علی کیمپ سے غونڈو غورو لا اور خوسپانگ
رات بارہ بجے کے قریب جبکہ نیند گہری ہوچکی تھی باہر سے حسین کی آواز آئی۔ بھائی اٹھ جائیں۔ آنکھ کھل گئی لیکن اٹھنے کو ذرا دل نہیں کر رہا تھا۔ کروٹ بدلتے بدلتے سوچنے لگا اندر ہی سے آواز دوں کہ دوبارہ لیٹ جاو آرام سے اٹھ کر واپس اسی راستے الٹے قدموں لوٹ جاتے ہیں۔ لیکن ہمت نہ ہوئی۔ آخر کار اٹھ گیا۔ باہر شدید سردی تھی۔ منہ ہاتھ دھوکر ناشتہ کیا اور اسکے بعد پہلے اپنی اور پھر سامان کی پیکنگ کی۔ 15 منٹ میں خیمے لپیٹے جا چکے تھے۔ اجتماعی دعا ہوئی اور پھر نعرہ تکبیر لگا کر آہستہ آہستہ سفر شروع ہوگیا۔ اس سفر میں پہلی بار بوٹوں کو کریمپون لگے تھے۔ چلنا اتنا آسان نہیں تھا بہر حال آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا۔ دوسرے گروپوں والے ہم سے بہت بہتر تھے۔ وہ قدرے تیز چل رہے تھے۔ ہم نے اپنی رفتار اتنی ہی رکھی جتنی ہماری اوقات تھی۔ کچھوے اور خرگوش کی کہانی یاد کرکے اپنا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ تاروں کی روشنی میں برف پر سفر جاری تھا۔ چڑھائی ابھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ سروں پر ہیڈ لائٹ لگی ہوئی تھی اور اسی روشنی میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک گھنٹہ چلنے کے بعد روشنیوں کی ایک قطار ٹیڑھے میڑھے انداز میں اوپر ہی اوپر حرکت کرتی ہوئی دکھائی دی۔ میں نے حسن سے پوچھا کہ یہ سامنے کیا ہے؟ کہنے لگا وہ آگے والے گروپ چڑھائی چڑھ رہے ہیں۔ یہ سن کر میرا دل بیٹھ سا گیا۔ میں سمجھا تھا چڑھائی بس ایسی ہی ہونی ہے اس سے نہیں بڑھنی۔ لیکن ان لوگوں کو دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ عشق کا امتحان تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا۔ لیکن چلنے کے سوا کر بھی کیا سکتے تھے۔ لگ بھگ آدھا کلومیٹر چلنے کے بعد رسی لگی ہوئی تھی۔ چڑھائی اب سچ مچ چڑھائی بن گئی تھی۔ ہم نے اپنی پیٹی کی رسی فکسڈ روپ سے باندھی اور اور آہستہ آہستہ چڑھنا شروع کردیا۔ اب ایک ایک قدم واقعی امتحان بن گیا تھا۔ وہ تو بھلا ہو ان لوگوں کا جنہوں نے رسی لگائی تھی کہ کچھ نہ کچھ رسی کو کھینچ کر اپنا وزن آگے گھسیٹتے رہے۔ دوسرا رسی سے بندھے ہونے کی وجہ سے یہ تسلی تھی کہ برفانی دراڑیں نگل نہیں سکیں گی کیونکہ رسی سے بندھے ہوئے تھے۔ رسی کا یہ سفر لامتناہی تھا۔ کچھ مقام ایسے آئے کہ جہاں قدم اٹھانا محال ہورہا تھا۔ برف میں پاوں دھنستے اور ہم کھینچ کر پاوں نکالتے اور آگے بڑھتے۔ جب بالکل حوصلہ ختم ہونے لگا تو سفر سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ تدبیر کی کہ گن کر دس قدم چڑھائی کے بعد رک کر دس لمبی لمبی سانسیں لیتے۔ ناک سے ہوا اندر کھینچ کر منہ سے نکالتے۔ اور دس سانسیں پوری کرتے ہی دس قدموں کی گنتی پھر شروع کردیتے۔ آہستہ آہستہ قدموں کی تعداد کم اور وقفوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ سات قدم، پھر پانچ قدم یہاں تک کہ بات تین قدم تک آگئی۔ نیند کا ایسا شدید دورہ پڑا کہ دل کر رہا تھا یہیں برف پر ہی لیٹ کر سو جائیں۔ ہیڈ لائٹ کی روشنی میں کوئی پتھر ڈھونڈنے کی کوشش کی جس پر بیٹھا جائے لیکن پتھر سارے برف کے نیچے تھے۔ بیٹھنے کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ آرام بھی گھوڑے کی طرح کھڑے کھڑے کرنا پڑ رہا تھا۔ کافی اوپر جاکر ایک بڑے پتھر کا چھوٹا سا سرا نظر آیا تو دل ایسا خوش ہوا جیسے بستر ملا ہو۔ جاکر بیٹھ گیا اور پتھر کو ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ لیکن ریسکیو اہلکار جو ہمارے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا اس نے زیادہ دیر بیٹھنے سے منع کیا کہ پٹھے اکڑ گئے تو چلنا ممکن نہیں ہوگا۔ مجبورا" اور بادل نخواستہ اٹھنا پڑا۔ چڑھائی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی تھیں۔ صبح کی روشنی آہستہ آہستہ مشرق میں نمودار ہورہی تھی جب ہم آخری چڑھائی تک پہنچے۔ ہمارے پھیپھڑے لوہار کی دھونکنی کی طرح چل رہے تھے اور دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی کہ لگتا تھا سینہ چہر کر باہر کودنے کی کوشش کر رہا ہو۔ جسم اندر پسینے سے شرابور تھا اور ناک اگرچہ ماسک سے ڈھکا ہوا تھا لیکن اسکا سرا چھونے پر محسوس نہیں ہورہا تھا جیسے جم چکا ہو۔ منہ خشک تھا اور بار بار پانی کے گھونٹ پینے کے باوجود بھی کسی طرح تر نہیں ہورہا تھا۔ یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ بس یہ آخری چڑھائی ہے اور موڑ کے بعد ہم چوٹی پر پہنچ جائیں گے پھر ہموار میدان ہے اور اسکے بعد اترائی ہے۔ لیکن ان الفاظ کے بعد جو کہا گیا وہ کسی آسمانی بجلی سے کم نہیں تھا۔ بتایا گیا کہ اوپر لٹکی ہوئی برف کسی بھی وقت اوپر گرسکتی ہے اسلئے یہاں سے تیزی سے گزرنا ہے اور رکنا تو کسی صورت نہیں کیونکہ رکنے کا مطلب موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ہماری ہمت پہلے ہی جواب دے چکی تھی۔ ساڑھے چار کھنٹے کی جان توڑ چڑھائی نیند کی کمی اور اوپر سے یہ مژدہ جاں فزا۔ بہر حال خود کو تسلی دی کہ زندگی بہت پیاری ہے اور یہاں سے زندہ نکلنا بہت ضروری ہے۔ اللہ کا نام لیا اور چلنا شروع کیا۔ یہ مشکل ترین مرحلے تھا۔ تھوڑا سا چلنے کے بعد سامنے سے ایک ہیولا نمودار ہوا۔ دوڑتا ہوا قریب آیا تو پتا چلا حسین ہے۔ وہ اپنا بوجھ اوپر پہنچا کر ہمیں لینے کیلئے واپس آیا تھا۔ اس نے میرا بیک پیک لیا اور ہاتھ پکڑ کر کھینچنے کی پیش کش کی۔ دل تو بہت کر رہا تھا کہ خود کو کھچوا لوں لیکن اسکا احساس ہوا کہ وہ 25 کلو وزن اوپر پہنچا کر پھر میرا بیگ لیکر دوبارہ اس مشکل جگہ سے چڑھ رہا ہے۔ میں نے کہا نہیں آپ جائیں میں چڑھ سکتا ہوں اور آپ تیز چل سکتے ہیں تو چلیں میں آہستہ آہستہ آرہا ہوں۔ اس نے کہا نہیں میں ساتھ جائیگا بولا تھا نا مرے گا تو ساتھ مرے گا۔ اب مجھے اسکی زیادہ فکر ہونے لگی کہ میری وجہ سے وہ مشکل میں نہ پڑجائے اسلئے اپنی ساری توانائی یکجا کرکے جتنا تیز چل سکتا تھا چلا۔ میری تیز رفتاری کتنی تھی بس یوں سمجھ لیں کہ جس رفتار سے چھوٹا بچا بادل نخواستہ صبح سکول جاتا ہے۔ لیکن یہ اس رفتار سے بہت زیادہ تھی جس رفتار سے ہم اب تک اوپر چڑھے تھے تین تین قدم گن کر۔ جب ہم اوپر چوٹی پر پہنچے تو صبح کی ہلکی روشنی پھیل چکی تھی اور برف کا میدان تھا۔ ہیڈ لائٹ بند کردی۔
دس منٹ آرام کرنے کے بعد نیچے کا سفر شروع ہوا۔ ڈھلان بہت سخت ہے لیکن رسیاں لگی ہوئی ہیں جو پکڑ پکڑ کر اترنا پڑتا ہے۔ پہاڑ کے اس طرف پتھر کھلے ہیں اور برف بھی نہیں ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی وقت کوئی پتھر اوپر سے لڑھک سکتا ہے۔ یا پیچھے آنے والے ساتھی کی ٹھوکر سے کوئی پتھر آپکے اوپر گر سکتا ہے تو چند لمحوں میں آپ کو نیچے گہرائی میں پہنچا سکتا ہے۔ یہ مشکل اترائی ہے۔ اترنے کیلئے ریورس گئیر لگانا پڑتا ہے کیونکہ سیدھا اترنا ممکن نہیں۔ رسی پکڑ کر آہستہ آہستہ نیچے جانا ہوتا ہے الٹے قدموں۔ جب ڈھلان کچھ بہتر ہوجاتی ہے وہاں رسی ختم ہوجاتی ہے۔ اسکے بعد ڈھلان پہ بنی ہوئی افقی پگڈنڈیوں پر چلنا پڑتا ہے۔ اس پوری اترائی پر غلطی کی گنجائش بالکل نہیں۔ ایک ٹھوکر لگنے کا مطلب یقینی موت ہے۔ اترتے وقت گھٹنے جواب دے رہے تھے۔ میرے بائیں گھٹنے میں درد کی شدید لہریں اٹھ رہی تھیں۔ لیکن چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کبھی لنگڑا کر تو کبھی سیدھا نیچے کی طرف سفر جاری رہا۔ اس ڈھلان پر رکنا بالکل نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ اوپر سے سلائڈنگ ہوتی رہتی ہے۔ کسی بھی وقت آپ کسی تودے کی زد میں آسکتے ہیں۔ تقریبا" ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل اترائی کے بعد ہم نیچے پہنچ گئے۔ ایک ہموار جگہ ڈھونڈ کر اپنا بیگ رکھا اس کے بعد بوٹ اور جرابیں اتاریں اور دھوپ میں لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔ 20 منٹ سونے کے بعد حسن نے جگا دیا۔ اور اسکے بعد خوسپانگ کی طرف ایک نہ ختم ہوں والا سفر شروع ہوگیا۔ رات بھر کے جاگے ہوئے اور شدید تھکن کے باوجود بھی چلنا پڑ رہا تھا۔ کچھ دیر تک تکلیف محسوس ہوتی رہی اسکے بعد احساسات ختم ہوگئے۔ بس اتنا محسوس ہورہا تھا کہ چل رہے ہیں اسکے علاوہ نہ جسم کا ہوش تھا نہ گردو پیش کا۔ ایسی حالت میں میں ذرا تیز چلا تھا۔ دور سے کیمپ نظر آیا اور پیچھے دیکھا تو پتا چلا میں غلط طرف آگیا ہوں۔ وہاں سے اترنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میں واپس مڑا اور ایک مناسب جگہ سے لٹک لٹک کر نیچے اتر گیا۔ ایک کلومیٹر واپس جانا اور پھر نچلے راستے سے آنا اس سے زیادہ مشکل لگ رہا تھا۔
عصر کے بعد ہم کیمپ پہنچے۔ یہ خوسپانگ کیمپ تھا۔ یہاں ٹینٹ لگانے کیلئے ہموار زمین، بہتا پانی اور ایک چھوٹی سی دوکان بھی تھی۔ ہمارے ٹینٹ پہلے ہی سے لگ چکے تھے۔ سامان رکھا اور بے سدھ لیٹ گیا۔ اسکے بعد کھانا بننے لگا۔ ایک بغیر چھت کے گرے ہوئے کھنڈر نما کمرے کو کچن بنا لیا گیا۔ ہماری آمد سے اس کھنڈر میں مقیم چوہوں کے معمولات میں خلل پڑا تو وہ بھی ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ ایک ہفتے بعد سبزہ اور کووں کے علاوہ کوئی اور جنگلی جاندار دیکھ کر اچھا محسوس ہورہا تھا۔ شام ہوتے ہی کھانا کھالیا۔ ٹھنڈ بڑھ رہی تھی اور ایسے میں ٹینٹ اور بستر کی دعوت ٹھکرائی نہیں جاسکتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہی لیٹ گیا اور ایسی گہری نیند سویا کہ ساری رات کروٹ تک نہیں بدلی۔
(جاری ہے)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں