منگل، 13 اگست، 2019

سیاسی کالم

سیاسی کالم
اس وقت حزب اختلاف حکومت کے خلاف متحد نظر آرہی ہے۔ یہ ایک فطری اتحاد ہے۔ جو بھی جماعتیں اقتدار میں نہیں ہوتیں وہ حکومت کے خلاف ہی ہوتی ہیں اور یہی انکا کام ہوتا ہے کہ وہ حکومت کو شتر بے مہار نہ بننے دے بلکہ ہر کام پر نظر رکھے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ پچھلے دور حکومت میں جب پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف والےحزب اختلاف میں تھے اور تحریک انصاف نے اس وقت مبینہ اور بعد میں عدالت سے ثابت شدہ دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائی تو حزب اختلاف کی باقی جماعتوں نے ساتھ نہیں دیا بلکہ انہوں نے اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں ڈالا اور حکومت نے اپنی آئینی معیاد پوری کی۔ اس سے ایک عام پاکستانی کو ایسا لگتا ہے جیسے اختلافات حکومت اور حزب اختلاف میں نہیں بلکہ تحریک انصاف اور دیگر تمام جماعتوں کے درمیان ہے۔ مطلب یہ ضروری نہیں کہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں حکومت کے خلاف متحد ہوں بلکہ ان کے درمیان کوئی بنیادی مفاد ایسا ہونا چاہئے جو سب کو یکجا کرسکے یا نکتہ اختلاف ایسا ہو جس پر سب متفق ہوں۔ یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ ۲۰۱۳ کے انتخابات کو سوائے ن لیگ کے ہر جماعت نے دھاندلی زدہ ورار دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان صاحب اگرچہ ہمیشہ کی طرح حکومت کا حصہ بن گئے تھے لیکن انہوں نے بھی انتخابات پر کڑی تنقید کی اور جب سلیم صافی صاحب نے اگست ۲۰۱۳ میں سوال کیا کہ آپ کے خیال میں دھاندلی ہوئی ہے تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ صد فی صد ہوئی ہے۔ جب اگلا سوال کیا کہ آپ اسکے خلاف تحریک چلائیں گے یا پھر تحریک انصاف کی تحریک کا حصہ بنیں گے؟ تو جواب ملا کہ نہیں۔ ہم عدالت نہیں جائیں گے کیونکہ عدالتوں پر اعتماد نہیں پارلیمنٹ میں تو آواز اٹھا نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ خود کشمیر کمیٹی اور ہاوسنگ منسٹری کے بدلے سودا کرکے حکومت کا حصہ بن چکے تھے اور جب پوچھا گیا کہ عوام ساتھ نہیں اسلئے تحریک نہیں چلائیں گے تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ عوام ساتھ ہیں لیکن انکو امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ ن لیگ تو حکومت میں تھی اسلئے ان کا موقف تھا کہ سارے مسائل پارلیمنٹ کے فلور پر حل ہونے چاہئیں۔ 
پیپلز پارٹی نے کہا کہ جمہوریت کمزور ہوگی اور مولانا صاحب نے فرمایا کہ عوام کو امتحان میں نہیں ڈالتے اسلئے تحریک انصاف اکیلی پانچ سال لڑتی رہی۔ 
لیکن آج پیپلز پارٹی کو جمہوریت کی کمزوری کا خیال نہیں، مولانا صاحب عوام کو امتحان میں ڈالنا چاہتے ہیں اور ن لیگ پارلیمنٹ کے فلور پر مسائل حل نہیں کرنا چاہتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی کونسی بات ہے جس نے تمام جماعتوں کو اپنے اصولی موقف سے یو ٹرن لینے پر مجبور کیا؟ حکومت پر ایک الزام تو یہ ہے کہ ان کو فوج کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہی انکو اقتدار میں لائے ہیں۔ لیکن یہ الزام کوئی نیا نہیں۔ یہ ہر سیاسی جماعت پر ماضی میں بھی لگتے رہے اور آئندہ بھی لگیں گے۔ پھر ایسی کونسی بات ہے جو تمام اپوزیشن کو یکجا کر رہی ہے؟ ہر زاوئے سے غوروفکر کرنے کے بعد میری ناقص رائے میں احتساب کے حوالے سے موجودہ حکومت کا غیر لچکدار رویہ اسکی بنیادی وجہ ہے۔ اس پر اعتراض یہ ہوسکتا ہے کہ سب سے سرگرم تو مولانا صاحب ہیں جبکہ اب تک مولانا صاحب یا انکی جماعت کے کسی رہنما کی کوئی خاص کرپشن سامنے نہیں آئی۔ مولانا صاحب کا کیس ذرا مختلف ہے۔ پچھلے بیس سال مسلسل ایک وزیر کے اختیارات استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اسکے علاوہ پختون خوا میں انکو اچھی تعداد میں سیٹیں مل جایا کرتی تھیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مولانا صاحب اسمبلی سے باہر ہیں اور پختون خوا سے انکی جماعت کا تقریباً صفایا ہوچکا ہے۔ اسلئے انکے لئے یہ سیاسی انا کا مسئلہ ہے۔ اگر حکومت احتساب کے معاملے میں ذرا نرمی کرلے، مولانا صاحب کو کسی طرح اسمبلی تک رسائی دے دیں تو اپوزیشن کی طرف سے بننے والے دباو کو ن لیگ کی طرح ٹال کر کامیابی سے اپنی معیاد پوری کرسکتی ہے۔ بصورت دیگر متحدہ اپوزیشن کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔ اور مولانا صاحب ناموس رسالت کے بعد ممکنہ طور پر مقتدار اعلیٰ صرف اللہ کا نعرہ بھی لگادیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...