منگل، 13 اگست، 2019

پشتون کے دشمن کون؟

پشتون کے دشمن کون؟ 
موجودہ حالات و واقعات کے تناظر میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا بہت اہم ہے کہ پشتون کا سب سے بڑا دشمن کون ہے؟ اگر کسی جذباتی پشتون سے یہ سوال پوچھیں تو شاید فوراً دو چار جواب مل جائیں مثلاً پہلا جواب ملے گا پنجابی۔ یہ جواب وہ لوگ دیں گے جو ستر سال سے پشتون نیشنلسٹ سیاستدانوں کی باتیں سنتے آرہے ہیں۔ دوسرا جواب شاید یہ ملے کہ نہیں طالبان جنہوں نے آدھے پشتون نوجوانوں کو مجاہدین قرار دیا اور جو باقی بچے انکو مرتد اور لادین قرار دے کر بے دریغ قتل کیا۔ کونسا ایسا قبرستان ہے جس میں کوئی شہید دفن نہیں ہے؟ تیسرا جواب ملے گا پاک فوج۔ یہ جواب وہ لوگ دیں گے جو ماضئِ قریب کے واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا کو ہی اپنی مستند معلومات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ 
میں ان تینوں سے متفق نہیں ہوں۔ اگر پنجاب پشتونوں کا دشمن ہوتا اور آپکے پشتون نیشنلسٹ سیاستدان واقعی انکو دشمن سمجھتے تو ہر اہم موقعے پر اپنا وزن پنجاب کی سیاسی جماعتوں کے پلڑے میں نہ ڈالتے۔ اگر طالبان یا مذہبی لوگوں کو آپ دشمن قرار دے رہے ہیں تو ذرا ان کے کمانڈروں اور دائیں بائیں موجود لوگوں پر نظر دوڑائیں وہ خود سب پشتون ہی ہیں آپکے میرے بھائی وہ کیسے آپ کے دشمن ہوسکتے ہیں۔ اب رہ جاتی ہے پاک فوج۔ اگر پاک فوج پشتونوں کی دشمن ہے اور اس کی بنیاد قبائلی علاقوں میں ملٹری آپریشن ہے تو عرض کرتا چلوں کہ سوات میں ملا فضل اللہ سے شروع ہونے والی کہانی میں ملا فضل اللہ سے لیکر عوامی نیشنل پارٹی تک سب پشتون ہی تھے۔ سوات کے چوراہوں میں لٹکنے والی لاشیں بھی پشتونوں کی تھیں انہیں لٹکانے والے بھی پشتون تھے اور لٹکانے والوں کے خلاف ملٹری آپریشن کا مطالبہ کرنے والے بھی پشتون تھے۔ 
مجھ سے پوچھیں تو پشتون کا سب سے بڑا دشمن پشتون خود ہی ہے۔ اور یہ بات جتنی تلخ ہے اتنی ہی سچی ہے۔ 
آئیں زیادہ نہیں ذرا چالیس سالہ تاریخ پر نظر دوڑ اتے ہیں۔ سوشلسٹ روس افغانستان کی حکومت کی دعوت پر افغانستان میں آجاتا ہے۔ کیپیٹلسٹ امریکہ کو یہ ناگوار گزرتا ہے۔ پشتون کو بہادری کی سرٹیفیکیٹ دیکر افغانستان میں چھوڑ دیا جاتا ہے اور پندرہ سال تک لڑایا جاتا ہے۔ روس ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر جاتا ہے۔ امریکہ کا کوئی مفاد نہیں رہتا سو وہ بھی چلا جاتا ہے۔ پیچھے پشتون رہ جاتا ہے۔ لیکن چونکہ وہ بہادر ہے اسلئے وہ ایسے تو بیٹھنے سے رہا۔ افغانستان میں طالبان اٹھتے ہیں اور ایک اور جہاد شروع ہوجاتا ہے۔ اب پڑوس میں جہاد ہو اور بہادر آرام سے بیٹھا رہے یہ کیسے ممکن ہے؟ تو صاحب بہادر ایک بار پھر کمر کس لیتا ہے اور مارا ماری شروع کردیتا ہے۔ کچھ لوگ تاریخ سے سبق سیکھ چکے ہوتے ہیں وہ بہادری چھوڑ کر ایک طرف ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ انہیں مرتد اور کفر کے اتحادی قرار دیکر انکا صفایا شروع کردیا جاتا ہے۔ اسکے بعد یہ مذہبی انتہا پسندی ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔ اسکا صفایا ضروری ہوجاتا ہے اور یہی جدت پسند پشتون چلانا شروع کردیتے ہیں کہ ہمیں مارا جا رہا ہے۔ پاک فوج آتی ہے اور آپریشن شروع کردیتی ہے۔ اس میں اچھے برے سب مارے بھی جاتے ہیں اور متاثر بھی ہوتے ہیں۔ شاید ہی کوئی گھر ہو جس میں کوئی شہید نہ ہو۔ جتنے طالبان کے ہاتھوں ہوئے اتنے ہی اپنی فوج کے ہاتھوں بھی شہید ہوئے۔ لیکن یہ سب کچھ برداشت کرکے جب امید ہوچلی تھی کہ اب شاید حالات کچھ بہتری کی طرف جائیں تو اچانک کچھ لوگ نقیب اللہ محسود شہید کے واقعے سے لوگوں میں مقبولیت حاصل کرکے پشتون تحفظ موومنٹ بنا لیتے ہیں اور فوج کو للکارنا شروع کردیتے ہیں۔ انکا بیانیہ عوام میں مقبول ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اور پھر تحفظ کے نام پر ایک بار پھر بچے کھچے نوجوانوں کو اپنی فوج کی گولیوں کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے۔ 
سوشلسٹ روس کے خلاف کیپیٹلسٹ امریکہ کی جنگ کا ایندھن پشتون بنا۔ 
پھر مذہب کے نام پر کیپیٹلسٹ کے خلاف اسلامی جنگ کا ایندھن پشتون بنا۔ 
پھر انہی مذہبی لوگوں کی گولی کا نشانہ بھی کافر، زندیق، مرتد اور جاسوس کہلا کر پشتون بنا۔ 
اور اب پھر سوشلسٹ نظریات رکھنے والے پی ٹی ایم کے ہاتھوں کا کھلونا بھی پشتون بن رہا ہے۔ ان چالیس سالوں میں نقصان کس کا ہوا؟ پشتون کا۔ کس کے ہاتھوں؟ پشتون کے ہاتھوں۔ تو پھر دشمن کون ہوا؟ 
پشتون کا جو تحفظ چاہتا ہے وہ اگلے تیس سال تک پشتون کے ہاتھ سے بندوق چھین لے۔ اسے ہر کسی کے نعروں اور بہادری کی سرٹیفیکیٹس سے دور رکھے۔ ان کیلئے معیاری تعلیم مانگے سکول کالج یونیورسٹیاں مانگے۔ ہسپتال مانگے۔ تیس سال انکو کوئی بہادری کا کارنامہ انجام دینے سے باز رکھے۔ ایک نسل کو تعلیم دیکر دیکھے تو پشتون خود بخود محفوظ ہوجائے گا۔ 
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ نعرہ مقبول نہیں۔ ایک جنگجونسل کو ہر حال میں جنگ چاہئے۔ وہ صرف طبل جنگ پر ہی لبیک کہیں گے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی ایم والے بھی طبل جنگ بجا کر ہی انکا لہو گرما رہے ہیں۔ خدارا بس کردو۔ اپنی جھوٹی انا کی تسکین اور ذرا سی شہرت کیلئے ماوں کے گود نہ اجاڑو، بچوں کے سر سے باپ کا سایہ مت چھینو، سہاگنوں کو بیوہ نہ کرو، بہنوں کو بھائیوں کے لاشو پر نہ رلاؤ۔ اور پشتون نوجوانوں سے گزارش ہے کہ اگر اپنے دشمن پہچاننا چاہتے ہو تو ایک بات یاد رکھو جو بھی تمہیں لڑنے اور مرنے مارنے پر اکسائے وہی تمہارا دشمن ہے۔ جب تک بہادر بنتے رہوگے مرتے رہوگے اور دوسروں کی لگائی ہوئی آگ کا ایندھن بنتے رہوگے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...