ٹیلی پیتھی
شاید آپ میں سے بہت سے لوگوں نے دیوتا ناول کی کوئی نہ کوئی قسط ضرور پڑھی ہوگی۔ اس ناول کی کہانی ساری ٹیلی پیتھی کے گرد گھومتی ہے۔ ٹیلی پیتھی سادہ ترین لفظوں میں ایک انسانی دماغ سے بات بلا واسطہ دوسرے انسانی دماغ تک پہنچانے کے عمل کو کہتے ہیں۔ دیوتا ناول چونکہ بہت شوق سے پڑھتے تھے اسلئے اس سے متاثر ہونا بھی لازمی امر تھا۔ لہذا بچپن میں ٹیلی پیتھی سیکھنے کیلئے کئی چھوٹے چھوٹے کتابچے لیکر اور جون جولائی کی گرم راتوں میں بغیر پنکھا چلائے (تاکہ گھر میں کسی کو پتا نہ چلے) پسینے میں شرابور شمع بینی کرتے رہے۔ چھت پر آدھی رات کو چڑھ کر قمر بینی بھی کی۔ اس سے جو نتائج ہم حاصل کرنا چاہتے تھے وہ تو نہیں ہوسکے البتہ ایک آدھ پیغام جو ہمارے دماغ سے برآمد ہوا وہ سیدھا والد صاحب کے دماغ میں پہنچا۔ اسکے بعد کیا ہونا تھا کہ ٹیلی پیتھی سیکھنے والی ساری کتابیں جلا دی گئیں اور ہماری بھی خاطر خواہ مرمت کردی گئی۔
لیکن پھر کل ایک ذاتی اور حقیقی تجربہ ہوا اور جس سے مجھے یقین ہوگیا کہ ٹیلی پیتھی کے بارے میں جو باتیں اب تک سنی اور پڑھی تھیں وہ اتنی غلط بھی نہیں تھیں۔
ہوا یوں کہ کل کسی مصروفیت کی وجہ سے گھر سے باہر تھا۔ ماہ رمضان میں افطاری کے وقت ہی میں پورا کھانا کھا لیتا ہوں مطلب سب کچھ ایک ہی نشست میں ہوتا ہے۔ لیکن گھر سے باہر ہونے کی وجہ سے صرف افطاری کرلی جس میں ایک کھجور ایک دو پکوڑے،اور تھوڑا سا پھل شامل تھا۔ سوچا کھانا گھر جاکر کھا لوں گا۔ میرا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر وقت پر کھانا نہ کھاؤں تو بلڈ پریشر لو ہو جاتا ہے اور اسکے بعد سر درد اتنا ہوتا ہے کہ میں بلا مبالغہ ایک ذبح کئے ہوئے جانور کی طرح تڑپتا ہوں۔ دوائی کھا بھی لوں تو کم سے کم ایک گھنٹہ لگتا ہے درد رکنے میں۔
کل جب گھر جارہا تھا تو شدید سردرد شروع ہوچکا تھا اور گاڑیوں کی روشنیوں اور آوازوں سے مزید بڑھ رہا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ بلڈ پریشر لو ہوچکا ہے اور ذہنی طور پر تکلیف کیلئے تیار تھا۔ گھر پہنچ کر میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور سب سے کہہ دیا کہ طبیعت ٹھیک نہیں اور میں سونے لگا ہوں ڈسٹرب نہ کرنا اور موبائل بھی آف کرلیا۔ ایسے موقعوں پر میں اکیلا اندھیرے کمرے میں رہتا ہوں کیونکہ اگر کوئی اور دیکھے تو پریشان ہوسکتا ہے کہ شاید مرنے والا ہے۔ کل رات شاید زندگی کا سب سے شدید سر درد تھا۔ زیادہ تر تو میں اللہ اللہ ہی کر رہا تھا لیکن دو یا تین بار ایسا بھی ہوا کہ درد رک کر اور پھر یک دم ایک دھماکے سے لوٹتا تو میں ہڑبڑا کر بیٹھ جاتا اور منہ سے ہائے امی کے الفاظ نکل جاتے۔ کس وقت درد رکا اور میں سویا پتا نہیں لیکن جب سحری کے وقت اٹھا تو جیسے ہی فون آن کیا امی کی کال آگئی۔ پوچھنے لگیں خیریت ہے رات سے فون کیوں آف تھا؟ میں نے کہا بیٹری ختم ہوگئی تھی ابھی چارج کیا تو آن ہوا، کیوں خیریت تھی؟ کہنے لگیں ویسے ہی رات بے چینی ہورہی تھی تو سوچا پوچھ لوں کہ سب ٹھیک تو ہے۔
میں نے طبیعت کی خرابی کا تو نہیں بتایا کہ وہ پریشان ہوجائیں گی لیکن اس بات پر یقین پختہ ہوگیا کئ دنیا میں ٹیلی پیتھی کہیں اور ہو نہ ہو ماں بچوں کی پکار بغیر آواز کے سننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب اللہ انسان سے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتا تھا تو اس نے پیمانہ ماں کی محبت کو کیوں بنایا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں