#کے_ٹو_نامہ قسط - 8
گورو ٹو سے کونکورڈیا
16 جولائی 2020
صبح اک بار پھر وہی روزمرہ کا معمول سامان باندھا گیا ناشتہ تیار ہوا اور ناشتہ کرکے ایک بار پھر حسب معمول سفر شروع ہوا۔ لیکن آج خوشی معمول سے کہیں زیادہ تھی۔ آج ہم کونکورڈیا پہنچ رہے تھے۔ کونکورڈیا یوں سمجھ لیں کہ قراقرم کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ یہاں سے ہر طرف راستے نکلتے ہیں اور آٹھ ہزار میٹر سے بلند چار چوٹیوں تک رسائی کیلئے ہاں سے ہوکر ہی گزرنا پڑتا ہے بلکہ بسا اوقات یہاں شب بسری کرنی پڑتی ہے۔
سفر آج بھی مشکل تھا بلکہ روزمرہ سے زیادہ مشکل تھا اور اوپر سے سات دن کے تھکاوٹ الگ لیکن آج جذبے جوان تھے۔ منزل قریب آرہی تھی۔ کونکورڈیا کو خوابوں میں دکھا تھا چشم تصور سے دیکھا تھا اپنی طرف سے کئی نقشے بنائے تھے لیکن پہلی بار حقیقتا" وہ جگہ دیکھنی تھی اور وہاں دو راتیں گزارنی تھیں اور وہاں سے آسمان کو چھوتی ہوئی چوٹیاں دیکھنی تھیں۔
جذبات کی کیفیت کچھ عجیب سی تھی۔ گلیشئیر پر چلتے، چڑھتے اور اترتے آخر کار بارہ بجے کے قریب خیمے نظر آنے لگے۔ گائیڈ نے بتایا کہ جہقں خیمے لگے ہیں وہ کونکورڈیا ہے۔ تو پھر کے ٹو کہاں ہے؟ میں نے بے چین ہو کر پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ کونکورڈیا پہنچ کر بائیں طرف دیکھیں گے تو کے ٹو اور براڈ پیک نظر آئیں گے۔ سامنے جی ون اور جی ٹو البتہ نظر آرہے تھے۔ دوپہر کا کھانا ملتوی کرلیا تھا اور فیصلہ کیا کہ کیمپ پہنچ کر روٹی کھائیں گے۔ اور پھر ڈیڑھ بجے ہم کیمپ پہنچ گئے۔ بائیں طرف مڑ کر دیکھا تو کے ٹو بالکل سامنے اور مکمل صاف نظر آرہا تھا۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کے ٹو آپ کو بالکل صاف اور مکمل نظر آئے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ نہ صرف کے ٹو بلکہ براڈ پیک کی دونوں چوٹیاں بھی بالکل صاف اور واضح دکھائی دے رہی تھیں۔
کونکورڈیا میں میلے کا سا سماں تھا۔ یہاں ہر قسم کے سیاح اور کوہ پیما آتے جاتے رکتے ہیں۔ دنیا کے ہر براعظم سے لوگ یہاں جمع تھے اور سب ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراہٹوں کا تبادلہ کر رہے تھے۔ پہاڑوں کے عاشق وہ واحد مخلوق ہے جو اگرچہ مشترکہ محبوب کی وجہ سے رشتے میں اک دوسرے کے رقیب ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ایک دوسرے سے بلا امتیاز رنگ، نسل، قومیت اور زبان کے بہت محبت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو میں بس اک قدر مشترک ہوتی ہے اور وہ پہاڑوں کی محبت ہوتی ہے۔
ہاں پہنچ کر اس لگ رہا تھا جیسے گھر پہنچ گئے ہوں حالانکہ مشکل سفر ابھی باقی تھا۔ کھانا تیار ہوا تو کھانا کھایا اور اسکے بعد کیمپ کے طول و عرض کو ناپنا شروع کردیا۔ عصر کے وقت ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں اور سردی اتنی تھی کہ گرم پانی سے بھی وضو کرتے ہوئے پانی کی حرارت صرف پہلی بار جلد پر محسوس ہوتی اسکے بعد فورا" گیلی جگہ برف کی طرح ٹھنڈی ہوجاتی۔
تھکاوٹ کا احساس بالکل ختم چکا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کوئی سفر کیا ہے نہ ہو۔
کونکورڈیا دو بڑے گلیشئیرز "بلتورو" اور "گوڈون آسٹن" کا سنگم ہے۔ یہاں جس طرف سے ہم آئے تھے یہ اسکولی اور شگھر کا راستہ ہے اور بالکل سامنے آگے بڑھتے رہیں تو علی کیمپ اور وہاں سے غونڈوغورو پاس سے گزر کر براستہ ہوشے خپلو جاتے ہیں۔ بائیں طرف جو گلیشئیر ہے یہ آپ کو براڈپیک بیس کیمپ اور اس سے گزر کر کے ٹو بیس کیمپ لے جاتا ہے۔ اور علی کیمپ کی طرف سدھا جانے کی بجائے تھوڑا سا بائیں ہاتھ جائیں تو جی ون اور جی ٹو بیس کیمپ پہنچ جاتے ہیں۔ گویا کونکورڈیا ان سارے پہاڑوں کا مرکزی نقطہ ہے۔ اسکا نام کونکورڈیا انگلش کوہ پیما الیسٹر کراولی نے 1902 میں رکھا جب وہ کےٹو سر کرنے کی مہم پر آئے تھے۔ اسکی سطح سمندر سے بلندی 4691 میٹر ہے۔ یہاں کا شاپنگ مال ایک خیمہ ہے جس میں ضرورت کے چیزیں مثلا" آٹا، چاول، نمک مصالحہ جات، سگریٹ،مٹی کاتیل اور گھی وغیرہ دستاب ہے۔ (اس دوکان اور اور اس کے دلچسپ مالک کا تفصیلی ذکر قسط 10 میں آئے گا)۔
اگلے دن ہم نے کے ٹو بیس کیمپ جانا تھا۔ موسم ابھی تک صاف تھا اور ساتھ دے رہا تھا۔ راستے میں آتے ہوئے ایک جگہ آرام کرنے کے جب رکے تو دوسرے گروپ کے گائیڈ عباس نے اوپر دیکھا اور آسمان پر قوس قزح کی طرح کے دو دائروں کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا کہ یہ کوئی اچھی علامت نہیں۔ میں نے کہا کہ اس میں کیا برائی ہے؟ کہنے لگا اگلے چوبیس گھنٹوں کے دوران موسم خراب ہوگا اور برف باری ہوگی۔ میں نے کہا بادل تو کہین نظر نہیں آرہے۔ کہنے لگا اللہ کرے موسم خراب نہ ہو لیکن میرا تجربہ یہی کہتا ہے۔ اسکی بات کی وجہ سے میں تھوڑا کر مند تھا اور ایک آنکھ سے بار بار آسمان کا جائزہ لیتا رہا۔
شام کے فورا" بعد رات کا کھانا کھایا اور اسکے بعد اگلے دن کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ گائیڈ نے دبے لفظوں میں کے ٹو بیس کیمپ سے واپس آنے کے بعد اسی راستے سے جس سے ہم آئے تھے، واپس جانے کا ذکر کیا۔ میں نے کہا ہم غونڈوغورو پاس کراس کرکے ہوشے جائیں گے اور وہاں سے خپلو جیسے کہ منصوبہ تھا۔ کہنے لگا وہ راستہ بہت خطرناک ہے اور موسم بھی خراب ہوجائیگا تو یہ نری خودکشی اور پاگل پن ہے۔ میں نے کہا یہاں تک آنا کونسا سمجھداری کا کا کام ہے اور سمجھدار لوگ پہاڑوں آکر کیوں خوار ہوں گے۔ لہذا یہ تو ثابت شدہ ہے کہ یہاں سب پاگل ہی اکٹھے ہوئے ہیں۔ وہ مزید کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن میں نے اس بات کاٹ دی اور کہا کہ ابھی دو دن اور دو راتیں باقی ہیں اسکے بعد دیکھئں گے کہ کیا کرنا ہے۔ ابھی سے کوئی منحوس بات نہ کرنا کیونکہ منحوس باتیں اکثر سچ ثابت ہوتی ہیں۔ پرسوں رات کو اس موضوع پر بات ہوگی جب ہم کے ٹو بیس کیمپ سے واپس آجائیں گے تب تک اس موضوع پر دوبارہ کوئی بات نہیں ہوگی۔
اس بعد ہم اپنے اپنے خیموں میں چلے گئے۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں