منگل، 16 فروری، 2021

کے ‏ٹو ‏نامہ ‏قسط ‏7

اردو کس سے گورو ٹو
15 جولائی 2018

صبح اٹھ کر سامان پیک کیا اور جانے کی تیاری کرنے لگے۔ باقی گروپ پہلے ہی نکل چکے تھے لیکن جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں صبح صبح جلدی ہمیں پسند نہیں اور کچھوا پسندیدہ جانور ہے۔ میں نے ایک پورٹر کا سامان اٹھایا تو اندازہ ہوا کہ وزن کم سے کم 35 کلو ہے۔ خچر کو راضی کرکے اپنے ساتھ ٹھرایا اور تصویر بنوالی۔ اسکے بعد باقاعدہ سفر شروع ہوگیا۔
اردوکس کے بعد سفر گلیشئیر کے اوپر ہے اور سبزہ یہیں تک ہے اس سے آگے کوئی سبزہ نہیں صرف سفید یا مٹیالی برف، اور چھوٹے بڑے پتھر اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ گلیشئیر میں اگرچہ پہاڑ کی نسبت ڈھلانوں کی چڑھائی یا اٹھان اور ڈھلان کم ہوتی ہے لیکن یہ راستہ مجھے ذاتی طور پر پہاڑ کے مقابلے میں زیادہ تھکادینے والا لگتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ گلیشئیر پر اگر پتھر نہ ہوں تو یہ بوٹوں کے تلوے مسلسل ٹھنڈے کرتا ہے جو گھنٹہ ڈیڑھ چلنے کے بعد میرے لئے ایک کوفت کا باعث ہوتا ہے۔ اسکے علاوہ دوپہر میں یہ پگھلنے لگتا ہے اور بوٹ گیلے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ پتھر ہوں تو یہ پتھر سلیٹوں کی مانند ہوتے ہیں بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ہلتے رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے گلیشئیر پر چلنا ہمیشہ ایک ناخوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔
اردوکس کیمپ تک ہم گلیشئیر کے دائیں طرف پہاڑ کے دامن میں چل رہے تھے۔ اب گلیشئیر کے وسط سے گزر کر بائیں طرف گلیشئیر کے اوپر سفر کر رہے تھے۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والا طویل سفر ہے۔ جوں جوں دھوپ تیز ہورہی تھی گرمی کی وجہ سے چڑچڑا پن محسوس ہورہا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ برف کے اوپر چلتے ہوئے جہاں دائیں بائیں برف سے ڈھکے پہاڑ ہوں اور ہوا بھی انہی پہاڑوں سے ٹکرا کر آرہی ہو، اگر ایسے میں کوئی گرمی کا شکوہ کرے تو یہ نہ ماننے والی بات ہے۔ دراصل اونچائی پر دھوپ کی تپش سے زیادہ اسکی شعاعوں کی چبھن ہوتی ہے۔ بالائے بنفشی شعائیں ( Ultraviolet rays) جلد کو جھلساتی ہیں۔ اسکے علاوہ وزن اٹھا کر مسلسل چلنے اور چڑھائی اترائی میں زور لگانے کی وجہ سے جسم کی اپنی گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے اور اتنا پسینہ آتا ہے کہ آپ قمیض نچوڑیں تو بلا مبالغہ پسینہ ایسا نکلے گا جیسے دھلی ہوئی قمیض میں سے پانی۔
گیارہ بجے کے قریب ہم گورو ون (Goro - I) کیمپ پہنچ گئے۔ یہاں ایک گھنٹہ قیام کرنا تھا۔ دوپہر کا کھانا جو صبح پیک کیا گیا تھا وہ نکالا گیا۔ اسکے علاوہ نوڈلز بنائے گئے اور اس کے بعد چائے بھی بنائی گئی۔ لیکن کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا حالانکہ بھوک تھی لیکن گرم گرم روٹی یا دال وغیرہ کھانے کو دل کر رہا تھا۔
کھانے پینے سے فارغ ہوکر اور آرام کرنے کے بعد ہم ایک بار پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ راستہ اب مزید مشکل اور پرپیچ ہوتا جارہا تھا۔ دور سے ایک فوجی چوکی نما جگہ نظر آرہی تھی جہاں اگلو (Igloo ) بھی تھے۔ قریب جاکر پتا چلا کہ یہ فوجی چوکی ہے۔  میں نے گائیڈ سے کہا کہ ان لوگوں نے دال لازمی پکائی ہوگی اور مجھے بڑی بھوک لگ رہی ہے۔ قریب جاکر گائیڈ نے ان میں سے کسی کو پہچان لیا۔ ان سے سلام دعا کی اور انہوں نے اگلو میں تھوڑی دیر آرام کرنے کا کہا جتنی دیر میں کھانا تیار ہوتا۔ یہ ایسی پیش کش تھی جسے رد کرنا ممکن نہیں تھا۔
اگلو کے اندر بڑا نرم گدا پچھا ہوا تھا اور اندر کا ماحول خیمے سے تو بدرجہا بہتر تھا۔ نرم گدے پر بیٹھنے کے بعد محسوس ہورہا تھا جیسے سالوں بعد گدا نصیب ہوا ہو۔ میں آنکھیں بند کرکے لیٹ گیا۔ ابھی پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوپایا تھا کہ کھانا آگیا۔ چنے کی دال اور گرم روٹی اوپر سے بھوک، اس کھانے کا جو مزہ آیا تھا یقین کریں کسی فائیو سٹار ہوٹل کے بفے میں بھی وہ مزہ نہیں آیا۔
کھانے کھانے اور تھوڑی دیر نرم گدے پر لیٹنے کے بعد ایک بار پھر یہ سوچ کر سفر شروع کردیا کہ جانا تو خود چل کر ہی ہے کسی نے اٹھا کر نہیں لے جانا۔
دو گھنٹے مزید چلنے کے بعد ایک بڑا فوجی کیمپ نظر آیا۔ وہاں بھی اگلو دیکھ کر دل بڑا للچایا کہ تھوڑی دیر آرام کیا جائے لیکن پھر مزید دیر ہوجاتی اسلئے چلتے رہنا تھا۔
اس کیمپ سے ایک گھنٹہ مزید آگے سفر کرنے کے بعد گورو ٹو کیمپ نظر آیا جہاں ہم نے پڑاو ڈالنا تھا۔ کیمپ پہنچتے پہنچتے ساڑھے تین بج گئے۔ خیمے پہلے سے لگ چکے تھے۔ تھوڑی دیر کچن ٹینٹ میں بیٹھنے اور چائے پینے کے بعد میں اپنے خیمے میں آیا اور لیٹا تو بہت گہری نیند سویا۔ تھوڑی دیر بعد جب آنکھ کھلی تو گائیڈ مجھے زور زور سے ہلا کر جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟ بولا وہ چوکی سے فوجی آئے ہیں رجسٹریشن کر رہے ہیں۔ سچی بات ہے مجھے بہت برا لگا ان کا آنا لیکن لہو کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ فوجی میرے خیمے سے ذرا فاصلے پر کھڑا تھا۔ میں نے قریب جاکر سلام کیا تو اس نے سلام کا جواب دیا اور ساتھ ہی کہا کہ آپ تو ایسے سورہے تھے جیسے راولپنڈی یا اسلام آباد میں گھر میں پڑے ہوں۔ میرا موڈ خراب تو ویسے بھی تھا یہ بات سن کر خاموش رہنا ناممکن تھا۔ میں نے کہا معافی چاہتا ہوں مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں آپ کے گھر میں سورہا تھا۔
میری بات کی کاٹ اور لہجے کی تلخی شاید اسے سمجھ آگئی۔ اس نے سوالات پوچھے اور جوابات سن کر فارم فل کیا۔ اسکے بعد کہنے لگا کہ میں نے سونے والی بات اسلئے کی کہ ہمیں سختی سے ہدایت کی جاتی ہے کہ جب بھی اونچائی کی طرف سفر کریں تو فورا" جاکر بالکل نہیں سونا چاہے کتنی ہی تھکاوٹ کیوں نہ ہو۔ کم سے کم تین سے چار گھنٹے انتظار کریں اس کے بعد سوئیں۔
یہ بات سن کر مجھے خود بھی شرمندگی ہورہی تھی کہ میں نے شاید بہت سخت بات کردی۔ فوجی نے بتایا کہ انکے کیمپ میں ڈسپنسری اور دوائیاں موجود ہیں اگر کسی کو کسی قسم کی طبی امداد کی ضرورت ہو تو بلا جھجک کیمپ آسکتا ہے۔
اس کے بعد وہ واپس چلا گیا۔ میں دوبارہ نہیں سویا اور ادھر ادھر گھوم کر وقت گزارتا رہا۔ شام ہوتے ہی کھانا کھایا اور خیمے میں سونے کے لئے چلا گیا۔ دل بہت خوش تھا کہ کل ہم کانکورڈیا پہنچ جائیں گے جہاں سے کے ٹو پہلی بار نظر آئے گا آمنے سامنے اک دوسرے کا دیدار ہوگا۔ اور پھر کے ٹو کے بارے میں سوچتے سوچتے سوگیا۔۔۔۔
جاری ہے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...