کونکورڈیا سے کے ٹو بیس کیمپ
17 جولائی 2018
صبح اٹھے تو پہلی بار ذرا معمول سے ہٹ کر تھا۔ چونکہ واپس ادھر ہی آنا تھا اسلئے مختصر سامان باندھا گیا۔ جو دوسرا گروپ ہمارے ساتھ تھا ان کے ساتھ مشورہ کرکے کچن مشترک کرلیا مطلب ایک کچن ٹینٹ اٹھایا اور ایک رات کے کھانے اور صبح ناشتے کا سامان اور رہائشی خیمے اور سلیپنگ بیگز۔ باقی سامان اور کچھ لوگ ادھر ہی چھوڑے اور نکل پڑے۔ کونکورڈیا سے کے ٹو تک جو گلیشئیر پھیلا ہوا ہے وہ دور سے بالکل ایک ہموار سڑک کی طرح نظر آتا ہے۔ ایک گھنٹہ کروسز (Craveses) سے نکلنے اور سامنے والے گلیشئر تک پہنچنے میں لگا۔
گائیڈ مسلسل حوصلہ بڑھا رہا تھا کہ بس یہی مشکل جگہ ہے اسکے بعد بالکل سیدھا اور ہموار راستہ ہے۔ یہ باتیں ایک ہفتے سے سن سن کر اتنی سمجھ آگئی تھی کہ سیدھے راستے کا مطلب صرف یہ ہے کہ بندہ اندازے سے ٹامک ٹوئیاں نہیں مارتا بلکہ راستہ معلوم ہوتا ہے باقی آسان راستہ گلیشئرز میں کہیں نہیں ہوتا۔ اور یہ پہلا گھنٹہ واقعی مشکل تھا۔ خدا خدا کرکے وہاں سے نکلے تو کچھ راستہ سجھائی دیا۔ آگے راستہ آسان بالکل نہیں تھا البتہ چلنے قابل ضرور تھا۔
میں نے تجرباتی طور پر ایک پورٹر کا وزن اٹھایا جب وہ آرام کرنے کیلئے رکا اور اپنا بیگ اس کے حوالے کردیا۔ وہ منع کرتا رہا لیکن میں نے کہا کہ نہیں مجھے ذرا محسوس کرنا ہے کہ پورٹر کیسا محسوس کرتا ہے اتنا وزن اٹھا کر۔ جب ایک دفعہ وزن کمر پر لاد کر کھڑا ہوگیا تو اس کے بعد اتنا بوجھ محسوس نہیں ہورہا تھا۔ آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا اور دھیمی رفتار سے لگ بھگ دو سو میٹر ہے چلا ہوں گا کہ پیچھے سے پورٹر پہنچ گیا اور کہا کہ بس سامان دے دیں۔ جب سامان دینے کےلیےرکا تو اسکے بعد پندرہ منٹ تک تو میرا سانس معمول پر نہیں آیا۔ سانس سیدھا کرنے کے بعد جب چلنے لگا تو جسم بہت ہلکا محسوس ہورہا تھا لیکن رانیں بالکل بے جان سی لگ رہی تھیں۔ 30 کلو وزن نے دو سو میٹر میں ہی میری ساری توانائی نچوڑ لی تھیں۔ اسکے بعد پورٹرز کی قدر میری نظر میں اور بھی بڑھ گئی یہ سوچ کر کہ وہ ڈیڑھ سو کلومیٹر سے یہ سامان اٹھا کر چل رہے ہیں اور بہت اونچی اونچی چڑھائیاں بھی چڑھتے رہے ہیں۔ یہ راستہ تو ان راستوں کے مقابلے میں بالکل ہموار تھا۔
ایک گھنٹہ مزید چلنے کے بعد براڈ پیک بیس کیمپ نظر آنے لگا۔ رنگ برنگی خیموں سے بھرا ہوا بہت خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔ لیکن آسمان پر بادل چھا گئے اور دھوپ غائب ہوگئی۔
براڈ پیک بیس کیمپ پہنچے تو پتا چلا کہ یہاں دو اہم کام ہورہے ہیں۔ ایک تو کوہ پیما گروپ براڈ پیک سر کرنے گیا ہوا تھا وہ گزشتہ رات آخری کامیاب حملہ کرکے چوٹی سر کرچکے ہیں اور واپس لوٹ رہے ہیں۔ مجھے اس لفظ حملے سے ہمیشہ اختلاف رہا ہے کہ اسے حملہ کیوں کہتے ہیں۔ اسکی وضاحت عباس نے کی۔ عباس نے کہا کہ کوہ پیما پہاڑ کے ساتھ مسلسل حالت جنگ میں ہوتا ہے۔ جس طرح انسان کے جسم پر ایک چھوٹی سی چیونٹی رینگے تو انسان فورا" مسل دیتا ہے یا پھینک دیتا ہے بالکل یہی پہاڑ انسان کے ساتھ کرتا ہے۔ خوش قسمتی اور قابلیت یہی ہے کہ پہاڑ پھینک نہ سکے اور آپ اسکے پورے جسم سے ہوتے ہوئے آخر اسکے سر پر حملہ کریں اور اسکے سر پر پاوں رکھیں۔
اس وضاحت کے بعد اب آخری چڑھائی کو حملہ کہنا مجھے اتنا عجیب نہیں لگتا۔
دوسرا اہم کام جو اس وقت اس وہاں رہا تھا وہ پولینڈ کی ایک فلمساز کمپنی "Broad Peak" نامی فلم کی شوٹنگ کر رہی تھی۔ یہ فلم 2021 میں سینماوں میں آئے گی۔وہاں موجود ٹیم سے بات کرنے کے بعد پتا چلا کہ یہ دراصل پولش مہم جو ماسیج باربیکا کی مہم جوئی کے بارے میں ہے جو 2013 میں براڈ پیک پر غائب ہوگئے۔ واپس آکر جب تحقیق کی تو اسکی کہانی بڑی دلچسپ نکلی۔
باربیکا نے 1984 میں سردیوں میں آٹھ ہزار کی چوٹیاں سر کرنا شروع کیا۔ 6 مارچ 1988 کو اس نے اپنی ٹیم کیساتھ براڈ پیک سر کیا اور خوشی خوشی واپس گھر پہنچ گئے۔ وہاں دوستوں نے تصویریں دیکھیں تو بتایا کہ یہ تو آپ چٹان والی چوٹی تک گئے ہیں جو 8028 میٹر اونچی ہے جبکہ اصل چوٹی 23 میٹر زیادد اونچی ہے اور ایک گھنٹہ مزید وقت لگتا ہے وہاں سے۔
اس ناکامی سے باربیکا اتنا مایوس ہوا کہ اس نے طویل عرصے تک کوہ پیمائی ترک کی۔
2013 میں یعنی چوبیس سال بعد اسکا ٹیم ممبر ویلیکی اسے کال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ 24 سال سے جو کام ادھورا ہے وہ پورا کرنے چلتے ہیں۔ یاد رہے کہ اب باربیکا کہ عمر 59 سال تھی جبکہ تب 35 سالہ نوجوان تھا۔
ٹیم پاکستان آئی اور سردیوں میں براڈ پیک مہم پر روانہ ہوئی۔ 5 مارچ 2013 کو چوٹی سر کی اور 6 مارچ کو باربیکا اور اسکا نوجوان ساتھی توماز کوالسکی غائب ہوگئے۔ دو دن تلاش کے بعد انہیں مردہ قرار دے دیا گیا۔ شاید چوبیس سال کی جدائی برداشت کرنے کے بعد لوٹنے پر براڈ پیک نے اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنے سینے میں چھپا لیا یہ کہہ کر کہ "آگیا تو بوڑھا ہوکر"۔
6 مارچ 1988 سے 6 مارچ 2013 کی یہ کہانی فلم بند کی جارہی تھی۔
تھوڑی دیر وہاں موجود سٹاف سے گپ شپ کرنے کے بعد ہم آگے بڑھ گئے۔
اب موسم بہت خراب ہوگیا تھا اور بادل زمین پر اتر آئے تھے۔ کچھ دیر کیلئے تو حد نگاہ بالکل چند میٹر رہ گئی تاہم تھوڑی دیر بعد دھند کم ہوگئی۔ برف باری بھی شروع ہوگئی تھی۔ ہمارے پورٹررز اور دوسرا گروپ آگے نکل چکا تھا۔ ہم آہستہ آہستہ چل رہے تھی۔ برف باری اور ٹھنڈ نے نہ صرف رفتار کم کی بلکہ رہی سہی توانائی بھی نچوڑ لی۔ ہمارا نان کسٹم پیڈ گائیڈ حسب معمول راستہ بھول گیا۔ بقول اسکے جس جگہ راستہ ہونا چاہئے تھا یا پہلے تھا اب وہاں راستہ نہیں تھا۔ ہمارے گائیڈ کو راستے مسلسل دھوکہ دے رہے تھے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔مجبورا" ہم جہاں سے ممکن ہوا اورجیسے تیسے گزر سکتے تھے جان ہتھیلی پر لیکر غیر ضروری خطرہ مول لیکر آگے بڑھتے گئے۔
عصر کا وقت تھا جب ہم کے ٹو بیس کیمپ پہنچ گئے۔ برف باری ہورہی تھی، کے ٹو بادل کی چادر بلکہ پوری رضائی اوڑھ کر چھپ گیا تھا اس الہڑ مٹھیار کی طرح جسکا رشتہ دیکھنے کوئی گھر آئے تو شرما کر چھپ جائے۔ تیز ہوا چل رہی تھی برف باری جاری تھی ایک طرف کے ٹو اور دوسری طرف براڈ پیک درمیان میں ہم، اندازہ لگا سکتے ہیں کتنی ٹھنڈ ہوگی۔
شام کا کھانا شام ہوتے ہوتے کھا لیا تھا اور اب ہم فارغ تھے کل صبح تک۔
پورٹرز نے کسی گروپ کے چھوڑی ہوئی لکڑی کی کریٹیں جمع کیں اور الاو روشن کرلیا۔ بڑا عجیب منظر تھا۔ اوپر سے ہلکی ہلکی برف باری ہورہی تھی نیچے زمین برف کی تھی اور درمیان میں بڑا سا الاو روشن کرکے ہم اس کے گرد بیٹھے تھے۔ آہستہ آہستہ مٹی کے تیل کے خالی کین جمع ہونا شروع ہوگئے اور پھر تھوڑی دیر بعد جس کے ہاتھ میں جو کچھ تھا بجا رہا تھا اور جس کے گلے میں جو بھی سر تھا چلا چلا کر گانے لگا۔ یہ بین الاقوامی قسم کی محفل تھی۔ پورٹرز سٹاف والے بلتی گانا شروع کرتے۔ بیچ میں ایک دو شعر اردو کے آجاتے، پھر ایک آدھ شعر پنجابی کا، میں بیچ میں پشتو کی رباعی اور سرائیکی ڈوہڑے گانا شروع کردیتا اور آسٹریلین سیاح انگریزی کے شعر جوڑ دیتے۔ یہ فری سٹائل ریسلنگ کے طرز کی محفل تھی مطلب جس کو جو آتا تھا اسے پوری اجازت تھی کہ جہاں سے دوسرے بندے کا گانا ختم ہو اپنا شروع کردے۔ ساتھ ساتھ قہقہے گونج رہے تھے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح گانے بجانے سے موسم صاف ہوجاتا ہے۔ پتا نہیں موسم سے مراد اندر کا موسم تھا یا باہر کا کیونکہ تھوڑی دیر بعد نہ صرف باہر کا موسم صاف ہوگیا بلکہ اندر کا موسم بھی صاف ہوگیا۔ جب گا گا کر اور ہنس ہنس کر بے دم ہوگئے تو سب نے اٹھ کر آگ کے گرد گول دائرے میں ناچنا شروع کردیا۔ اس ناچ میں بیک وقت بہت سی ثقافتیں اپنے اپنے انداز میں ناچ رہی تھیں۔ اگر کوئی آتش پرست دیکھتا تو یقینا" یہی سمجھتا کہ آگ کے پجاری آگ دیوتا کی پوجا میں مصروف ہیں۔ جب ناچ ناچ کر بھی تھک گئے اور جتنی بھی جلنے کے قابل چیزیں تھیں سب جلا چکے اور آگ کے تپش کم ہوگئی تو ہمارا جوش بھی آہستہ آہستہ ٹھنڈا پڑ گیا۔
کچھ دیر وہیں بیٹھے رہے پھر آہستہ آہستہ اپنے اپنے خیموں کی طرف کھسکنے لگے۔ موسم صاف ہوا تو براڈ پیک کی چوٹی کے قریب روشنیاں نیچے کی طرف حرکت کرتی ہوئی دکھائی دینے لگیں۔ جسکا مطلب تھا کہ جو گروپ چوٹی سر کرنے گیا تھا وہ اب چوٹی سے کافی نیچے پہنچ گیا تھا۔
خیموں میں جاکر لیٹے تو تھوڑی دیر بعد برفباری دوبارہ شروع ہوگئی۔
صبح ہم نے کے ٹو میموریل جاکر ان لوگوں کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا جنہوں نے اب تک کے ٹو سر کرتے ہوئے جانیں گنوائی ہیں اور اس بعد واپسی کا سفر شروع کرنا تھا۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں