آئی ایم ایف کیا ہے اور کیا کرتا ہے؟
آئی ایم ایف یعنی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ جسے اردو میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ہے۔ جس طرح اقوام متحدہ کے ہر ادارے کا اپنا ایک مخصوص کام ہوتا ہے جیسے کوئی بچوں کی بہبود کو دیکھتا ہے تو کوئی عالمی غذائی ضروریات کو تو کوئی مہاجرین کو بالکل اسی طرح آئی ایم ایف بھی ایک مخصوص شعبے کو دیکھتا ہے اور وہ ہے ملکوں کی معیشت۔
اس کا ہیڈ کوارٹر واشنگٹن میں ہے اور اسکی بنیاد ۱۹۴۴ میں رکھی گئی اور یہ ۱۹۴۵ میں باقاعدہ وجود میں آیا اور باقاعدہ کام شروع کیا۔ ابتدائی طور پر اسکے ارکان کی تعداد انتیس تھی جبکہ اس وقت ممبرز کی تعداد ۱۸۹ ہے۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کے بارے میں عمومی تصور یہ پایا جاتا ہے کہ یہ کوئی بہت ہی ظالم قسم کا ادارہ ہے جو ملکوں کو قرض دیکر اپنے پنجے میں جکڑ لیتا ہے اور پھر ان سے اپنی مرضی کے کام کرواتا ہے۔ ایسا بالکل نہیں۔ ہاں اس حد تک بات ضرور درست ہے کہ آئی ایم ایف قرضوں کیساتھ شرائط لگاتا جن پر آگے جاکر بات ہوگی، لیکن حکمرانوں سے کرپشن کروانا، ملک کا پیسہ چوری کرکے بیرون ملک جائیدادیں خریدنا، سیاسی مخالفوں کو قتل کروانا اور کردار کشی کروانا، جھوٹ دھوکہ فریب ملاوٹ غذائی اجناس کی مصنوعی قلت اور ماہ رمضان میں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آجانا، ان سب کیساتھ آئی ایم ایف کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔
بین الاقوامی تجارت میں ہوتا یہ ہے کہ ہر ملک اپنی کچھ چیزیں دوسرے ممالک کر بیچتا ہے اور اسی طرح جو زر مبادلہ کماتا ہے اس سے چیزیں خریدتا ہے۔ اگر ملک زیادہ چیزیں بیچتا ہے اور کم خریدتا ہے تو اسے ٹریڈ سرپلس یا تجارتی اضافہ یا کمائی کہا جاتا ہے یعنی اس ملک کیلئے مثبت علامت ہے۔ اسی طرح اگر ملک زیادہ چیزیں خریدتا ہے اور کم بیچتا ہے تو اسے ٹریڈ ڈیفیسٹ یا تجارتی خسارہ کہا جاتا ہے۔ یاد رکھئے کہ پاکستان کو ہمیشہ تجارتی خسارے کا سامنا رہا ہے۔ مسلسل تجارتی خسارے کا مطلب ہے کہ ملک پر ایک وقت ایسا آجائیگا کہ اس کے پاس بیرونی دنیا سے کچھ خریدنے کیلئے زر مبادلہ نہیں ہوگا۔ ایسی صورتحال سے بچنے کیلئے اقوام متحدہ کا یہ ادارہ بنایا گیا ہے کہ جب ممالک کے پاس کوئی اور چارہ نہ رہے تو پھر وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لیکر وقتی طور پر اپنا کام چلا لیتے ہیں۔
اب یہاں دو اہم سوال پیدا ہوتے ہیں جو اکثر لوگ گفتگو کے دوران پوچھتے ہیں اور پھر جواب نہ پاکر ایسے سر ہلاتے ہیں جیسے آئی ایم ایف کو رنگے ہاتھوں پکڑلیا ہو۔
۱- آئی ایم ایف کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
۲- دنیا کے دوسرے ممالک کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ غریب ملکوں کی مدد کریں بالخصوص یہودی اور عیسائی مسلمانوں کی مدد کیوں کرتے ہیں؟
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ آئی ایم ایف میں رکن ممالک اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں جسے کوٹا کہا جاتا ہے اور یہ حصہ بقدر جثہ ہوتا ہے یعنی جتنی بڑی معیشت اتنا بڑا حصہ۔ تاہم اگر ضرورت پڑے تو آئی ایم ایف کوٹا کے علاوہ رکن ممالک یا دیگر اداروں سے قرض بھی لے سکتا ہے۔
دوسرے اہم سوال کا جواب یہ ہے کہ آپ کا شک اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ دنیا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ مریں یا جئیں۔ وہ صرف اسلئے مدد کر رہے ہیں تاکہ آپ انکی موت کا سبب نہ بنیں۔ اسکی مثال ایسی ہے جیسے آپ کے گھر میں آگ لگی ہو اور دو گھر دور آپ کا ایک ایسا پڑوسی جسکے ساتھ آپکی دشمنی ہے آگ بجھانے آجائے تاکہ یہ آگ اسکے گھر تک نہ پہنچے۔ دنیا کی معیشت زنجیر کی طرح ہے جس میں ہر ملک کی معیشت ایک کڑی ہے۔ ایک کڑی ٹوٹنے کا مطلب ہوتا ہے زنجیر کا ٹوٹنا۔ ایک ملک کی معیشت کی ناکامی کیسے عالمی معیشت کیلئے خطرہ ہوسکتی ہے یہ ایک انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے لیکن یہاں اسکو سادہ طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب ایک ملک دیوالیہ ہوجاتا ہے تو وہ نہ تو دوسرے ممالک کو قرضوں کی ادائیگی کرسکتا ہے نہ مزید کچھ خرید سکتا ہے۔ جب قرضے ادا نہیں کرے گا تو جن کا قرضہ واپس کرنا تھا ایک تو وہ سارے ممالک براہ راست متاثر ہوں گے۔ جن ممالک سے خریداری کرنی تھی ان سے خریداری رک جائیگی اور یوں انکی معیشت کو بھی دھچکا لگے گا۔ یوں ایک ملک کے دیوالیہ پن سے براہ راست دس پندرہ ممالک متاثر ہوں گے۔ لیکن بات یہاں رکے گی نہیں۔ وہ جو دس پندرہ ممالک متاثر ہوں گے ان میں سے ہر ملک کم و بیش اتنے مزید ممالک کی معیشت کو متاثر کریں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور پوری دنیا کو معاشی تباہی کے دہانے پر لے آئے گا۔ ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ چھوٹی معیشتیں تو چلو مجبور ہیں ڈر کے مارے مدد کرتی ہیں یہ بڑے بڑے ممالک کیوں مدد کرتے ہیں انکی تو معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ اسکا جواب یہ ہے کہ ان بڑی معیشتوں کے خریدار اور گاہک یہی چھوٹی معیشتیں ہیں کسی کو اسلحہ بیچتے ہیں تو کسی کو غذا۔ اگر گاہک خریداری نہ کرسکیں گے تو بڑی معیشتیں بھی براہ راست متاثر ہونگیں۔
چلیں یہاں تک تو بات کلئر ہوگئی کہ ٹھیک ہے یہ ہمارے جانی دشمن کافر (بقول ایک مولوی صاحب کے) اپنی جان بچانے کیلئے مدد کر رہے ہیں ہماری کوئی فکر نہیں۔ لیکن یہاں ایک سوال اور لوگ کرتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف ہمارے ملک پر قبضہ نہیں کرنا چاہتا تو پھر قرضے کیساتھ اتنی شرائط کیوں عائد کردیتا ہے؟ دیتا تو قرضہ ہی ہے کوئی خیرات تو نہیں اور قرضہ ہم نے واپس بھی کرنا ہوتا ہے۔
اسکی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ آپ کا ایک دوست آپکے پاس آتا ہے کہ جی بچہ بیمار ہے اسکے علاج کیلئےادھار پیسے چاہئیں۔ آپ پیسے دے دیتے ہیں۔ کچھ دیر بعد آپ جارہے کہ راستے میں دیکھتے ہیں آپکا وہی دوست ناچنے والوں پہ انہی نوٹوں کی ویلیں کر رہا ہے اور پیسے پھینک رہا۔ اب آپ جب اسے منع کرتے ہیں تو جواب میں وہ کہتا ہے کہ میاں ادھار دیا تھا خیرات نہیں اسلئے چپ کرکے اپنا راستہ ناپو۔ آپ کو کیسا لگے گا اور آئندہ کیا کریں گے؟ یا تو قرض دیں گے نہیں یا اگر مجبوراً دیں گے تو اس قرض کیساتھ شرائط لگائیں گے تاکہ قرض کی رقم ضائع نہ ہو اور مقروض اس قابل ہو کہ وقت آنے پر قرض واپس کرسکے۔بالکل یہی کچھ آئی ایم ایف کرتا ہے مقروض ممالک کیساتھ۔ چونکہ ہمارے سیاستدان ان قرضوں کو مطلوبہ مقاصد کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں اسلئے آئی ایم ایف شرائط لگا دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کس قسم کی شرائط لگاتا ہے اور انکا مقصد کیا ہوتا ہے آئیے ذرا انکا جائزہ لیتے ہیں۔
۱- کوئی اثاثہ گروی رکھنا۔
سوائے چند قرضوں کے جو بہت غریب ممالک کو آسان شرائط پر دئیے جاتے ہیں تقریباً ہر قرضے کے بدلے آئی ایم ایف کوئی نہ کوئی اثاثہ گروی رکھتا ہے۔ اس وقت ہمارے موٹر ویز ، جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ کراچی، پاکستان ٹیلی وژن کے اثاثے، ریڈیو پاکستان کے اثاثے اور کئی دیگر اثاثے آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا آئی ایم ایف کو کیا فائدہ ہے؟ اگر خدا نخواستہ پاکستان وقت پر قرض واپس نہیں کرتا تو یہ اثاثے آئی ایم ایف کی تحویل میں چلے جائیں گے اور پھر پاکستان انکی کسی غیر ملکی چیز کی طرح فیس دے کر استعمال کرسکے گا۔ یہ تمام اثاثے پچھلی حکومتیں گروی رکھ چکی ہیں اور جو قسطیں ابھی واجب الادا تھیں وہ ادا نہ کرنے کی صورت میں ان میں سے کئی اثاثے آئی ایم ایف کے قبضے میں چلے جاتے اور اسی صورتحال سے بچنے کیلئے حکومت کو سخت شرائط پر قرض ادا کرنے کیلئے مزید قرض لینا پڑا۔
۲- اخراجات میں کمی۔
آئی ایم ایف کی دوسری شرط اخراجات میں کمی کی ہوتی ہے۔ ہمارے اخراجات سے انہیں کیا تکلیف ہے بھلا؟ وہ کونسا ہمارے مامے چاچے ہیں؟ درحقیقت انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم عیاشی میں اتنے پیسے نہ اڑا دیں کہ جب قرض واپس کرنے کا ٹائم آئے تو ہمارے پاس کچھ نہ ہو۔
۳- ملکی کرنسی کی قدر میں کمی
ملکی کرنسی کی قدر میں کمی اسلئے کروائی جاتی ہے تاکہ کرنسی کی قیمت زیادہ رکھنے کیلئے قیمتی زر مبادلہ استعمال نہ کیا جائے۔ اسکے بارے میں پچھلے مضمون میں تفصیل سے بات ہوچکی ہے کہ کرنسی کی قیمت کیسے کنٹرول کی جاتی ہے۔ عموماً سیاستدان حکومت کے اختتام سے کچھ عرصہ پہلے قومی خزانے سے بے پناہ پیسہ لٹا کر معیشت کو ایک مصنوعی رنگ روپ دے دیتے ہیں ڈالر کم کردیا جاتا ہے تیل گیس اور غذائی اجناس پر ٹیکس کم کرکے یا سبسڈی دیکر سب اچھا دکھایا جاتا ہے اور پھر الیکشن مہم میں کہا جاتا ہے کہ دیکھو معیشت اٹھ رہی ہے بس ہمیں پالیسی کے تسلسل کیلئے ایک بار پھر حکومت چاہئے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ملک تباہ ہوجائیگا۔ پھر جب نئی حکومت آتی ہے اور وہ ان چیزوں کو روکتی ہے تو پچھلی حکومت کے ارکان بھی یہی کہتے ہیں کہ دیکھو معیشت کا بیڑہ غرق کردیا۔ حالانکہ یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت انہی کا کیا دھرا ہوتا ہے۔
۴- تجارتی آزادی
آئی ایم ایف تجاری آزادی کی شرط لگاتا ہے۔ یہ ان خفیہ ہتھیاروں میں سے ایک ہے جن سے دنیا کی کئی معیشتیں تباہ کردی گئی ہیں اور ان پر باقاعدہ طور پر قبضہ جمایا گیا ہے۔ دراصل غریب ممالک، امیر ممالک کیلئے اچھی منڈیاں ہیں جہاں انکا مال بکتا ہے۔ اگر غریب ممالک آزادانہ تجارت کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کریں گے اور دوسرے ممالک کو اپنی منڈی تک رسائی نہیں دیں گے تو اس سے انکی معیشت متاثر ہوگی۔ لیکن یہ اسکی منفی سائیڈ ہے۔ مثبت سائیڈ یہ ہے کہ آپ کو بھی دوسرے ممالک کی منڈیوں تک رسائی ملتی ہے اور آپ بھی اپنی چیزیں دوسروں کو بیچ سکتے ہیں اور اپنی زر مبادلہ کی پوزیشن بہتر کرسکتے ہیں۔
۵- بجٹ کو متوازن کرنا۔
آئی ایم ایف کی ایک شرط متوازن بجٹ بھی ہے۔ ملک کا بجٹ حقیقت پسندانہ ہو اور اپنے اہداف پورے کرے۔ بجٹ میں خسارہ بالکل نہ ہو یا کم دے کم ہو۔ لیکن بجٹ ہوتا کیا ہے؟ بجٹ سادہ ترین الفاظ میں ملک کی پورے سال کی آمدن اور اخراجات کا گوشوارہ ہوتا ہے۔ کل کتنے پیسے حکومت اکٹھا کرے گی ٹیکسوں سے اور کہاں کہاں خرچ کرے گی۔ جب ٹیکس اکٹھا نہیں کیا جاتا اور خرچہ کردیا جاتا ہے تو اس فرق کو بجٹ خسارہ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کا بجٹ پچھلے پچاس سال سے خسارے میں ہی چل رہا ہے۔ مطلب یہ کہ آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنا کیلئے اندرون ملک قرضے لئے جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے مجموعی اندرونی قرضے ۱۷۰ کھرب روپے واجب الادا ہیں۔
۶- سبسڈی کا خاتمہ
آئی ایم ایف کی ایک شرط سبسڈی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ سبسڈی کیا ہے؟ اگر آٹا مارکیٹ میں پچاس روپے کلو ہے اور حکومت دس روپے فی کلو سرکاری خزانے سے ادا کرکے آٹا عوام کو چالیس روپے کا پہنچائے تو یہ دس روپے فی کلو سبسڈی ہے۔ آئی ایم ایف کیوں اسکے خلاف ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ اس سے حکومتی اخراجات بڑھ جائیں گے جس سے بجٹ خسارے کا سامنا ہوگا اور مقروض ملک قرضہ وقت پر ادا نہیں کرسکے گا۔ آئی ایم ایف کی یہی شرط ہے جسکی بنیاد پر حزب اختلاف کے سیاستدان کہتے ہیں کہ عوام پر مہنگائی کا بم گرایا گیا ہے۔ یہ بم ہر حکومت گراتی ہے۔ اور جو بھی حکومت میں نہیں رہتا یہی دعوٰی کرتا ہے کہ ان کا بم بہت چھوٹا تھا یہ تو ایٹم بم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بم ساری حکومتیں گراتی رہتی ہیں۔
اس ساری گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئی ایم ایف کوئی دشمن ادارہ نہیں بلکہ ملکوں کی مدد کرنے والا ادارہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسکی پالیسیوں کا جھکاؤ ڈونر ممالک (جو آئی ایم ایف کو پیسے دیتے ہیں) کے مفادات کی طرف زیادہ ہوگا لیکن اصل مجرم آئی ایم ایف ہر گز نہیں۔ یاد رکھیے کہ آئی ایم سیف کبھی ہمارے پاس نہیں آیا اور ہماری سر پر بندوق رکھ کر نہیںُ کہا کہ مجھ سے قرضہ لو۔ قرضہ ہم نے خود لیا ہے اور پھر اس سے وقتی طور پر ضروریات پوری کرکے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے کچھ کرنے کی بجائے وہ پیسے ہمارے حکمرانوں نے اپنی انفرادی اور اجتماعی عیاشیوں میں اڑا دئیے اور پھر جاکر آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
عوام کے ذہنوں میں ایک سوال ضرور آتا ہے کہ اتنے قرضے لینے کے باوجود بھی ملک کی حالت خراب دے خراب تر ہوئی تو یہ قرضے کی رقم گئی کہاں؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے اپنے ملک میں چلنے والے ان کاروباروں کا تجزیہ کریں جو پچھلے کئی عشروں میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اور پھر انکے مالکان ڈھونڈیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ مالک یا تو بالواسطہ یا بلاواسطہ ملک کے حکمران یا انکے حواری ہیں۔ اب اسکی کیا وجہ ہے کہ ذاتی کاروبار ترقی کر رہے ہیں اور سرکاری کاروبار خسارے میں ہیں؟ خسارے کی رقم کہاں جارہی ہے آپ سمجھ چکے ہوں گے۔
بہت سی برائیوں میں آئی ایم ایف کا ہاتھ ہوسکتا ہے لیکن یقین کیجئے لیموں کی قیمت بڑھانے میں آئی ایم ایف کا کوئی کردار نہیں۔ ہم سب چور ہیں اور موقعے کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ کب اپنے لوگوں کی جیبیں کاٹیں۔ کسان آج بھی لیموں پچاس روپے کلو کے حساب سے منڈی میں بیچتا ہے۔ جب آپ چارسو روپے کلو خریدتے ہیں تو ساڑھے تین سو کہاں جاتے ہیں؟ حق حلال کمانے والے حاجی، نمازی اور متقی نظر آنے والے کاروباری کی جیب میں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں