جواباً عرض ہے
سوشل میڈیا پر نیشنل بینک کے عملے کے ہاتھوں ستائے ہوئے کسی کھاتے دار نے ایک ہوسٹ شئیر کی جسکی تصویر نیچے دی گئی ہے۔ چونکہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ تھا اسلئے سر کوڑ کر بیٹھنا پڑا کہ نیشنل بینک کے تمام ملازمین کو دوسال اخلاقیات کی تربیت دی جائے۔ اب اگلا سوال یہ تھا کہ یہ تربیت کہاں سے دلوائی جائے؟ بہت سی آراء آئیں۔ کسی نے کہا تعلیمی ادارے میں بھیج دیں۔ لیکن جب تعلیمی اداروں کی جانچ ہڑتال کی گئی تو پتا چلا کہ تعلیمی اداروں میں تو اچھے اساتذہ کی تعداد اتنی کم ہے کہ وہ اپنے سکول کے بچوں کیلئے بھی ناکافی ہیں۔ اکثر اساتذہ تو گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں۔ مانیٹرنگ والوں کے ڈر سے جو لوگ سکول آتے بھی ہیں انہیں کچھ آتا جاتا نہیں۔ جو زیادہ پڑھے لکھے ہیں وہ اس دو ٹکے کی نوکری کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں اسلئے وقت گزاری کرتے ہیں اور جلدی نکل جاتے ہیں کیونکہ ٹیوشن پڑھانی ہوتی ہے۔ رہ جاتے ہیں وہ اساتذہ جو پڑھانا جانتے بھی ہیں اور فرض شناس بھی ہیں وہ اپنے ادارے کے طالبعلموں کو پڑھانے میں مصروف ہیں۔ لہذا تعلیمی اداروں میں اخلاقیات نہیں پڑھائی جاسکتی۔
کسی نے مشورہ دیا کہ کچہری بھیج کر وکیلوں سے تربیت دلوائی جائے۔ ان کو تمام قوانین کا بہتر علم ہوتا ہے۔ جب جائزہ لیا گیا تو پتا چلا سو میں سے اسی وکیل تو نقل سے ہاس ہوکر آئے ہیں انکو کسی قانون کا یا اخلاقیات کا کچھ پتا ہی نہیں۔ سارا دن کچہری میں کسی کونے میں چھپے بیٹھے رہتے تاکہ وہ موکل کہیں دیکھ نہ لے جس سے پیسے ایڈوانس لے لئے اور اب آج انکی پیشی ہے۔ مزید موکل پھنسانے کیلئے دو چار منشی البتہ کچہری میں چھوڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ باقی دس فیصد وہ وکیل ہیں جو براہ راست ججوں کیساتھ تعلقات کی بنیاد پر فیصلے اپنے موکلوں کے حق میں کرواتے ہیں۔ اور جو باقی ماندہ دس فیصد اصلی وکیل ہیں انکے پاس دن کو کچہری میں وقت ہوتا نہیں کیونکہ وہ کسی قیمت پر موکل کی پیشی ضائع نہیں ہونے دیتے اور کچہری کے بعد آدھی آدھی رات تک اگلے دن کے کیسوں کی تیاری میں لگے رہتے ہیں۔ انکے پاس اپنے بچوں کیلئے وقت نہیں تو ہمارے سٹاف کو کیسے وقت دیں گے۔ لہذا یہ رائے رد کردی گئی۔
ایک اور رائے دی گئی کہ ڈاکٹروں کے پاس بھیج دیتے ہیں تربیت کی تربیت اور علاج کا علاج۔ لیکن اس پر کسی نے اعتراض کیا کہ ڈاکٹروں کی اکثریت تو خود سرکاری ڈیوٹی کو بیگار سمجھتے ہیں۔ کوشش ہوتی ہے کہ اپنی پرائیویٹ کلینک میں بھاری فیس لیکر مریض دیکھیں۔ ٹیکس ایک روپیہ نہیں دیتے۔ کمیشن لیکر میڈیسن کمپنیوں کی دوائیاں بیچنے اور لیبارٹریوں کے ٹیسٹ کروانے میں لگی ہیں۔کمپنیوں کی اسکیموں میں دوبئی ملیشیاء اور بینکاک کے چکر لگاتے ہیں اور جب ضمیر کے کچوکے برداشت کی حد سے نکل جائیں تو میڈیسن کمپنی کے خرچے ہر عمرہ کرنے چلے جاتے ہیں۔ جو کچھ اچھے اور فرض شناس ڈاکٹر ہیں وہ ہسپتال میں اور پرائیویٹ کلینک میں مریضوں کو پیسے لیکر اتنا وقت دیتے ہیں جتنا انکا حق ہے اور انکے پاس فالتو وقت ہے ہی نہیں اسلئے ڈاکٹروں سے تربیت دلوانا ناممکن ہے۔
پھر کسی نے رائے دی کہ پولیس یا فوج سے تربیت دلوائی جائے۔ لیکن یہ رائے اس بنیاد پر مسترد کردی گئی کہ نیشنل بینک کا سٹاف تو پولیس اور فوج کے کام میں مکمل مہارت رکھتا ہے۔ ایک خطرہ یہ بھی تھا کہ ان دو اداروں نے سٹاف ہر قبضہ کرلینا ہے یہ کہہ کر کہ یہ تو ہمارے بھائی ہیں بینک میں کیا کر رہے ہیں۔
کسی نے مشورہ دیا کہ باقی تمام اداروں کی باتیں بیکار ہیں ایسا کریں کہ انکو پرائیویٹ بینک میں بھیج دیں کیونکہ وہاں کا عملہ بہت خوش اخلاق ہوتا ہے اور فیلڈ بھی ایک ہی ہے تربیت ذرا بہتر ہوجائے گی۔ لیکن چند جہاندیدہ بینکرز نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ جناب وہاں سے تربیت کے بعد تو غریب عوام رُل جائیگی۔ وہاں جو خوش اخلاقی نظر آتی ہے وہ انسان دوستی کی بنیاد ہر نہیں پیسے کی مقدار سے مشروط ہے۔ اگر آپکے پاس پیسہ ہے تو پرائیویٹ بینکس والے صبح شام آپکے گھر کے چکر لگائیں گے کہ کسی طرح آپ انکے پاس اکاونٹ کھول لیں۔ جبکہ چھوٹے موٹے تنخواہ دار اور پینشنر کو دیکھتے ہی بدک جاتے ہیں۔ انہیں کاغذ پر نیشنل بینک کے راستے کا نقشہ بناکر دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سرکاری کام صرف نیشنل بینک میں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بحث کرے تو کہہ دیتے ہیں کہ نیشنل بینک اسی مقصد کیلئے تو کھولا گیا ہے انکا اور کام ہی کوئی نہیں اور یہاں تنخواہ اور پینشن دس تاریخ سے پہلے تو ملتی ہی نہیں۔ یہ سن کر غریب آدمی نیشنل بینک کی طرف بھاگتا ہے۔
اسی طرح ایک ایک ادارے کو لیکر تفصیلی گفتگو ہوئی لیکن ہر ادارہ مسترد کیا گیا۔
تو جناب بری خبر یہ ہے کہ آپ کا واسطہ اسی بد اخلاق عملے سے ہی پڑے گا۔ البتہ ایک اچھی خبر بھی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ نیشنل بینک میں احتساب کا مکمل نظام موجود ہے اور یہ نظام فعال بھی ہے۔ اگر آپکو کسی بھی برانچ کے کسی بھی افسر سے بد دیانتی، بد اخلاقی یا کسی اور طرح کی شکایت ہے تو سب سے پہلے برانچ میں موجود منیجر کے پاس جائیں اور انکی زبانی شکایت کریں۔ اگر عملے کا رویہ درست ہوجائے تو بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اگر آپکو فرق محسوس نہیں ہوتا تو جاکر منیجر کے پاس بیٹھ جائیں اور ان سے کہیں کہ آپکو کمپلینٹ فارم دے۔ اس ہر مکمل پتا درج ہے آپ نے صرف اپنا مسئلہ اور اپنے ساتھ آنے والا واقعہ بیان کرنا ہے اور پنا نام پتہ موبائل نمبر اور شناختی کارڈ کی فوٹوسٹیٹ لگاکر لکھے ہوئے پتے ہر ارسال کردینا ہے۔ پھر آپ آرام سے گھر بیٹھیں اور انتظار کریں۔ ہفتے دس دن میں وہ بندہ جسکی آپ نے شکایت کی ہوگی آپکے دروازے پر معافی مانگنے آئے گا۔ اگر کمپلینٹ کا فارم نہیں ملتا تو سادہ کاغذ پر کمپلینٹ لکھیں اور “کمپلینٹ مینجمنٹ سیل نیشنل بینک آف پاکستان ہیڈ آفس کراچی” کو روانہ کردیں۔ اگر آپ لکھ نہیں سکتے تو جسکی شکایت کرنی ہے اسکا نام معلوم کریں اور کال سینٹر 021111627627 یا 080011627 پر کال کریں اور اپنی کمپلینٹ سنادیں۔ اسکا بھی وہی نتیجہ ہوگا۔
اچھے اور برے ہر جگہ ہوتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور ہاں اپنے روئے ہر بھی ضرور غور کرلیں ایک دفعہ۔ عموماً جب بینک میں کوئی آتا ہے تو اسے لائن میں کھڑا ہونا اپنی توہین لگتی ہے۔ لائن میں کھڑا ہونا سیکھیں۔ جو لوگ آپ سے پہلے آئے ہیں پہلے انکا کام کرنے دیں اور اپنی باری کا انتظار کریں۔ کوشش کریں کہ جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں۔ اے ٹی ایم کارڈ استعمال کریں اور نیشنل بینک کا این بی پی ڈیجیٹل ایپ کے نام سے ایلیکیشن دستیاب ہے اسکا استعمال کریں۔ یکم کے دنوں میں جب بیس لوگ آپکے پیچھے کھڑے ہوں آپ پہلے بیلنس کا نہ پوچھیں بلکہ ٹیکنالوجی استعمال کرکے بیلنس معلوم کریں۔ چلیں بیلنس معلوم کرلیا اور افسر نے بتا دیا کہ بائیس ہزار ہیں پھر پندرہ ہزار کا چیک کیش کروانے کے بعد دوبارہ نہ پوچھیں کہ کتنے پیسے رہ گئے؟ چلیں یہ بھی پوچھ لیا اور اس نے ناراضگی سے بتا بھی دیا تو اگلا سوال یہ نہ پوچھیں کہ تنخواہ کتنی آئی تھی؟ ایس ایم ایس الرٹ لگوائیں جب تنخواہ آئے گی آپکو پتا چل جایا کرے گا کہ کتنی آئی ہے۔ لیکن چلیں یہ بھی پوچھ لیا اور اس نے کسی نہ کسی طرح بتا دیا تو پھر اگلا سوال یہ تو نہ کریں کہ پچھلے مہینے کتنی آئی تھی؟ اور اگر اس سوال پر سامنے بیٹھا بندہ بھڑک گیا تو آپ بھی آگے سے نہ بھڑکیں۔ جو افسر بیٹھا ہے اسے یہ سب بتانے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسے آپکے پیچھے لائن میں کھڑے بہت سے لوگ نظر آرہے ہیں جنکا کام اسی نے کرنا ہے اور رات دس یا گیارہ بجے فارغ ہونا ہے۔
بات ذرا لمبی ہوگئی لیکن یقین کیجئے کہ اگر میں بینک میں آنے والے کسٹمر ز کے لطیفے سنانا شروع کردوں تو پوری کتاب بن جائیگی۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ برے لوگ بھی نیشنل بینک میں موجود ہیں جس پر ہم شرمندہ ہیں اور فخر نہیں کرتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نیشنل بینک کے حصے میں ملک کا سب سے کم پیسے والا، سب سے کم تعلیم یافتہ اورگراس ملک کا ٹھکرایا ہوا طبقہ ہی آتا ہے جنہیں کوئی دوسرا سہارا دینے کیلئے تیار نہیں۔ اور بطور نیشنل بینکر میں اس بات فخر محسوس کرتا ہوں کہ ہم اس طبقے کی خدمت کر رہے ہیں جسے کوئی اور قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اگر میرے الفاظ سے کسی کو تکلیف ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔ میرا مقصد تکلیف دینا نہیں بلکہ آگاہی دینا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں