منگل، 13 اگست، 2019

سانپ اور نیولے کی لڑائی

سانپ اور نیولے کی لڑائی 
(کچھ سیاسی کچھ غیر سیاسی)
مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب میں چھوٹا تھا تو ایک بار بھائی کیساتھ منگل کے دن درہ پیزو میلے میں گیا تھا۔ درہ پیزو ہمارے گاوں سے اکیس کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع لکی مروت کا ایک قصبہ ہے جہاں ہفتہ وار منڈی لگتی ہے۔ آس پاس کے دیہاتوں سے لوگ سودا سلف خریدنے آتے ہیں اور خوب ریل پیل ہوتی ہے۔ اسی ریل پیل کا فائدہ اٹھانے کئی مداری، سپیرےاور شعبدہ باز بھی آجاتے ہیں اور انکا بھی دھندا چل جاتا ہے۔ وہاں میلے میں ایک سپیرے کے گرد لوگ دائرہ بنا کر کھڑے تھے تو میں نے بھی بھائی سے کہا کہ دیکھنے جاتے ہیں کیونکہ وہ ڈگڈگی بجاکر کر اعلان کر رہا تھا کہ سانپ اور نیولے کی لڑائی شروع ہونے والی ہے۔ لیکن بھائی نے اجازت نہ دی۔ سانپ اور نیولے کی لڑائی نہ دیکھنے کا ارمان دل میں رہ گیا۔ کئی ہفتوں بعد میں اکیلا میلے چلا گیا۔ سیدھا سپیرے کے پاس گیا اور دائرے میں سب سے آگے آگے جاکر بیٹھ گیا۔ ابھی لوگ کم تھے۔ سپیرے نے سانپ نکالا اور بین بجانا شروع کیا۔ جب کچھ لوگ جمع ہوگئے تو اس نے بین اپنی ز نبیل میں ڈال کر ڈگڈگی نکالی اور بجا بجا کر اعلان کرنے لگا حضرات سانپ اور نیولے کی لڑائی شروع ہونے والی ہے۔ نیولے کا پنجرہ ایک کپڑے کے اندر سے نکال کر دائرے کے بیچ میں رکھ دیا اور سانپ کیساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے لگا تو وہ پھن پھیلا کر پٹاری میں پھنکارنے لگتا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کا رش بڑھنے لگا اور لوگ ایک دوسرے کے کندھوں کے اوپر سے جھانک کر یہ منظر دیکھنے لگے۔ اسکے بعد سپیرے نے ز نبیل میں ہاتھ ڈالا اور کچھ ڈبیاں نکال لیں۔ اسکے بعد اعلان کرنے لگا حضرات قدردان، مہربان یہ منجن کی چھوٹی سی ڈبیا دانتوں کی ہر قسم کی بیماری کا شافی علاج ہے۔ دانت میں درد ہو ورم ہو، مسوڑوں سے خون آتا ہو، ٹھنڈا گرم لگنے سے دانت دکھتے ہوں، دانت پیلے ہوں یا کالے ہوں اور سفید کرنا ہو، منہ سے بدبو آرہی ہے محفل میں بیٹھنا مشکل ہے، بدبو کی وجہ سے بیگم قریب نہیں آنے دیتی، درد نیا ہو یا سالوں پرانا ایک بار لگائیں پرانی سے پرانی بیماری کا فوری خاتمہ، دانت ہیرے موتی کی طرح چمکنے لگیں گے۔ ویسے بازار سے یہ آ پکو بیس سے کم کی نہیں ملے گی لیکن ابھی اسکی قیمت صرف دس روپے دس روپے دس روپے۔ ایک دو ہاتھ لینے کیلئے آگے بڑھے۔ وہ پھر بولا حضرات میرے پاس چند ایک ہی ڈبیاں ہیں بعد میں پچھتاتے نہ رہنا دس روپے دس روپے۔ دو چار اور نے خرید لیں۔ حضرات کچھ ہی ڈبیاں رہ گئیں ہیں۔ کچھ لوگ اکتا کر کھسکنے لگے تو اس نے زور سے آواز لگائی جلدی کیجئے شیش ناگ اور نیولا لڑنے کیلئے بے تاب ہیں میں نیولا کھولنے لگا ہوں۔ کھسکنے والے افراد پھر رک گئے۔ سپیرا ڈبیاں بیچتا رہا لوگ بکھر جاتے پھر اور جمع ہوجاتے اور تین چار گھنٹے وہیں بیٹھے رہنے کے بعد مجھے اندازہ ہوگیا کہ سانپ اور نیولے کی لڑائی کبھی نہیں ہونی یہ محض اپنامنجن بیچنے کی ایک ترکیب ہے۔ 
کچھ یہی صورتحال آج کل سیاسی منظر نامے کی ہے۔ مولانا فضل الرحمان صاحب ختم نبوت کانفرنس کا نعرہ لگاتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ ادنی سے ادنی ایمان رکھنے والا مسلمان بھی اس معاملے میں انتہائی جذباتی ہے وہ سرور کو نین صلی اللہُ علیہ وآلہ وسلم کے نام پہ نکلے گا ورنہ اپنا ایمان نامکمل محسوس ہوگا۔ مجمع جمع ہوتا ہے اور اسکے بعد جو تقریریں ہوتی ہیں وہ آپ سب سنتے ہی ہیں۔
میری نظر میں یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ اسکی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی میخانے پر مسجد کی تختی لگاکر نمازیوں کو میخانے میں داخل کیا جائے۔ اگر انہیں حکومت سے یا اسکی پالیسیوں سے اختلاف ہے یہ انکا حق ہے اور اگر کچھ غلط نظر آرہا ہے اسکے خلاف نکلنا اور آواز بلند کرنا انکا سیاسی رہنما کی حیثیت سے فرض بھی ہے۔ لیکن ختم نبوت کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کرکے سیاسی مقاصد پورے کرنا اخلاقی اور مذہبی طور پر قطعاً درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 
سانپ نیولے کی لڑائی کا نعرہ لگا کر منجن بیچنے والے اور خود کو انبیاء کا وارث قرار دینے والے کے طریقہ کار میں فرق ہونا چاہئے اور فرق نظر آنا چاہئے۔ وما علینا الا البلاغ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...