منگل، 13 اگست، 2019

عصائے موسیٰ اور ایمبولینس


عصائے موسیٰ یا موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی ایک تاریخی اور معجزاتی لاٹھی تھی۔ اس لاٹھی کے بارے میں روایات میں جو آیا ہے اسکے مطابق حضرت آدم علیہ السلام جنت سے لائے تھے اور پھر انبیاء کے پاس نسل درنسل چلتی ہوئی شعیب علیہ السلام کو ملی اور ان سے موسیٰ علیہ السلام کو۔ یہ دس ہاتھ لمبی اور ایک طرف سے دوشاخہ تھی۔ اندھیرے میں روشنی نکلتی تھی۔ اسکے دو مشہور معجزے ہیں۔ ایک جب ساحر ان مصر کو انکے مقابلے پر لایا گیا اور انہوں نے بہت سے سانپ بنا لئے تو موسی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ عصاء پھینک دیں۔ لاٹھی اژدھا میں تبدیل ہوئی اور سب سانپوں کو کھا گئی۔ دوسرا مشہور معجزہ یہ ہے کہ جب فرعون موسی علیہ السلام اور انکے اصحاب کا تعاقب کر رہے تھے وہ موسیٌٰ کا لشکر دریائے نیل کے کنارے پہنچا تو موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم کے مطابق لاٹھی پانی پر ماری جس سے ہر قبیلے کیلئے پانی میں راستہ بن گیا اور جب یہ لوگ گزر گئے اور فرعون اور اسکا لشکر دریا کے وسط میں تھا تو پانی چل پڑا اور فرعون لشکر سمیت غرق ہوگیا۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ عصاء اس وقت کہاں ہے؟ اگرچہ طبعی طور پر وہ عصاء موجود نہیں لیکن وہ عصاء اب بھی ہر زندہ انسان کے پاس موجود ہے۔ مگر کیسے؟ 
ایک وڈیو مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کا مجمع احتجاج کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن پھر پیچھے سے ایک ایمبولینس آتی ہے اور مجمع یک دم ایسے پھٹتا ہے جیسے عصائے موسیٰ کے ضرب سے نیل کا پانی۔ سڑک خالی ہوجاتی ہے اور ایمبولینس آسانی سے گزر جاتی ہے۔ یہ عصائے موسیٰ کا کمال تھا اور اس عصاء کا نام احساس ہے۔ جو لوگ اتنی تعداد میں احتجاج کرنے نکلے تھے یقیناً ان کو کوئی تکلیف یا پریشانی تو ہوگی ورنہ نکلنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ لیکن جونہی انہیں ایک گاڑی میں بیمار نظر آیا انہیں اپنی تکلیف چند لمحوں کیلئے بھول گئی اور اس مریض کی تکلیف محسوس کرکے لمحوں میں راستے سے ہٹ گئے۔ 
ایسا ہمارے یہاں بھی ہوتا ہے لیکن میں نے صرف جنازے کو اس طرح راستہ دیتے دیکھا ہے۔ ایمبولینس کو کبھی راستہ دیتے نہیں دیکھا۔ یہ احساس ہمارے اندر مرتا جارہا ہے جسے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یقین کیجئے اس احساس کو زندہ کرنے سے نہ کوئی کرپٹ حکمران ہمیں روک رہا ہے نہ ملک کا کوئی قانون۔ یہ صرف ہمارے اپنے اندر کی بات ہے۔ مان لیتے ہیں کہ ملک میں ہر برائی کی جڑ حکمران ہیں لیکن اس احساس کو مارنے والے ہم خود ہیں۔ 
گزارش اتنی سی ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں اور جس حالت میں بھی ہوں جب ایمبولینس کے سائرن کی آواز سنیں یا اسے دیکھیں فوراً اسکے لئے راستہ چھوڑ دیں۔ 
اللہ ہم سب کو احساس کی دولت عطاء فرمائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...