یہ جو تصویر میں نے لگائی ہے اگر میں آپ سے پوچھوں کہ کیا ہے تو آپ فورا" بتادیں گے کہ جناب مدھانی ہے اور مٹکا ہے۔ دراصل یہ مدھانی نہیں ہے۔
یہ Time Travel Machine ہے۔ میں ہر دو تین دن بعد اس مشین کے ذریعے ٹائم ٹریول کرتا ہوں۔
میں لسی بہت شوق سے پیتا ہوں بلکہ کھانے پینے کی چیزوں میں واحد چیز ہے جو میں شوق سے پیتا ہوں۔ ہمہ وقت فرج میں لسی کی بوتلیں پڑی رہتی ہیں۔ اور جب ایک بوتل رہ جاتی ہے تو نئی لسی بنتی ہے۔ لسی میرے کھانے کا لازمی جزو ہے۔
اب آتے ہیں اس مدھانی کی طرف۔ یہ مدھانی غالبا" 1985-86 میں خریدی گئی تھی جب میں بہت چھوٹا تھا۔ اس زمانے میں بجلی سے چلنے والے گھروں میں صرف پنکھے ہوتے تھے اسکے علاوہ کوئی خاص مشینری نہیں ہوتی تھی۔ جب یہ مدھانی آئی تھی تو پاس پڑوس کی خواتین یہ عجیب و غریب خودکار مشین دیکھنے کیلئے دیواروں سے جھانکنے لگیں۔ یقین ہی نہیں آتا تھا کسی کو کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ مدھانی خود بخود لسی میں چلتی رہے اور آپ کو ساتھ نہ بیٹھنا پڑے اور نہ اس کی رسیاں کھینچنی پڑیں۔
خیر وقت گزرتا گیا گاوں میں تقریبا" سب گھروں میں مدھانیاں آگئیں۔ ہم نے بھی ڈیرہ اسماعیل خان ہجرت کرلی۔ کچھ سالوں بعد گاوں والے گھر کے کچے کمرے گرنے لگے تو مدھانی چچا کے گھر میں رکھوا دی۔ اس دوران دو دہائیاں گزر گئیں۔ 2010 میں سیلاب آیا اور چچا کا گھر جہاں مدھانی تھی مکمل مسمار ہوگیا مدھانی سمیت۔ سیلاب گزر گیا تو ملبے کے نیچے سے مدھانی نکلی. دھو کر صاف کرکے رکھ دی گئی امانت کی طرح۔
ماہ رمضان سے پہلے میں گاوں گیا تھا تو وہاں میں نے برسبیل تذکرہ پوچھا کہ بجلی والی مدھانی کتنے کی ملتی ہوگی، مجھے جوسر کی بنی ہوئی لسی اتنی اچھی نہیں لگتی۔ مجھے بتایا گیا کہ مدھانی تو آپکی امی والی پڑی ہے۔ میں حیران ہوا کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ سیلاب میں ضائع ہوگئی۔
جب مدھانی آئی اور اسے چلانے کی کوشش کی تو نہ چلی۔ پیچ کس لیکر کھولا تو پتا چلا کہ ایک تو تار اندر سے کٹی ہوئی ہے، دوسرا بٹن خراب ہے اور تیسرا کیپسٹر کمزور ہے۔
گاوں سے ڈیرہ اسماعیل خان جاتے ہوئے راستے میں یارک سے مٹکا لیا۔ اور پھر اسلام آباد جاتے ہوئے رنگ پور میں مستری سے اس کی ضروری مرمت کروا لی۔
اب یہ مدھانی نہیں بلکہ ٹائم ٹریول مشین ہے۔ میں مدھانی کے پاس زمین پر بیٹھ جاتا ہوں کرسی یا سٹول پر نہیں بیٹھتا۔ جب مٹکے میں مدھانی چلتی ہے اور اس کی مخصوص آواز میرے کانوں میں پڑتی ہے تو میں فورا" تیس پینتیس سال پیچھے چلا جاتا ہوں۔ میں چھوٹا سا ہوجاتا ہوں۔ لسی کے مٹکے کے پاس زمین پر ہی بیٹھ کر انتظار کرتا ہوں کہ لسی میں سے مکھن علیحدہ ہو تو لسی ملے اور میں پیوں۔ کبھی کبھار لسی کے جام میں مکھن کا ٹکڑا بھی ڈال دیا جاتا ہے۔ امی جوان ہوتی ہیں اور اس طرح سست رفتاری سے نہیں چلتیں جس طرح اب چلتی ہیں بلکہ بہت چست ہوتی ہیں۔ دنیا کچھ دیر کیلئے بہت حسین ہوجاتی ہے۔ کوئی فکر کوئی اندیشہ نہیں۔ یہ بھی فکر نہیں کہ اماں بوڑھی ہیں کبھی کچھ ہو نہ جائے بلکہ دل کو یہ تسلی کہ اماں پاس ہے کچھ بھی ہوا تو اماں سنبھال لیں گی۔
کبھی کبھی اس منظر سے نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اور واپس لوٹتے لوٹتے بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں۔ بچے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ مٹکے میں دہی ڈال کر مدھانی چلانے میں کیا خاص بات ہوسکتی ہے کہ کسی کو رونا آئے۔
شاید تیس چالیس سال بعد انکو یہ بات سمجھ آجائیگی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں