکھ لگی اور سوگیا۔۔۔۔۔
جاری ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...