سانحہ شمالی وزیرستان
شمالی وزیرستان میں گزشتہ دنوں جو دل دہلا دینے والا سانحہ پیش آیا یہ شاید ایک طویل عرصے یاد رکھا جائیگا اور پرانی چوٹ کی طرح وقتاً فوقتاً درد کی ٹھیسیں بھی اٹھتی رہیں گی۔
اپنے گھر میں بیوی بچوں کیساتھ ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر اس سانحے پر تبصرہ کرنا اور کسی کو غلط اور کسی کو صحیح قرار دینا انتہائی آسان کام ہے۔ لیکن جب آپ کے گھر کے کئی افراد جن میں جوان بزرگ اور بچے شامل ہوں شہید کروا کر، بے سروسامانی کی حالت میں خیموں میں شدید گرمی اور سردی کے دن رات گزارنا، راشن کیلئے لائنوں میں لگ کر گھنٹوں انتظار کرنا یا کسی رشتہ دار کے گھر میں ڈیرہ ڈال کر اس پر بوجھ بن کر رہنا ایک بالکل الگ کہانی ہے۔ جس تکلیف سے وزیرستان کے لوگ گزرے ہیں وہ آپ اور میں لفظوں میں بیان تو کرسکتے ہیں لیکن وہ تکلیف اس طرح کبھی محسوس نہیں کرسکتے جس طرح ان لوگوں نے محسوس کی ہے۔
سب سے پہلی بات تو محسن داوڑ یا اسکے رفقا کا آرمی چیک پوسٹ پر حملہ کرنے والی بات کی صداقت سمجھ سے بالا تر ہے۔ آپ اسے غدار کہہ دیں ملک دشمن کہہ دیں، دشمنوں کا آلہ کار کہہ دیں یا کوئی بھی نام دے دیں لیکن وہ اتنا بے وقوف ہرگز نہیں کہ حالت جنگ میں کھڑی اسلحہ سے لیس فوج پر حملہ کرنے کی غلطی کرے۔ اسکے احتجاج کے فیصلے کو غلط قرار دیا جاسکتا ہے۔موجودہ حالات کے پیش نظر ایک غیر دانشمندانہ اور جلد بازی پر مبنی فیصلہ یقیناً ہے اور اسکا نقصان بھی سب کے سامنے ہے۔ ایسے جذباتی نوجوانوں کا ایک جتھہ لیکر جانا اور احتجاج کرنا جس کے بارے میں آپکو علم ہے کہ آپ انکو حالات بگڑنے کی صورت میں قابو نہیں رکھ سکتے ایک فاش غلطی ہے جو شاید خود انکے لئے بھی عمر بھر کا پچھتاوا ہوگا۔ اسکے بعد غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرنا کہ پاک فوج اس علاقے سے نکل جائے ایک اور جذباتی اور غیر حقیقت پسندانہ مطالبہ ہے۔ تاہم اس سارے واقعے کے بعد حکومت کی خاموشی بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ خاموش بیٹھنے کا وقت ہرگز نہیں۔ حکومت کو اپنا موثر کردار ادا کرنا چاہئے جو کہ اب تک نظر نہیں آرہا۔
وزیرستان اور دوسرے وہ تمام علاقے جہاں فوجی آپریشن ہوا ہے انکی مثال ایک زخمی جسم کی ہے۔ ایک تن درست جسم بڑی ضرب بھی وہ تکلیف نہیں پہنچاتی جو ایک زخم خوردہ جسم کو ہلکی سی چوٹ سے پہنچتی ہے۔ یہ سب لوگ زخم کھائے ہوئے جسم کی طرح ہیں۔ یہ اگر کہیں کہیں لائن کراس بھی کریں گے تو بھی انکے ساتھ عام شہری کے مقابلے میں زیادہ نرمی برتی جانی چاہئے۔ ان لوگوں کو ابھی اپنا حق ٹھیک طرح سے مانگنے کا سلیقہ بھی نہیں۔ انہیں اپنے حقوق اور ان حقوق کے بدلے اپنی ذمہ داریوں کا بھی پوری طرح احساس نہیں۔ ابھی انکی مرہم پٹی کرنے کا وقت ہے۔ انکے زخموں پر مرہم رکھ کر انکے تندرست ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ریاست اپنی عملداری قائم رکھنے کیلئے سختی بھی کرتی ہے لیکن ہر چیز کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے اور یہ وقت سختی کرنے کا ہرگز نہیں۔ حکومت کی او لیں ذمہ داری اس واقعے کی شفاف، غیر جانبدار اور ایسے اداروں سے تحقیقات کروانا ہے جس پر فریقین متفق ہوں۔ اور پھر تحقیقات کے نتیجے میں جو قصور وار ٹھہرایا جائے اسکو سزا دی جائے۔
رہی بات پی ٹی ایم کی تو اگر حکومت سمجھتی ہے کہ وہ کسی قسم کی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے تو حقائق سامنے لاکر انکو مروجہ قوانین کے مطابق سزا دے دینی چاہئیے۔ لیکن اگر یہ صرف زبانی الزامات ہیں تو ایسے الزامات سے گریز کرنا چاہئے اور پی ٹی ایم کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے کا موقع دینا چاہئے۔
پی ٹی ایم کو بھی اب دوسروں کا سہارا لینے سے گریز کرنا چاہئیے چاہے وہ سیاسی جماعتیں ہوں یا دوسرے ہمسایہ ممالک۔ انہیں دوسروں کی ہمدردی کی روپ میں کسی کا آلہ کر بننے سے مکمل گریز کرنا چاہئے۔ انکی طاقت نوجوان ہیں اور انکا فرض بنتا ہے کہ ان نوجوانوں کی صحیح سمت رہنمائی کریں۔
وزیرستان کے لوگوں کے علاوہ باقی پاکستان کے جتنے لوگ ہیں انکی بھی ایک اجتماعی ذمہ داری ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں اپنے بھائیوں پر طنز کے نشتر چلانے کی بجائے انکی داد رسی کریں اور انکے درد کو محسوس کریں۔ چاہے آپکی نظر میں انکا عمل غلط بھی ہو تب بھی اس وقت انکی غلطی کو نظر انداز کرکے انسے محبت سے پیش آئیں۔ وقت آئیگا جب انکے زخم بھر جائیں گے اگر غلط ہوئے تو اپنی غلطی کا خود انہیں احساس ہوجائے گا اور اگر نہ ہوا تو بھی آپکے پاس مواقع ہوں گے انہیں احساس دلانے کا، لیکن یہ وقت طنز و تشنیع اور پند و نصائح کا ہرگز نہیں۔ یہ وقت محبت اور ہمدردی کا متقاضی ہے۔ ان لوگوں کو دشمنوں کی طرف دھکیلنے کی بجائے اپنے سینے سے لگائیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں