منگل، 13 اگست، 2019

قدرت اور قانون

قدرت اور قانون 
میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی جانور یا پرندے کو رزق کی تنگی کی وجہ سے نہ تو خودکشی کرتے دیکھا ہے اور نہ بچوں کو مارتے دیکھا ہے۔ ہاں جانوروں کو رزق کیلئے ایک دوسرے سے لڑتے مرتے ضرور دیکھا ہے۔ جانوروں کو دوسرے جانوروں کو کھاتے بھی دیکھا ہے۔ 
دوسری طرف انسان ہے جسے ہم اشرف المخلوقات یعنی تمام دوسری مخلوقات سے افضل بھی مانتے ہیں۔ اکثر ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ غربت اور تنگدستی سے دل برداشتہ ہوکر لوگ خود کشی کرلیتے ہیں۔ کچھ لوگ بچوں تک کو مار ڈالتے ہیں کیونکہ بچے کی تکلیف ان سے برداشت نہیں ہوتی۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ انسان اور دوسری مخلوقات میں یہ فرق کیوں ہے؟ 
بہت سے لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی اور تقریباً سب اس نتیجے پر پہنچے کہ جب معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا اور ظلم و جبر ہوتا ہے تو طاقتور کمزور کا حق چھین لیتا ہے اور جب کمزور ہر طرف سے مایوس ہوجاتا ہے اسکے بعد اسکے پاس زندگی ختم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس دلیل میں بڑی جان ہے اور دلکش لگتی ہے لیکن میں اس سے مطمئن نہیں ہوں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جب انسانی معاشرے میں اچھے اقدار کی کمی دکھائی دیتی ہے تو ہم فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یہاں تو جنگل راج ہے طاقت کا قانون چلتا ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ جانوروں میں طاقتور کمزوروں کا استحصال زیادہ کرتے ہیں۔ لہذا معاشرے میں طاقتور کا کمزوروں پر ظلم بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ تو ہوسکتی ہے لیکن یہ کہنا کہ یہی ایک وجہ ہے مایوسی کی، درست نہیں لگتا۔ 
اب اگر اس ساری صورتحال کو مذہب اور قرآن کیساتھ جوڑ کر دیکھیں تو جس شخص کا قرآن پر ایمان ہے اور یہ یقین ہے کہ قرآن میں لکھی ہر بات سچ ہے تو پھر ایک صاحب ایمان کا خودکشی کرنا سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ یقین ہے کہ رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے اور وہ رزق دیگا۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ املاک کی کمی کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی دیں گے۔ جب اللہ نے وعدہ کرلیا پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ میرا رزق کوئی دوسرا چھین کر لے گیا؟ اور اگر لے گیا تو پھر وعدے کا کیا بنا؟ 
سوچ و بچار، مشاہدے اور مطالعے کے بعد میں جس  نتیجے پر پہنچا ہوں وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ یہ میری ذاتی رائے ہے اور غلط بھی ہوسکتی ہے آپ کا اس سے متفق ہونا لازم نہیں ہے۔ 
ہم ایک بنیادی غلطی جو کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی قدرت اور قانون کو ایک دوسرے میں مدغم کرلیتے ہیں جبکہ یہ دو بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ اللہ قادر مطلق تو ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے لیکن اس نے کچھ قوانین وضع کئے ہیں اور دنیا انہی قوانین کے تحت چلتی ہے اور اللہ ان قوانین کے خلاف نہیں کرتا کچھ۔ مثلاً وہ چاہے تو بغیر بادل کے بارش برسا دے یہ اسکی قدرت ہے لیکن اسکا قانون یہ ہے کہ بارش بادلوں سے ہی برسے گی۔ ہاں بعض اوقات وہ اپنے قوانین کو توڑ کر اپنے وجود کا اظہار کرتا ہے۔ اور چونکہ یہ انسانی عقل اور تجربے کے خلاف ہوتا ہے اسلئے اسے معجزہ کہتے ہیں اور معجزات انبیاء کیلئے مخصوص ہیں۔ مثال کے طور پر آگ کا کام جلانا ہے لیکن اللہ چاہے تو اس میں سے حرارت نکال دے۔ 
اب باقی جانداروں اور انسانوں میں جو بنیادی فرق مجھے نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ جانور اور پرندوں کو بنادی قوانین بتا دئیے گئے اور وہ بلا چوں چرا اس کی پابندی کرتے ہیں۔ ان میں قوانین کی خلاف ورزی کی طاقت ہی نہیں۔ مطلب یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شیر گھاس کھا کر پیٹ بھرنا شروع کرے اور ایک ہرن جانوروں کا شکار کرکے گوشت کھانا شروع کرے یا شاہین رات کو شکار کرے اور الو دن کا شکاری بن جائے۔ 
انسان کیساتھ معاملہ ذرا مختلف ہے۔ انسان کو بھی بنیادی قاعدے قوانین تو بتا دئیے گئے لیکن چونکہ وہ نائب ہے اسلئے اسے اختیار بھی دے دیا گیا کہ وہ ان قوانین کی اگر چاہے تو خلاف ورزی کرلے اور اس طاقت کے احتساب کیلئے ایک یوم حساب بھی بتا دیا گیا کہ جس دن آکر سب حساب کتاب دیں گے کہ کیا کیا اور کیوں کیا۔ 
اب ہوتا یہ ہے کہ انسان اکثر قوانین کو نظر انداز کرکے اللہ کی قدرت پر بھروسہ کرکے بیٹھ جاتا ہے۔ مثلاً کئی لوگ اسلئے نکمے بن کر بیٹھ جاتے ہیں کہ رزق کا وعدہ اللہ نے کیا ہے اسکی فکر نہ کریں۔ پرندہ بھی صبح خالی پیٹ ہوتا ہے اور شام کو پیٹ بھر کر گھونسلے میں آتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ رزق اللہ نے دینا ہے لیکن کیسے دینا ہے اسکے لئے کچھ قانون اور قاعدے بھی ہیں۔ پرندے کا خالی اور بھرا پیٹ تو ہمیں نظر آتا ہے لیکن ان دو کے درمیان پرندے نے کیا کیا، کتنی محنت کی اور کن خطرات کا سامنا کیا وہ ہم جاننے اور سمجھنے کوشش نہیں کر پاتے۔ اور اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان مایوسی کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اللہ کا اعلان تو بہت واضح ہے۔ وہ تو کہتا ہے کہ انسان کیلئے صرف وہی کچھ ہے جسکے لئے وہ سعی کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اللہ کی قدرت پر ایمان جتنا کامل ہے کم سے کم اسی درجے میں اسکے قوانین کو بھی قبول کیا جائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...