اسکولی سے جولا کیمپ ۔ حصہ دوم
اب راستہ بتدریج مشکل اور ناہموار ہونا شروع ہوگیا۔ لیکن سفر جاری رہا۔ وقفے وقفے سے سانس بحال کرنے کیلئے رکتے بھی رہے۔ پورٹرز ایک بار پھر سامان سمیٹ کر ہم سے آگے نکل گئے۔ صبح سفر کا آغاز کرتے وقت سیاح نکل پڑتے ہیں جبکہ پورٹرز سامان پیک کرکے بعد میں چلتے ہیں۔ پھر وہ راستے میں آگے نکل جاتے ہیں اور جہاں رات گزارنی ہوتی ہے وہاں پہنچ کر سارے ٹینٹ لگا لیتے ہیں اور چیزیں ترتیب سے رکھ کر کچن ٹینٹ لگا کر کچھ نہ کچھ بنانا شروع کردیتے ہیں۔ جب سیاح پہنچتے ہیں تو سب کچھ پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ کچھ پورٹر اور خچر پیچھے رہ گئے تھے۔ ہماری منزل جھولا کیمپ تھی۔
تقریبا ایک کلومیٹر دور سے ہی جھولا کیمپ نظر آنے لگا۔ کیمپ دیکھ کر ہمارے حوصلے بلند ہوگئے۔ لیکن کیمپ بظاہر جتنا قریب نظر آرہا تھا دراصل اس سے دوگنی دوری پر تھا۔ ہمارے اور کیمپ کے بیچ میں دریا تھا۔ دریا کے کنارے کنارے چل کر کیمپ سے آگے نکل کر دریا پر ایک معلق پُل تھا جہاں سے گزر کر پرلے کنارے جانا تھا اور وہاں سے واپس کیمپ تک آنا تھا۔ پل تک پہنچ کر ہم آرام کرنے کی غرض سے بیٹھ گئے اور تصویریں بنانے لگے۔ پیچھے سے آنے والے ایک پورٹر نے اطلاع دی کہ ایک خچر دریا میں گر کر بہہ گا۔ یہ خبر کسی آسمانی بجلی سے کم نہ تھی۔ ہمارا ایک بوجھ خچر پر رکھا گیا تھا اور تمام جمع تفریق کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ وہی خچر گرا ہے جس پر ہمارا سامان بھی تھا۔ باقی سامان اینڈریو اور اسکی بیوی کا تھا۔ اینڈریو کا تعلق آسٹریلیا سے تھا اور اسکی بیوی تائیوان کی رہنے والی تھی۔ انکے گروپ کا تیسرا رکن ڈیاگو تھا جسکا تعلق سوئیزر لینڈ سے تھا لیکن اسکا سامان ایک اور پورٹر کے پاس تھا۔
یہ خبر سن کر میری حالت عجیب ہوگئی تھی۔ مجھے تقریبا چپ سی لگ گئِ اور میں حساب کتاب میں مصروف ہوگیا۔ اگر سامان دریا میں خچر کے ساتھ بہہ گیا ہے تو سامان کے بغیر آگے جانا ناممکن تھا۔ لیکن واپس میں کسی قیمت پر ناکام نہیں جانا چاہتا تھا۔ میں نے سوچ لیا کہ اگر ہمارا سامان پانی میں بہہ گیا ہوا تو یہاں سے ایک پورٹر واپس اسکولی بھیجوں گا اور کمپنی کے منیجر کو پیغام بھجواوونگا کہ سکردو سے سامان لیکر اسکولی بھجوائے اور سامان پہنچنے تک ہم جھولا کیمپ میں انتظار کریں گے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد میری حالت قدرے سنبھل گئی گو کہ دل کی رفتار ابھی بھی نارمل نہیں ہوئی تھی۔ ماضی میں میں نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ جب بھی کوئی ایسی مشکل پیش آتی ہے جسکا حل میرے بس سے باہر ہو تو میں منت مانتا ہوں اور یہ تجربہ ہر بار کامیاب رہتا ہے۔ مسئلہ جیسا بھی ہو حل ہوجاتا ہے۔ یہ مسئلہ بہت بڑا تھا۔ میں نے فورا دل ہی دل میں منت مان لی اور دعا کرتا رہا کہ اللہ آسانی والا معاملہ فرما۔
کیمپ پہنچ کر میں نے عباس کو آواز دی جو اسی گروپ کا گائیڈ تھا جس میں تین غیرم ملکی تھے اور جنکا خچر گرا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ ہمارا سامان بہہ گیا کیا؟ وہ بولا نہیں آپکا تو سارا سامان پہنچ چکا ہے سامنے پڑا ہے۔ یہ خبر سن کر سمجھ نہیں آرہی تھی کہ سامان بچ جانے کا جشن منانا ہے یا جن کا سامان ضائع ہوگیا انکے ساتھ مل کر انکے سامان کا ماتم کیا جائے۔ بہرحال دل ہی دل میں بہت خوشی ہوئی۔ راستے کی تھکن گویا اسی ایک خبر سے بالکل جاتی رہی۔ چار بجا چاہتے تھے۔ مجھے شدید پیاس لگ رہی تھی۔ پانی کی بوتل ہمارے پاس تھی جس میں ابالا ہوا پانی تھا لیکن اس پانی کا ذائقہ کچھ عجیب سا تھا۔ اگرچہ وہ عجیب ذائقہ کچھ مانوس سا تھا لیکن بہت برا تھا۔
سارا راستہ صرف ایک دو گھونٹ ہی پی لیتا زیادہ نہیں پیا جارہا تھا۔ ایک ٹب میں کوکا کولا اور منرل واٹر کی بوتلیں پڑی تھیں۔ میں نے ایک پورٹر سے پوچھا کہ یہ بوتلیں کس کی ہیں؟ مجھے لگا شاید کسی گروپ کی ہوں گی۔ اس نے بتایا کہ یہ بیچنے کیلئے کیمپ والوں نے رکھی ہیں۔ میں نے فورا پانی کی بوتل اٹھا کر پانی پینا شروع کردیا اور جی بھر کر پیا۔ اسکے بعد قیمت پوچھی تو ڈھائی سو روپے بتائی جو میں نے خوشی خوشی دے دی۔ پیاس سے جو حالت تھی اس وقت پانچ سو میں بھی سستی لگ رہی تھی کیونکہ صاف پانی دستیاب نہیں تھا۔ کیمپ کے ساتھ بہنے والی ندی میں پانی بہت زیادہ اور گدلا تھا۔ شام کے بعد کہیں جاکر پانی کم اور صاف ہوتا اور تب تک انتظار ممکن نہیں تھا۔
جوسامان خچر کے ساتھ دریا کی نذر ہوا اس کی تفصیلات پوچھیں تو پتا چلا کہ اینڈریو کی بیوی کا ہے اور وہ زارو قطار رورہی ہے۔ ہم اسکے خیمے میں گئے اور اسے تسلی دی کہ جوضروری سامان ہے وہ ہم مل بانٹ کر گزارہ کرلیں گے۔ اضافی گرم ٹیوپیاں سویٹر جرابیں اکٹھی کرکے اسکے پاس لے گئے۔ اتنے میں سارا سامان بھی پہنچ گیا۔ سامان کھولنے کے بعد پتا چلا کہ اینڈریو کی بیوی کا سامان تو محفوظ ہے اینڈریو کا سامان بہہ گیا ہے۔ اب اینڈریو کی بیوی تو پرسکون ہوگئی لیکن ہمارا کام نئے سرے شروع ہوگیا۔ ہم نے اب اپنی تسلیوں کا رخ اینڈریو کی طرف موڑ دیا۔ لیکن وہ بہت بلند ہمت شخص تھا۔ حسب معمول مسکراتا رہا اور کہا کہ جیسا تھا بھی ہوا گزارہ کرلیں گے۔ کم سے رونا دھونا بند ہوگیا۔
کچن سٹاف نے چائے بنا لی تھی ہم چائے پینے کیلئے کچن ٹنٹ میں گئے اور مٹی کے تیل والے سٹو کی بو محسوس کرکے مجھے یاد آگیا کہ پانی میں جو ذائقہ محسوس ہورہا تھا وہ مٹی کے تیل کا ہی تھا کیونکہ پانی اسی سٹو سے ابالا گیا تھا۔ پہاڑوں میں آگ جلانے کیلئے مٹی کا تیل ہی استعمال ہوتا ہے۔ چائے پینے کے بعد اپنے ٹینٹ میں جاکر سلیپنگ بیگ کھول کر بچھایا اور تھوڑی دیر لیٹ گیا۔ اسکے بعد جب سورج ڈھلنے لگا تو میں کیمپ سے دور ایک چٹان کا سہارا لیکر پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں پر سورج کی آخری کرنوں کا نظارہ کرنے لگا۔ برفیلی چوٹیوں پر سورج کی زرد روشنی سے بالکل ایسا لگ رہاتھا جیسے پہاڑ کی چوٹی یا تو سونے کی بنی ہو یا آگ اگل رہی ہو۔ یہ منظر بہت مسحور کن تھا۔ سورج ڈوبنے کے بعد میں کافی دیر وہیں آنکھیں بند کئے پشت پر بہنے والی ندی اور سامنے بہنے والے دریا کے پانی کا شور سنتا رہا۔ تیزی سے بہتا پانی راستے میں آنے والے پتھروں سے ٹکرا کر ماحول میں عجیپ رومانویت پید اکر رہا تھا۔ دور کیمپ میں پورٹرز کی آوازیں اور کچھ قہقہے اور کبھی گھوڑے یا خچر کی ہنہناہٹ کانوں کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔
آنکھیں بند کئے میں چشم تصور سے منظر کشی کرنے لگا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں سیکڑوں سال پہلے کسی لشکر کا حصہ ہوں جس نے شب بسری کیلئے اس وادی میں پڑاو ڈالا ہے۔ کافی دیر اسی طرح خیالات کے گھوڑے دوڑا کر اور خاموشی میں قدرت سے مکالمہ بازی کرنے کے بعد میں اٹھا اور کیمپ کی طرف آگیا۔ شام کا کھانا تیار ہونے والا تھا۔ کھانا بہت خاص تھا۔ مارخور کا گوشت تیار ہورہا تھا۔
کچھ دیر بعد کھانا تیار ہوگیا۔ شوربہ تو اچھا تھا لیکن گوشت بہت سخت تھا۔ کک پریشان نظر آرہا تھا۔ میں نے کہا پریشان نہ ہو گوشت سارا نکال کر الگ کرلو آج شوربہ کھا کر گزارہ کرتے ہیں کل دوبارہ یہی گوشت پکا لینا۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد میں ایک چٹائی لیکر کیمپ سے ذرا دور چلا گیا اور چٹائی پچھا کر لیٹ گیا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ ندی کا پانی اب اتر چکا تھا کیونکہ شام کے بعد برف پگھلنے کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔ دریا البتہ اپنی پوری رفتار سے بہہ رہا تھا اور اسکی آواز سن کر عجیب سکون محسوس ہورہا تھا۔ آسمان پر ستارے معمول سے کہیں زیادہ تھے۔ کہکشاں بالکل صاف اور واضح نظر آرہی تھی۔ انسانو کی عمومی دست درازی سے محفوظ پہاڑوں میں گرد و غبار اور دھواں نہیں ہوتا اسلئے تمام چھوٹے بڑے ستارے واضح نظر آتے ہیں۔ رات گئے تک میں وہیں لیٹا رہا اور جب آنکھیں بوجھل ہونے لگیں اور ٹھنڈ بڑھنے لگی تو چٹائی لپیٹ کر اپنے خیمے میں چلا گیا اور کروٹیں بدل بدل کر نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔
جاری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں