گالم گلوچ (بالخصوص نوجوانوں کیلئے)
ایک زمانہ ہوتا تھا جب ذرائع ابلاغ جیسے اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی وژن آپ تک معلومات پہنچاتے رہتے تھے لوگوں کی ذہن سازی کرتے رہتے تھے لیکن لوگوں کے پاس جواب دینے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ خط لکھ لیا کرتے تھے۔ خط اگر موافق ہوتا تو اخبار رسالہ یا ریڈیو شائع/نشر کردیتا اور اگر مخالفت میں ہوتا تو ردی میں پھینک دیا جاتا تھا۔ پھر ماضی قریب میں سماجی رابطے بڑھ گئے۔ سوشل میڈیا میں انقلاب آیا۔ ہر شخص کے ہاتھ میں کمپیوٹر اور موبائل فون آگیا اور ہر شخص ہر کہی ہوئی بات اور ہر معاملے میں اپنی رائے دینے کے قابل ہوا۔ یہ ایک طرح سے انسان کی ترقی تھی لیکن دوسری طرف اس نے ہماری چند اخلاقی قدروں کو بھی بری طرح سے روند ڈالا۔ اس سے پہلے ایسے مکالمے آمنے سامنے ہوتے تھے اسلئے لوگ مخاطب کی عمر، علمیت اور سماجی مقام کا لحاظ کرتے ہوئے بات کرتے۔ لیکن اب دنیا میں کہیں بھی بیٹھے کسی شخص کو ایک محفوظ فاصلے اور محفوظ مقام سے آپ مخاطب کرسکتے ہیں۔ آپ اس یقین کیساتھ کہ مخاطب آپکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، کسی کو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک عام شہری سے لیکر وقت کے حکمرانوں تک کے بارے میں آپ کھل کر رائے دے سکتے ہیں۔ آزادی ایک نعمت ہے۔ لیکن اس نعمت کیساتھ ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔
مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو کچھ یوں ہے کہ جب پاکستان آزاد ہوا تو ایک نوجوان بیچ چوراہے زور زور سے اپنے بازو ہلاتا ہوا چل رہا تھا کہ اسکا ہاتھ ایک پاس سے گزرتے ہوئے شخص کی ناک پر جا لگا۔ مضروب شخص نے روک کر پوچھا کہ آپ نے اپنا ہاتھ میری ناک پر کیوں مارا؟ جواب میں نوجوان بے پروائی سے بولا کہ جناب میں آزاد میں آزاد ملک کا آزاد شہری ہوں۔ میں اپنے ملک میں جیسے مرضی چلوں کسی کو کیا؟ مضروب شخص بولا “بر خوردار اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ آزاد ہیں۔ لیکن آپ کی آزادی کی حد وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے”۔
کچھ یہی صورتحال سوشل میڈیا کی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ آپ سوشل میڈیا پر کسی کو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس آزادی کے بھی کچھ حدود و وقیود ہیں۔
سوشل میڈیا پر کثیر تعداد آپ کو ایسے نوجوانوں کی نظر آئے گی جو ذرا سی سیاسی یا مذہبی اختلاف کی صورت میں گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس گالم گلوچ کا معاشرے کو کوئی فائدہ ہے؟ کیا کسی کو گالی دیکر آپ اپنا نقطہ نظر منوا سکتے ہیں؟ کیا گالی سننے کے بعد وہ آپ سے متفق ہوجائے گا؟ کیا اس شخص کی رائے میں آپ اور آپ کے نقطہ نظر کے بارے میں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی؟ ان سب باتوں کا ایک ہی جواب ہے “نہیں”۔ جب جواب نہیں ہے تو پھر گالی دینے کا فائدہ؟ یاد رکھیں کہ اختلاف قطعاً کوئی بری یا غلط چیز نہیں۔ اگر آپ سے اختلاف رکھنے والا کوئی دلیل د رہا ہے تو اسکی دلیل کو پرکھیں۔ اگر آپ کو دلیل صحیح لگتی ہے تو مان لیں اس میں کوئی برائی نہیں۔ اگر دلیل ناقص ہے تو اس پر تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے جرح کریں۔ اگر وہ مان جائے تو ٹھیک نہ مانے تو خاموش ہوجائیں اور اسے وقت دیں سوچنے اور سمجھنے کا۔
اب آتے ہیں دوسری طرف۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو گالی دینے میں پہل تو نہیں کرتے لیکن جب کوئی گالی دیتا ہے تو جواباً وہ بھی اپنی گالیوں کی کتاب کھول کر جواب میں گالیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی آپ کو گالی دیتا ہے تو اسکا مقصد کیا ہوتا ہے؟ وہ آپ کو تکلیف پہنچانا چاہتا ہے۔ اور جب آپ تکلیف کا اظہار کرتے ہیں تو اس میں اسکی تسکین ہے۔ یعنی وہ چاہتا ہے کہ آپ ردعمل کے طور پر اسے گالی دیں تاکہ وہ مزید گالیاں دے سکے۔ یعنی وہ اپنے اشاروں پر آپ کو چلانا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں آپ تھوڑی دیر رک کر خود سے سوال پوچھیں کی کیا آپ اپنے طریقے سے اور اپنے انداز میں بات کرنا چاہتے ہیں یا جیسا گالی دینے والا چاہتا ہے ویسا ردعمل ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ میں ذاتی طور ان تمام تجربات سے گزرا ہوں۔ فیس بک سے بہت پہلے جب ایم ایس این اور یا ہو چیٹ روم ہوا کرتے تھے۔ تب سیاسی اختلافات نہیں ہوتے تھے لیکن مذہبی اختلافات ضرور ہوتے تھے۔ یاہو چیٹ رومز میں مسلمانوں، یہودیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کے چیٹ رومز ہوتے تھے۔ ہم ایک دوسرے کے چیٹ رومز میں جاکر خوب گالیاں دیتے تھے۔ ایک مدت تک گالیاں دینے اور گالیاں سننے کے بعد میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اس گالم گلوچ کا آخر فائدہ کیا ہے؟ کیا میری گالیاں سن کر کسی دوسرے مذہب کا بندہ میری گالیوں سے متاثر ہوکر مسلمان ہوجائیگا؟ ہر گز نہیں۔ پھر گالی دینے کا فائدہ؟ جب میں نے گالیاں دینا چھوڑ کر نئی آئی ڈی بنائی اور گالی سے دلیل کی طرف آیا تو کئی اپنے مسلمان بھائی شک کرتے تھے کہ یہ دراصل یہودی یا عیسائی مبلغ ہے جو خود کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے۔
آج کل سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پراختلافات بین المذاہب اور بین الاقوامی کی بجائے گلی محلے کی سطح پر آگئے ہیں۔
میری ایک گزارش ہے ان تمام نوجوانوں سے جو گالی دینے میں پہل کرتے ہیں یا جواباً گالی دیتے ہیں کہ آپ ایک مہینہ عہد کرلیں کہ آپ نے کسی کو کسی بھی صورت گالی نہیں دینی۔ گالی دینے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ اور دلیل کیلئے علم اور تحقیق چاہئیے اور یہ ذرا لمبا اور مشکل کام ہے۔ اسلئے جلد از جلد گالی دیکر سمجھ لیا کہ آپ نے اپنا فرض ادا کردیا۔ اگر کسی کی بات سے آپکو اختلاف ہے تو آپ فوراً گالی دینے کی بجائے تھوڑی دیر رک جائیں۔ اسکے نقطہ نظر کو پرکھیں اور تحقیق کریں۔ تحقیق کے نتیجے میں اسکی بات یا درست ثابت ہوگی یا غلط۔ اگر درست ثابت ہوجائے تو کھلے دل سے اسکے سامنے مان لیں۔ جب آپ اسکی بات تسلیم کریں گے اسکے بعد وہ آپکی غلط بات کو بھی بلا تحقیق اور سوچے سمجھے رد نہیں کریگا۔ اگر اسکی بات غلط ثابت ہوجائے تو جن بنیادوں پر بات غلط ہے وہ باتیں سامنے رکھ دیں کہ جناب میری تحقیق تو یہ کہہ رہی ہے جس سے آپ کی بات غلط ثابت ہورہی ہے۔ اب بھلے وہ جواب میں گالی بھی دے آپ گالی نہ دیں۔ جہاں تک برداشت کرسکیں اسکو نصیحت کریں اور اگر برداشت نہ ہوسکے تو کنارہ کرلیں۔
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ایک مہینے بعد آپکی گالم گلوچ کی عادت چھوٹ جائیگی۔ اچھی بات پھیلاتے ہوئے اگر آپ کو گالی بھی پڑے گی بعد میں تنہائی میں سوچتے ہوئے آپ خود کو فاتح سمجھیں گے اور یہی احساس آپکے حوصلے کو ایندھن فراہم کرے گا۔
معاشرے میں بگاڑ بہت زیادہ ہے۔ مزید بگاڑ کا ذریعہ نہ بنیں۔ لوگوں کو اچھائی کی طرف بلائیں۔ اور بدلے میں جو سکون ملتا ہے اس سے لطف اندوز ہوں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں