منگل، 16 فروری، 2021

کے ‏ٹو ‏نامہ ‏قسط ‏11

کانکورڈیا سے علی کیمپ 

19 جولائی 2018

باہر سپورٹ سٹاف کی آوازیں بھی آرہی تھیں جو کچن ٹینٹ کو اڑنے سے بچانے میں لگے ہوئے تھے۔ اٹھ کر باہر جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا بلکہ یہ خطرہ تھا کہ باہر نکلنے کے بعد ٹینٹ کم وزن کی وجہ سے ہوا سے اڑ ہی نہ جائے۔ اسلئے سر اور کان اچھی طرح چادر میں لپیٹ کر دوبار سونے کی کوشش کرنے لگا۔ اور تھوڑی دیر بعد پھر سو گیا۔ صبح سویرے اٹھ کر سب سے پہلے ٹینٹ سے باہر جھانکا اور آسمان کی طرف دیکھا تو آسمان بالکل صاف تھا۔ موسم صاف دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ ناشتہ تیار ہونے تک میں دل ہی دل میں ساری منصوبہ بندی مکمل کرلی تھی۔
گائیڈ کو آواز دیکر کہا کہ اب بتاو موسم کیسا ہے؟ میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ میں پیغمبر کی اولاد میں سے ہوں میری دعا رد نہیں ہوتی لیکن آپ مانے ہی نہیں۔ اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کہنا شروع کردیس۔ وہ ذرا مذہبی خیالات کا تھا اور مدرسے میں ایک دو سال پڑھنے کے بعد چھوڑ چکا تھا۔ میں نے سنجیدگی سے کہا کہ تمہیں میرے شجرہ نسب پر شک ہے بخدا جھوٹ نہیں بولتا پیغمبر کا بیٹا ہوں جنت میرے باپ کی جاگیر رہی ہے۔ وہ پھر لاحول پڑھنے لگا۔ میں نے کہا آدم علیہ السلام کا بیٹا ہوں اب بول دو کہ میں نہیں ہوں۔ وہ یہ سن کر ہنسنے لگا۔ لیکن اسکے چہرے کو دیکھ کر صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ پریشان ہے۔ 
ناشتہ کرتے ہوئے گائیڈ نے ایک بار پھر قائل کرنے کی کوشش کی۔ میں نے ہنس کر کہا کہ آپ نے پچھلے دو تین دن میں راستے کی مشکلات کی جتنی باتیں سنائی ہیں اب تو شوق اتنا بڑھ گیا ہے کہ نہ جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسلئے اس ٹاپک کو یہیں بند سمجھیں ہاں البتہ اگر آپ خود گھبراہٹ محسوس کر رہے ہیں تو اسکے بارے میں کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ہر راستہ بند پاکر اس نے تسلیم کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ کہنے لگا یہ تو نری خودکشی کرنے والی بات ہے جب موت سامنے نظر آرہی ہے تو جانا بے وقوفی ہے۔ میں نے کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ آپ کو یہیں سے واپس بھیج دیں اور ہم آگے چلے جائیں۔ پھر میں نے سارے سٹاف کو اکٹھا کیا اور پوچھا کہ کون کون ہمارے ساتھ خوشی خوشی جانے کیلئے تیار ہے یا یوں سمجھ لیں کہ کون کون ہمارے ساتھ مرنا چاہتا ہے؟ سب سے پہلے اسسٹنٹ کُک حسین نے ہاتھ کھڑا کیا بولا صاحب آپ مرے گا تو ہم آپ سے پہلے مرے گا ہم جائے گا ساتھ۔ کوئی اور نہ بھی جائے میں اکیلا لے جائیگا راستہ آتا ہے میرے کو ۔ اور ایک بوجھ بھی اٹھائے گا۔ حسین اسکو لی سے پلاسٹک کی عام چپل (جو ہم گھر میں وضو کرنے یا نہانے کیلئے پہنتے ہیں) میں چل رہا تھا۔ گورو ٹو جاتے ہوئے میری نظر پڑی تو میں نے پوچھ لیا تھا کہ آپ ابھی تک چپل پہن کر ہی چل رہے ہیں جس پر اس نے بتایا کہ وہ یہی چپل پہنتا ہے بوٹ اسکے پاس ہیں ہی نہیں۔ میرے پاس اضافی جوگرز تھے میں نے اسے دے دئیے تھے۔ غالباًُ وہ اس طرح احسان کا بدلہ چکانا چاہتا تھا۔ اسکے بعد حسن جو کہ ہمارا کُک تھا بولا کہ میں بھی ساتھ جاؤں گا چاہے جو کچھ بھی ہو میں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ اسکے بعد دو نوجوان لڑکے جوکہ ہمارے ساتھ پورٹر تھے وہ میٹرک کا امتحان دیکر فارغ تھے تو سیزن میں پورٹر کا کام کرکے گھر کی معیشت کو کاندھا دینے کی کوشش کر رہے تھے بولے ہم بھی ساتھ جائیں گے ہم پہلے کبھی نہیں گئے ہم دیکھنا چاہتے ہیں کتنا مشکل راستہ ہے۔ میں نے کہا بس ٹھیک ہے ہماری ٹیم پوری ہے۔ اضافی سامان ویسے بھی واپس بھجوانا ہے تو ہم صرف ضرورت کا سامان ساتھ لیکر آگے جائیں گے جس کے بمشکل تین بوجھ بنیں گے۔ گائیڈ سے کہہ دیا کہ آپ واپس سامان لیکر سکردو پہنچیں ہم اس طرف سے خپلو جاکر وہاں سے سکردو آئیں گے۔ سامان سکردو کمپنی کے آفس پہنچا دینا۔ اسکے بعد سامان کی تقسیم شروع ہوگئی اور آدھے گھنٹے میں ضروری اور غیر ضروری سامان الگ الگ ہوگیا۔ سات بجے کے قریب ہم سب تیار تھے۔ ایک دائرہ بنا کر کھڑے ہوگئے اور سب نے اجتماعی دعا کی۔ دعا کے بعد نعرہ تکبیر اور نعرہ حیدری لگا کر علی کیمپ کی طرف روانہ ہوئے اور ہمارا باقی سٹاف واپس اسی روٹ سے پیچھے لوٹ گیا۔ علی کیمپ ٹریک کے پہلے دو گھنٹے انتہائی مشکل تھے۔ اس میں برف کے بڑے تو دوں کو بھی پار کرنا پڑا اور تقریباً چڑھائی تھی۔ دو گھنٹے بعد ڈھلان قدرے آسان تھے اور نسبتاً کھردری برف پر چلنا پڑا جو کہ بہت آسان لگ رہا تھا۔ راستے میں کئی چھوٹے بڑے کروس تھے لیکن انکو چھلانگ لگا کر پار کیا جاسکتا تھا۔ دھوپ نکلی ہوئی اور موسم بالکل صاف تھا۔ بارہ بجے کے قریب وقفہ کیا اور ساتھ جو کھانے کا سامان تھا وہ نکال کر کچھ کھا پی لیا۔ ہمارے کُک حسن کی بے شمار اچھی باتوں میں ایک اچھی بات یہ بھی تھی کہ ناشتے کے بعد وہ ایک دو پراٹھوں میں تلے ہوئے انڈے لپیٹ کر قلعی میں بند کرتا اور راستے میں جہاں بھوک لگتی برنچ کروا لیتا۔ کھا پی کر فارغ ہوئے تو ایک بار پھر سفر شروع ہوگیا۔ رات کو اچھی خاصی برف باری ہوئی تھی اور وہ تازہ برف اب پگھل کر بہت نرم ہوچکی تھی۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے رہے پاؤں جو پہلے ٹخنوں تک برف میں دھند رہے تھے ان کہیں کہیں گھٹنوں تک دھنسنے لگے۔ راستے میں ایک دو جگہ پانی کراس کرنا پڑا جہاں باوجود کوشش کے دوسرے کنارے پر پاؤں پانی میں چلے گئے اور بوٹ پورے پانی سے بھر گئے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ بوٹ ٹھنڈے پانی سے پوری طرح بھر چکے تھے اور چاروں طرف برف کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ برف پر ننگے پاؤں چلنا بھی ممکن نہیں تھا۔ ہر گزرتے لمحے کیساتھ برف مزید نرم ہورہی تھی اور چلنا مزید مشکل ہورہا تھا اسلئے رفتار کم کرنا بھی مزید مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ ایسی صورتحال میں جو سب سے حوصلہ افزا بات تھی وہ یہ کہ اب کیمپ پر لگا لال رنگ کا جھنڈا نظر آنے لگ گیا تھا۔ برف میں دھنستے پاؤں کھینچ کھینچ کر نکالتے ہوئے آخر کار ہم علی کیمپ پہنچ ہی گئے۔ علی کیمپ کی وجہ تسمیہ غونڈو غورو پاس دریافت کرنے والے علی کا نام ہے۔ غونڈو غورو پاس دراصل خپلو سے کے ٹو بیس کیمپ کا دوسرا راستہ ہے۔
غونڈوغورو پاس کی کہانی جو ہمیں سنائی گئی وہ یہ ہے کہ خپلو کے لوگوں نے شگھر والوں کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے یہ راستہ نکالاتھا۔ چونکہ بلتورو گلیشئیر جانے کا راستہ شگھر سے ہوکر گزرتا ہے اسلئے سٹاف زیادہ تر شگھر کا ہوتا ہے۔ سکردو کی پوری معیشت کا دارومدار سیاحت پر ہے۔ خپلو کے پورٹرز کو کام ملنے میں مشکلات پیش آرہی تھیں تو خپلو کے لوگوں نے اسکا حل غونڈوغورو پاس کے راستے کانکورڈیا کا راستہ نکالا۔ لیکن یہ راستہ اگرچہ مختصر ہے لیکن غونڈوغورو پاس کی وجہ سے بہت مشکل ہے۔ جب کچھ حادثات پیش آئے تو اس طرف سے آمدورفت کا سلسلہ تو ختم ہوگیا لیکن مہم جوئی کیلئے یہ پاس ابھی ابھی مقبول ہے۔
کیمپ پہنچ کر شام سے پہلے پہلے ہی کھانا کھلا دیا گیا کیونکہ رات کے بارہ بجے ہم نے آگے چڑھائی شروع کرنی تھی۔ حسین نے چولہے پر میرے بوٹ تقریبا" پکا کر خشک کرلئے تھے۔
ساتھ والے ٹینٹ میں دوسرے گروپ کے پورٹرز اور پورٹر سردار کے درمیان زور و شور کی بحث ہورہی تھی۔ اگرچہ باتوں کی سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن جارحانہ انداز سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ بحث دوستانہ نہیں ہے۔ حسین سے جب پوچھا کہ یہ کیا مسئلہ ہے تو اس نے بتایا کہ غونڈو غورو کی چڑھائی پر وزن 15 سے 16 کلو تک پورٹر کو دیا جاسکتا ہے لیکن پورٹر کہہ رہے ہیں کہ انکا وزن زیادہ ہے اور وہ زیادہ پیسے مانگ رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ وزن تو آپ لوگوں کا بھی زیادہ ہے تو آپ لوگ کیوں چپ ہیں؟ وہ ہنس کر بولا کہ صاحب وہ وزن پیٹھ پر لاد کر لے جائیگا ہم دل پہ اٹھا کر لے جائیگا اور اتنا وزن اور بھی ہو تب بھی کوئی بات نہیں۔ پھر اس نے بتایا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پورٹرز کا وزن جوکہ 25 کلو تک ہونا چاہئے ان کا اپنا ذاتہ سامان شامل کرکے 35 کلو تک ہوجاتا ہے۔ لیکن واپسی پر کھانے پینے کے سامان کا واز کم ہوتا جاتا ہے تو پورٹرز کا وزن کم بھی ہوجاتا ہے۔ اور بعض دفعہ جب پورٹرز زیادہ قانون دان بنتے ہیں تو جب انکا وزن 25 کلو سے کم رہ جاتا ہے تو پورٹر سردار انکے سامان میں وزن پورا کرنے کیلئے پتھر بھی رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ پتھر اسکولی میں مجھے واپس دینا ہے۔
پورٹرز کی زندگی یقینا" بہت مشکل ہے اور انکا استحصال ہوتا رہتا ہے۔ انکی باقاعدہ کوئی تنظیم نہیں ہے جسکی وجہ سے ٹورزم کمپنیاں جو لاکھوں میں فیس وصول کرتی ہیں وہاں پورٹرز کو زیادہ وزن کے عوض بھی کم معاوضہ ملتا ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ اگر ایک گروپ کے سامان کا وزن 350 کلو ہے تو کمپنی کو قانونا" 14 پورٹرز لینے چاہئیں اور کمپنیاں سیاحوں سے پیسے اسی حساب سے لیتے ہیں۔ لیکن وہ 14 کی بجائے 10 پورٹرز میں وہ وزن تقسیم کرلیتے ہیں اسطرح 4 پورٹرز کے پیسے انکی بچت میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس بچت کیلئے ہر پورٹر کو 10 کلو اضافی وزن اٹھانے پڑتا ہے۔ اگر وہ نہیں اٹھائیں گے تو بہت سے غریب اور مجبور لوگ دستیاب ہیں جو اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات پورا کرنے کیلئے 40 کلو وزن بھی اٹھانے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ یہ ساری تفصیلات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سیاحوں کو جو ٹپ دینا تکلیف دہ لگتا ہے وہ تکلیف دہ نہ لگے۔ اس ٹپ سے کسی غریب پورٹر کے گھر کا چولہا جلتا ہے یا بچے کی کتابیں یا سکول بیگ، جوتے اور یونیفارم کا بندوبست ہوجاتا ہے۔ اور ہم نے کونسا روز روز جانا ہوتا ہے سال میں ایک دو بار ہی تو جاتے ہیں۔
شام ہوچکی تھی اور اندھیرا پھیل رہا تھا۔ ہم سر شام ہی لیٹ گئے تاکہ 12 بجے سے پہلے پہلے کچھ دیر آرام کرلیں کیونکہ اسکے بعد ساری رات اور سارا دن چلتے رہنا تھا۔
(اتنی جلدی ختم نہیں ہوگی ابھی بہت سفر باقی ہے ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...