جولا کیمپ سے مونڈروں
12 جولائی 2018
رات مجموعی طور پر سکون سے گزری تاہم کبھی کبھی خچروں کے ہنہنانے سے آنکھ کھل جاتی جس سے لگتا تھا کہ شاید کسی میدان جنگ میں ہوں جہاں گھڑ سوار لشکر حملہ کرنے کے تیار ہے۔ خچر اگرچہ گھوڑے اور گدھے کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہوتا ہے تاہم وہ زبان اپنے عالی نسب آباو اجداد کی بولتے ہیں۔ وہ گدھے کی طرح رینکتے نہیں بلکہ گھوڑے کی طرح ہنہناتے ہیں۔ شاید اسی سے متاثر ہوکر سرحد کے دونوں طرف ہندوستانی ابھی تک اپنی زبان اردو اور ہندی کے بجائے انگریزی میں بات کرنے کو نہ صرف ترجیح دیتے بلکہ قابل فخر سمجھتے ہیں۔ آخر فرنگی فاتح تھا اور ہمارے آباو اجداد مفتوح۔ خیر اس بات کو نظر انداز کردیں یہ غیر اہم بلکہ لغو بات ہے۔
صبح سویرے اٹھے اور سامان سمیٹنا شروع کردیا۔ اس خانہ بدوش زندگی میں شروع شروع میں سب سے ناپسندیدہ کام روزانہ دن میں ایک بار سامان باندھنا اور پھر کھولنا سب سے مشکل کام لگتا ہے۔ تاہم دو تین دن بعد اس کی عادت ہوجاتی ہے اور آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس ترتیب سے سامان کھولنا اور بند کرنا ہے۔ ناشتہ کرکے ہم اگلی منزل کی طرف چل پڑے باقی سٹاف کچن اورخیمے سمیٹنے میں لگا رہا۔
راستہ اب مزید مشکل ہورہا تھا۔ چڑھائی تو اتنی زیادہ نہیں تھی لیکن دو تین کلومیٹر گول گول پتھروں پہ چلنا تھا جس سے الجھن ہورہی تھی۔ دھوپ تیز تھی اور جھلسا رہی تھی۔ ہمارا ارادہ پائیو کیمپ تک پہنچنے کا تھا لیکن گزشتہ روز کے طویل سفر کے بعد جسم میں جگہ جگہ درد محسوس ہورہا تھا۔ چونکہ میں اپنی روز مرہ زندگی میں ورزش کرنے کا عادی نہیں ہوں اور خرگوش کی بجائے کچھوے کی زندگی کو ترجیح دیتا ہوں۔ بقول شخصے عمردرازی کا راز ورزش میں نہیں بلکہ تن آسانی میں ہے۔ ثبوت کے طور پر وہ فرماتے ہیں کہ خرگوش ساری زندگی دوڑ تا پھرتا ہے اور بمشکل دس سال جیتا ہے جبکہ کچھوا متانت سے نپے تلے انداز میں چلتا ہے اور ورزش سے پرہیز کرتا ہے اور سیکڑوں سال جیتا ہے۔ اسی لئے ہم نے کبھی باقاعدہ ورزش نہیں کی۔ اسکے اثرات اب ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ میں نے گائیڈ سے پوچھا کہ پائیو کیمپ کے بعد کہاں جانا ہے؟ اس نے بتایا کہ کل کا دن آرام کریں گے اور پھر پرسوں آگے سفر جاری رکھیں گے۔ میں تھکا ہوا تو پہلے سے تھا اسلئے میں نے کہا کہ ہم آج پائیو نہیں جائیں گے۔ درمیان میں ہی دوپہر کو رک جائیں گے اور کل آرام کی بجائے پائیو کا سفر کریں گے۔ تھکاوٹ کے علاوہ مجھے یہ بھی ڈر تھا کہ ایک دن آرام کے بعد ممکن ہے ہم اپنا سفر جاری نہ رکھ سکیں۔ اس نے بتایا کہ درمیان میں مونڈروں کیمپ ہے وہاں ہم رک سکتے ہیں۔ یہ حوصلہ افزا بات تھی۔ اب منزل قریب لگنے لگی تو حوصلہ بحال ہونے لگا۔ دوپہر بارہ بجے ہم مونڈروں کیمپ پہنچ گئے۔ بہت تیز دوھوپ تھی اور دو دن دھوپ میں چلتے رہنے کی وجہ سے جسم پر میل کی باقاعدہ تہہ جم چکی تھی۔ کیمپ ایک خالی میدان تھا جسکے ایک طرف دریا اور دوسری طرف پہاڑ تھا۔ ایک چھوٹی سی دوکان تھی جہاں ضرورت کی کچھ چیزیں جیسے آٹا، گھی، کولڈ ڈرنکس، بسکٹ، سیگریٹ اور نمکو وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ قیمتیں زیادہ تھیں مثلا" ڈیڑھ لیٹر پیپسی کی بوتل پانچ سو روپے کی ملتی تھی تاہم یہاں تک سامان پہنچانا بھی ایک مشکل کام ہے۔ پانی کا خاطر خواہ بندوبست تھا۔ پہاڑ سے برف پگھل کر جو پانی دریا کی طرف جارہا تھا اس سے ایک نالی کے ذریعے کیمپ کی طرف پانی موڑا گیا تھا۔ کیمپ میں ایک 4 فٹ قطر کا چوڑا اور تقریبا" چار فٹ گہرا گڑھا کھودا کر تالاب بنایا گیا تھا جو ایک طرح کا سوئمنگ پول تھا۔ میں اس سوئمنگ پول میں نہایا اور کپڑے تبدیل کئے اور میلے کپڑے دھوئے۔ اسکے بعد کھانا تیار ہوا تو دوپہر کا کھانا کھایا۔
کچن سٹاف اور گائیڈ کا کھانا ہمارے کھانے کے ساتھ بنتا تھا جبکہ پورٹرز اپنا کھانا خود بناتے تھے۔ کھانے کے بعد سٹاف والوں نے بلتی چائے بنانا شروع کیا۔ یہ لوگ بلتی چائے بہت شوق سے پیتے ہیں۔ سبز چائے کی طرح ہرے رنگ کی پتی ہوتی ہے جسے کافی دیر ابالا جاتا ہے۔ جب ابل ابل کر اسکا رنگ کالا ہوجاتا ہے تو اس میں خشک دودھ ڈال دیا جاتا ہے۔ ابالنے کا ایک اور دور چلتا ہے۔ اسکے بعد اسمیں خالص گھی اور نمک ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ جو ایک شوربہ نما چیز بنتی ہے اسے بلتی چائے کہتے ہیں۔ ان لوگوں کے اصرار پر میں نے ایک گھونٹ پیا اور اسکے بعد آج تک دوبارہ ہمت نہیں ہوئی۔ وہاں ایک دس بارہ سال کا بچہ بھی دوکان پہ کام کرتا تھا۔ اسکی آنکھیں بہت خراب تھیں اور کالا چشمہ لگائے بغیر آنکھیں نہیں کھول سکتا تھا۔ میرے پاس آنکھوں کی دوائی موجود تھی۔ اسکی آنکھوں میں دوائی لگائی۔ اسکے بعد واپس آنے والے ایک پورٹر نے اپنا انگوٹھا دکھایا جو کہ کسی نوکیلے پتھر سے کٹ گیا تھا۔ وہاں موجود لوگوں نے بچےکی آنکھوں میں دوائی ڈالنے والی بات بتادی تھی جس کی وجہ سے وہ سمجھا کہ شاید میں کوئی ڈاکٹر ہوں۔ میں نے اسے خبردار کیا کہ میں کوئی ڈاکٹر تو نہیں ہوں البتہ دوائیاں میرے پاس ہیں اور مرہم پٹی کردوں گا۔ لیکن اسکےانگوٹھے کی پٹی جیسے کھلی اس میں سے خون نکلنا شروع ہوگیا۔
زخم بڑا اور کھلا ہوا تھا۔ میں نے کہا خون روکنا ضروری ہے اور کم سے کم دو ٹانکے لگیں گے اور درد بھی بہت ہوگا۔ وہ کہنے لگا درد کا مسئلہ نہیں ہے۔ میں نے اسکا زخم صاف کیا اور اپنی ابتدائی طبی امداد والے تھیلے سے سوئی دھاگہ نکال کر دو ٹانکے لگائے۔ اور پھر مرہم پٹی کردی۔ اینٹی بائیوٹک دوائیاں بھی دے دیں۔ اسے بار بار تاکید کی بازو سدھا نہیں لٹکانا بلکہ گلے میں ڈال لینا اور سکردو جاکر ڈاکٹر کو دکھا دینا۔
پہاڑوں میں جو سب سے کمیاب چیز ہوتی ہے وہ دوائی ہے۔ لوگ دوائی کسی کو دیتے بھی نہیں کہ اگر کم پڑگئی تو خود کیا کریں گے۔اگر آپ پہاڑوں میں جارہے ہیں تو ضرورت سے زیادہ دوائیاں لے جائیں اور وہاں کے لوگوں میں تقسیم کردیں۔ ابتدائی طبی امداد کی دوائی وہاں کسی کی جان بچا سکتی ہیں۔
دھوپ بہت تیز تھی اور جھلسا رہی تھی۔ خیمے کے اندر گرمی تھی اور باہر دھوپ۔ کسی نہ کسی طرح دوپہر کا وقت گزر گیا اور عصر کے وقت ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں۔ میں نے کیمپ کے پیچھے موجود پہاڑ پر جاکر کیمپ کی کچھ تصویریں بنائیں۔ شام تک ادھر ادھر گھوم پھر کر وقت گزارا اور پھر شام کا کھانا تیار ہوگیا۔ وہی مارخور کا گوشت دوبارہ پکایا گیا تھا۔ گوشت واقعی بہت خوش ذائقہ اور منفرد تھا۔ شاید گوشت کی لذت مارخور کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر پورٹرز کے ساتھ گپ شپ ہوتی رہی اس کے بعد میں اپنے خیمے میں چلاگیا۔ یہ خیمے میں تیسری رات تھی اور اب اس کی عادت ہونے لگی تھی۔ شروع میں خیمے پر قبر کا گماں ہوتا تھا کہ اب یہ کافی بڑا لگنے لگا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی آنکھ لگ گئی اور میں سوگیا۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں