سکردو سے اسکولی تک
ویسے تو ہر سفر کا ہر لمحہ یادگار ہوتا ہے لیکن کچھ سفر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا ایک ایک لمحہ آپکو یاد رہ جاتا ہے۔ آپ کسی بھی لمحے آنکھیں بند کرکے اس سفر کے ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کے ٹو بیس کیمپ جانے کیلئے جب سکردو پہنچے اور شام کو کمپنی کا منیجر ملنے آیا تو اس سے کاغذی کاروائی کے بارے میں بات چیت ہوئی اپنی کِٹ اور سلیپنگ بیگ وغیرہ دکھائے جس پر اس نے اطمینان کا اظہار کیا۔ شاید بہت سے قارئین یقین نہ کرپائیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس لمحے تک میں نے نہ تو کے ٹو بیس کیمپ تک ٹریک کی طوالت کے بارے میں کوئی معلومات حاصل کی تھیں نہ راستے کی نوعیت اور دشواری کے بارے میں۔ صرف ضروری سامان مختلف ویب سائیٹس سے نوٹ کرکے خرید لیا تھا۔ میرا دستورالعمل زندگی بھر کیلئے یہی ہے۔ اگر کوئی مشکل کام کرنا ہے تو اسکے بارے کم سے کم معلومات جو انتہائی ضروری ہوں وہی حاصل کرتا ہوں لمبی چوڑی معلومات اور منصوبہ بندیاں آپ کے ارادوں کو پست کر دیتی ہیں۔ گائیڈ نے پوچھا کہ آپ اس سے پہلے بھی ٹریکنگ کرتے رہے ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا کہ ہاں تھوڑا بہت چلا ہوں۔ اس نے اگلا سوال کیا کہ بڑی سے بڑی ٹریک کتنی تھی؟ عرض کیا ایک دن وہ بھی اگر ریسٹ وغیرہ نکال لیں تو عملی طور پر آدھا دن۔ اس نے عجیب نظروں سے منیجر کی طرف دیکھا اور انہوں نے جیسے آنکھوں آنکھوں میں ہی ایک دوسرے سے پیغامات کا تبادلہ کرکے کہا کہ اچھا کسٹمر ہے آدھے راستے سے بھی پہلے واپس لوٹے گا اور پیسے تو پورے ایڈوانس لے ہی چکے ہیں۔ میں نے سنا تھا کہ اس ٹریک پر سب سے مشکل جگہ غونڈو غورو پاس ہے اسلئے تصدیق کیلئے پوچھا کہ غونڈو غورو پاس پہ مسئلہ تو نہیں ہوگا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہاں تک تو جانا نہیں آپ تو کانکورڈیا سے واپس آجائیں گے۔ تو کیا غونڈو غورو لا ہم کراس نہیں کریں گے؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ اس نے جواب دیا کہ وہ کانکورڈیا سے دو منزل مزید آگے ہے اور وہ آپکے پیکیج میں شامل نہیں ہے۔ میرے لئے یہ مایوس کن خبر تھی۔ میں نے پوچھا اگر ادھر بھی جانا ہو تو کیا کرنا پڑے گا؟ انہوں نے بتایا کہ اسکا مزید خرچہ ہوگا اور اسکے لئے آپکو گیجٹس چاہئے ہوں گے۔ میں نے پوچھا کیا کیا چاہئے ہوگا؟ کہنے لگے کہ کریمپنون، گیٹرز، ہیلمٹ، رسی، ہارنس تو ضرور چاہئے ہوں گے۔ میں نے کہا اس سارے سامان کیساتھ مزید خرچہ بتاؤ۔ انہوں نے حساب کتاب کرکے بتایا کہ کم سے کم تیس ہزار۔ میں بنا سوچے کہہ دیا کہ سامان کا انتظام کر لینا ہم ادھر ہی سے ہوکر واپس آئیں گے۔ اور جیب سے پیسے نکال کر تیس ہزار گن کر دے دئیے۔ وہ دونوں حیرت سے ایک دوسرے
کو دیکھنے لگے۔ پھر وہ اجازت لیکر رخصت ہوگئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کمپنی نے ہماری رجسٹریشن وغیرہ کروانی تھی اور سامان اسکولی روانہ کرنا تھا اور دوپہر کے وقت ہم نے بذریعہ جیپ اسکولی روانہ ہونا تھا۔ گیارہ بجے کے قریب کمپنی کا نمائندہ کٹس لے کر ہوٹل آیا۔ ہم نے اپنی پیکینگ مکمل کرلی تھی اور ذہنی طور پر نکلنے کیلئے تیار تھے۔ لیکن اس نے جانے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔میں بھی ان کے ساتھ چلا گیا۔ ایک فوٹوسٹیٹ کی دکان پر سارے کاغذات وغیرہ تیار ہورہے تھے۔ جب کاغذات تیار ہوگئے تو آرمی کے رجسٹریشن سنٹرہم بھی ساتھ چلے گئے۔ فائل ایک صوبیدار صاحب کے سامنے رکھ دی۔ اسکا انداز انتہائی "صوبیدارانہ" تھا۔ اس نے فائل رکھ لی اور کہا کہ اسپر ہم مزید کاروائی کریں گے آپ لوگ جاسکتے ہیں۔ وہاں سے نکل کر میں نے کمپنی کے منیجر سے پوچھا کہ اگر یہ صورتحال ہے پھر تو آج جانا مشکل لگ رہا ہے۔ اس پر اس نے بتایا کہ کاغذات ہم نے رات کو ہی جمع کر دئیے تھے لیکن چند تکنیکی غلطیوں کی وجہ سے صبح انہوں نے واپس کردئیے جو اب درست کرکے ہم نے دوبارہ جمع کردئے۔ اگر وہ ایک دو گھنٹے میں فائل پاس کردیں تو ہم نکل جائیں گے ورنہ کل جائیں گے۔ ان دنوں سکردو میں پولو ٹورنامنٹ ہو رہا تھا تو ہمارے منیجر نے کہا کہ آپ کو پولو کا میچ دکھانے لے جاتے ہیں۔ لیکن معلومات کروانے پر پتا چلا کہ اس دن کوئی میچ نہیں کھیلا جا رہا تھا۔ لہذا بازار میں گھومنے پھرنے سے بہتر تھا ہم واپس ہوٹل چلے جائیں۔ سنو لینڈ ہوٹل کی سب اچھی بات جو مجھے لگی وہ یہ کہ ایک تو اس مِیں بڑے بڑے لان تھے اور دوسرا وہاں پر چیری اور آلو بخارے کے بہت سے درخت تھے جن پر بلا مبالغہ اتنے پتے نہیں تھے جتنے پھل لگے ہوئے تھے۔ ہوٹل انتظامیہ نے بتادیا تھا کہ آپ جتنا مرضی چیری کھا سکتے ہیں کھاتے رہیں۔ آلو بخارے ابھی پوری طرح پکے نہیں تھے لیکن چیری پک چکی تھی لہذا چرنے چگنے کا پورا نتظام تھا۔ اسلئے ایک دن مزید ٹھہرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ویسے بھی ہوٹل کے منیجر سے لیکر بیرے تک نے جب پوچھا کہ آپ کے ٹو بیس کیمپ جارہے ہیں اور میں نے ہاں میں جواب دیا تووہ حیرت کا اظہار ضرور کرتے۔ جیسے میں پہلے بتا چکا ہوں کہ مجھے رستے کی طوالت اور دشواری کا نہ تو اندازہ تھا نہ پیشگی جاننے کا شوق تھا۔ اب جب میں سوچتا ہوں کہ وہ حیرت کا اظہار کیوں کر رہے تھے تو وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ وہ میری صحت دیکھ کر حیران نہیں پریشان ہو رہے تھے۔ چونکہ ماہ رمضان گزرے ابھی دو ہفتے ہوئے تھے اور ماہ رمضان کے بعد میرا وزن باسٹھ کلو سے گھٹ کر صرف چھپن کلو رہ گیا تھا جسے بھر پور کوشش اور ڈاکٹر دوستوں کے مشوروں کے باوجود میں صرف اٹھاون کلو تک ہی لے جا سکتا تھا۔ اسلئے میں نے موقع غنیمت جانا کہ اسی بہانے ریسٹ ہو جائیگا۔ اگلے دن بارہ بجے تک کمپنی کی طرف سے کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی تو میں پریشان ہونے لگا۔ منیجر کو کال کرنے کی کوشش کی لیکن بات نہ ہو سکی ایک بجے کے قریب اسکی کال آئی اور اس نے بتایا کہ سیکیورٹی کلئیرنس میں کچھ مسئلہ ہے۔ میں نے کہا کہ اگر میری ضرورت ہے تو میں آجاتا ہوں تو اس نے کہا کہ میں گاڑی بھجواتا ہوں آپ آجائیں تو بہتر ہوگا۔ کچھ دیر بعد گاڑی آگئی اور ہم آفس کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں جاکر ہم نے بتایا کہ ہم میجر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں جو کہ انچارج تھے وہاں کے ان کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ راستے میں منیجر نے بتایا کہ کل ہمارے ساتھ جو دوسرا غیر ملکیوں کا گروپ تھا وہ کلئیر ہوکر روانہ ہو چکا ہے اور ہمارا راشن بھی اسکولی روانہ ہوچکا ہے۔ یہ جان کر کہ غیر ملکی بھی کلئیر ہوکر روانہ ہوچکے ہیں میرا موڈ تھوڑا سا خراب ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد میجر صاحب نے بلوا لیا۔ وہ ایک نوجوان آفیسر تھا اور انتہائی خوش اخلاق، میرا مطلب ہے اس میں صوبیداری والی اکڑ بالکل نہیں تھی۔ جیسے ہی ہم دفتر کے دروازے پر پہنچے وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر کمرے کے درمیان تک آیا اور ایسے پرتپاک انداز میں استقبال کیا جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ اسکا رویہ دیکھ کر میرا موڈ بہت بہتر ہوگیا تھا۔ میں نے شکایت کے انداز میں کہا کہ کل عباس جو کہ اس غیر ملکی گروپ کا گائیڈ تھا کہہ رہا تھا کہ میرے لئے کے ٹو بیس کیمپ دس بار آنا جان آسان ہے لیکن یہ کاغذی کاروائی بہت مشکل ہے۔ اس پر میجر صاحب نے بتایا کہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ جو گائیڈ کمپنی نے مقرر کیا تھا اسکے پاس لائسنس نہیں تھا۔ پہلےپاکستانیوں کیلئے کوئی رجسٹریشن وغیرہ نہیں تھی لیکن گزشتہ سالوں میں پاکستانی سیاحوں اور کوہ پیما کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر رجسٹریشن شروع کردی گئی ہے۔ ماضی میں چند ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ سیاحوں کو کے ٹو بیس کیمپ کا جھانسہ دیکر فراڈئیے اسکولی لے جاتے ہیں اور پیسے ایڈوانس میں وصول کر لیتے ہیں۔ پھر صبح جب سیاح اٹھتے ہیں تو وہاں نہ گائیڈ ہوتا ہے نہ کوئی پورٹر۔ اور جن لوگوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں وہ جب اپنے علاقوں میں جاکر دوسرے سیاحوں کو بتاتے ہیں تو اسکے اثرات بہت منفی ہوتے ہیں۔ اور اگر وہ اپنی شکایت ہمارے پاس لے کر آتے ہیں تو ذمہ داروں کا تعین کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں جنکی وجہ سے ہمیں ہر سیاح کو رجسٹر کرنا پڑتا ہےاور یہ سارا ریکارڈ پولیس کے حوالے بھی کردیا جاتا ہے ۔ اسکے علاوہ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آئے تو تو ریسکیو کاروائیوں کے دوران یہ تعین کرنا آسان ہوتا ہے کہ قراقرم نیشنل پارک میں کل کتنے لوگ موجود تھے اور کتنے ریسکیو کرلئے گئے ہیں۔ اتنے میں چائے آگئی اور جتنی دیر میں ہم چائے پی کر فارغ ہوئے ہماری فائل مکمل ہوگئی اور میجر صاحب نے وٹس ایپ کے ذریعے شگر کے کمشنر کو بھی کاپی بھیج دی۔ اس نے تاخیر کیلئے معذرت کی اور ساتھ یہ خوشخبری بھی سنا دی کہ اسکولی تک راستہ صاف ہے اور پانی آج کم آیا ہے۔ اس خوشخبری کا ہمیں اسوقت تو کوئی اندازہ نہیں تھا لیکن راستے میں اندازہ ہوگیا۔ ہم وہاں سے رخصت ہوگئے اور کمپنی کے دفتر پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے بتایا کہ آپ کیساتھ ہم ایک اور گائیڈ بھیج رہے ہیں جو کہ لائنسن یافتہ ہے۔ لیکن جو گائیڈ پہلے ہی متعارف کراوایا گیا تھا وہ بھی وہیں ساتھ تھا اور اسکی دلچسپی دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ بھی ساتھ جارہا ہے۔ میں نے کمپنی کےمنیجر سے کہا کہ اسکا مطلب یہ ہوا کہ نیا گائیڈ کسی خاص مقام تک ہمارے ساتھ جائیگا اور وہاں سے ہمیں پرانے گائیڈ کے حوالے کرکے واپس لوٹ آئے گا۔ منیجر پہلے تو تھوڑی دیر مجھے دیکھتا رہا کہ اتنا صحیح اندازہ کیسے لگایا اور پھر اثبات میں سر ہلایا۔ میری بات سے پریشان لگ رہا تھا۔ پریشانی بھانپ کر میں نے کہا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اگر آپکی جگہ میں بھی ہوتا اور عین موقعہ پر ایسا مسئلہ بنتا اور گائیڈ نہ ملتا تو میں بھی یہی کرتا۔ یہ سن کر اسکو تسلی ہوئی۔ وہاں سے نکل کر ہم ہوٹل پہنچے اور ہمارا سامان جو پہلے سے ہی پیک ہوا ہوا تھا گاڑی میں لاد کر اسکولی کی طرف روانہ ہوگئے۔ سکردو سے اسکولی کا راستہ پانچ سے چھ گھنٹے کا ہے۔ راستہ شگر تک تو ٹھیک ہے لیکن اسکے بعد تقریبا کچا راستہ ہے۔جیپ کے علاوہ کوئی گاڑی نہیں جا سکتی۔ خپلو کی طرف جاتے ہوئے بائیں ہاتھ دریا پار کرکے سڑک شگر کی طرف مڑ جاتی ہے۔ شمالی علاقہ جات کے حسن کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہاں آپ کو صرف پہاڑ،برف، جھرنے، ندیاں، دریا اور پتھر ہی نہیں بلکہ صحرابھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ شگر کی طرف جاتے ہوئے سڑک ایک صحرا سے ہوکر گزرتی ہے۔ جو پہاڑ اور دریا کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔ ایک سال پہلے جب ہم سکردو اورخپلو کے قابل دید مقامات دیکھنے آئے تھے تو یہ صحرا ڈھونڈنے میں ناکام ہوگئے تھے۔ تاہم پوچھتے پوچھتے ہم ایک اور صحرا میں ضرور پہنچ گئے تھے۔ اور پھر خپلو سے واپسی پر جب شگر فورٹ دیکھنے جا رہے تھے تو حادثاتی طور پر ہم کولڈ ڈزرٹ یعنی ٹھنڈےصحرا پہنچ گئے تھے۔ صحرا سے نکل کر سڑک پرپیچ پہاڑی راستے سے شگر کی طرف جاتی ہے۔ شگر فورٹ برلب سڑک بائیں طرف واقع ہے۔ یہ ایک تاریخی قلعہ ہے لیکن یہ نہ تو قلعے کی طرح وسیع و عریض ہے نہ بلند و بالا حصار میں محصور۔ علاقائی بلتی زبان میں اسے فونگ کھر بھی کہا جاتا ہے جسکا مطلب ہوتا ہے پتھر یا چٹان پر بنا ہوا قلعہ یا جگہ۔ تاریخی اعتبار سے جس حد تک مجھے معلوم ہو سکا ہے اسکی ابتدائی تعمیر سترھویں صدی میں شگر کے اماچا شاہی گھرانے نے کی۔ اسکی موجودہ تعمیر ثانی اور تزئین و آرائش ۱۹۹۹ سے ۲۰۰۴ تک آغاخان کلچر سروس پاکستان نے کی۔ اس وقت یہ سرینا ہوٹل کے زیر انتظام بطور عجائب گھر اور ایک ہوٹل خدمات فراہم کرتا ہے۔ تاہم سیاحوں کیلئے یہ قلعہ کھلا رہتا ہے غالبا اوقات کی کچھ قید ہے لیکن مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کیونکہ آخری دفعہ دو سال پہلے وہاں گئے تھے۔ قلعے کے حوالے سے مزید تفصیلات میں چھوڑ رہا ہوں کیونکہ یہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ پتھر اور لکڑی سے بنی ایک بہت ہی حسین عمارت جس میں داخل ہوتے ہی آپ ٹائم مشین
کے بغیر صدیوں پیچھے چلے جاتے ہیں۔
شگر تک سڑک معقول ہے لیکن آگے جاکر انتہائی نامعقول" ہوجاتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک" کچا پتھریلا راستہ ہے اور بقول شخصے اگردہی کھا کر اس راستے پر سفر شروع کریں تو منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے ہی اندرون بطن لسی بن جاتی ہے اور شاید مکھن بھی۔ دو مقامات پر پانی کی گزر گاہ ہے جو اکثر و بیشتر راستہ بند کئے رکھتا ہے۔ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں جو قدر بالکل متضاد ہے وہ یہ کہ میدانی علاقوں میں اگر بارش ہو تو امکان ہوتا ہے کہ راستہ بند ہو جائے جبکہ پہاڑی علاقوں میں موسم جتنا صاف ہوتا ہے راستہ بند ہونے کے امکانات اتنے بڑھ جاتےہیں۔ تیز دھوپ پڑنے کی وجہ سے برف تیزی سے پگھلنے لگتی ہے جسکی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ اور راستہ کاٹنے والے پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اس دن بھی موسم صاف تھا لیکن ہماری خوش قسمتی کہ پانی اتنا زیادہ نہیں تھا کہ گاڑی نہ گزر سکے۔ گو کہ عام ڈرائیور اتنے پانی میں گاڑی کبھی نہ اتارتا لیکن ہمارا ڈرائیور سکردو کا باشندہ تھا۔ اس نے گاڑی روکی اور نیچے اتر کر راستے کا جائزہ کیا اور پھر اللہ کا نام لیکر گاڑی پانی میں اتاردی۔ ایک بار تو سٹیرنگ اسکے ہاتھ سے چھوٹا تو اتنے زور سے گھوم کر اسکے ہاتھ میں لگا کہ مجھے لگا اسکے ہاتھ کی کوئی نہ کوئی ہڈی چٹخ گئی ہوگی۔ وہ کافی دیر تک ہاتھ کو جھٹکتا رہا۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ کا ادھر اکثر آنا جانا رہتا ہوگا پھر آپ اتر کر راستہ کیوں دیکھنے گئے۔ اس پر اس نے یہ انکشاف کردیا کہ وہ زندگی میں پہلی بار اس راستے سے سفر کر رہا ہے۔ یہ معلومات اگر چہ پریشان کن تھیں تاہم وہ ایک کہنہ مشق ڈرائیور تھا۔ آگے جاکر ایک اور پانی کی گزرگاہ تھی وہاں بھی اتر کر اسنے کچھ پتھر رکھ کر جیپ کے بائیں جانب والے ٹائر کیلئے راستہ بنایا اور کسی نہ کسی طرح گاڑی وہاں سے گزار کر لے ہی گیا۔ آگے جاکر راستہ انتہائی تنگ، کچا اور ناہموار تھا۔ اکثر جگہوں پر چڑھائی چڑھ کر آگے کچھ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ ڈھلان سیدھی ہے یا راستہ دائین یا بائیں مڑ رہا ہے۔ اسلئے ڈرائیور کو کئی موقعوں پر سیٹ سے اٹھ کر آگے جھانکنا پڑتا۔ ہمارے بائین جانب تیز بہتا دریا تھا اور معمولی سی غلطی کا انجام لا محالہ یہی ہوتا کہ ہم سب جیپ سمیت برفیلے ٹھنڈے پانی میں غوطے لگا رہے ہوتے۔ شام ہوتے ہی پہاڑوں میں اندھیرا بڑھ چکا تھا۔ میدانی علاقوں کی نسبت پہاڑوں میں شام کا اندھیرا بہت تیزی سےپھیلتا ہے۔ گاڑی کی روشنیاں جلا دی گئیں جو اتنی متاثر کن نہیں تھیں لیکن ڈرائیور بڑی مہارت سے گاڑی آگے بڑھا رہا تھا۔
آخر کار شام گئے چھ گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم اسکولی پہنچ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں