میں جب انسان کی زندگی پر غور کرتا ہوں تو ہرانسان کی زندگی کا واحد مقصد حصول عزت ہی نظر آتا ہے۔ عزت کے حصول کے راستے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اصل مقصد وہی رہتا ہے۔ کوئی پیسے میں عزت سمجھتا ہے، تو کوئی علم میں، کسی کو عزت معاشرتی مقام میں نظر آتی ہے تو کسی کو عبادت میں۔ یہاں تک کہ دعاوں میں بھی دنیوی اور اخروی عزت ہی مانگی جاتی ہے۔
اس بات میں ہم ایک دوسرے سے اختلاف کرسکتے ہیں کہ کسی نے عزت کے حصول کا جوا راستہ چنا ہے ہمیں وہ درست نہ لگے لیکن اس بات میں اختلاف ممکن نہیں کہ مقصد عزت کا حصول ہی ہوتا ہے۔
اب اس عزت کو حاصل کرنے کے بارے میں دو طرح کی سوچ پائی جاتی ہے۔ ایک سوچ تو یہ ہے کہ عزت کروائی جاتی ہے اور دوسری سوچ یہ کہ عزت کمائی جاتی ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ عزت کروائی جاتی وہ شعوری اور لا شعوری طور پور وہ تمام چیزیں حاصل کرنے میں لگے رہتے ہیں جو ان کے نزدیک اگر ان کے پاس ہوں تو لوگ ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوں گے اور انکی عزت کرنے لگیں گے۔ ان چیزوں میں دولت، علم، طاقت وغیرہ شامل ہیں۔ عام مشاہدہ بھی یہی کہتا ہے کہ عموما" لوگ ایسے لوگوں کی عزت کرتے ہیں جن کے پاس یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ میرے نزدیک یہ کسی حد تک درست ہے لیکن یہ عزت پائیدار نہیں ہوتی۔ جیسے ہی یہ چیزیں آپ کے پاس سے رخصت ہوجاتی ہیں ساتھ ہی وہ عزت بھی رخصت ہوجاتی ہے یا بہت کم ہوجاتی ہے۔
میرے نزدیک حقیقی اور پائیدار عزت وہ ہے جو آپ کماتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ عزت کمانا کیا ہوتا ہے؟
عزت کمانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ عزت تقسیم کرنے لگ جائیں۔ لوگوں کی عزت کرنا شروع کردیں۔ آپ دیکھیں گے کہ جب آپ لوگوں کی عزت کرنا شروع کردیتے ہیں تو وہ جوابا" آپکی عزت کریں گے اور جتنی عزت آپ دیں گے اس سے زیادہ واپس ملے گی۔ میرے نزدیک یہ عزت وہ ہے جو انسان کماتا ہے۔ یہ عزت پائیدار ہوتی ہے۔ اس عزت کا انحصار کسی بھی ایسی چیز پر نہیں جو ختم ہونے والی ہے مثلا" دولت، عہدہ، طاقت وغیرہ۔
ممکن ہے کچھ لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہوں۔ اسکی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے کسی ایک یا دو غلط تجربات کی بنیاد پر یہ رائے قائم کی ہو۔ اگر وہ تجربات کی تعداد بڑھادیں تو انکی رائے بھی بدل سکتی ہے۔ اب یہ جو عزت کمائی جاتی ہے اسکا بیشتر حصہ الفاظ کے ذریعے ہی کمایا جاتا ہے۔ یعنی اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو عزت ملے اور آپ کے پاس اور کچھ بھی نہیں تو صرف اچھے الفاظ کے ذریعے ہی آپ عزت کما سکتے ہیں۔ اس لئے الفاظ کے چناو میں ہمیشہ احتیاط بہت ضروری ہے۔ نامناسب الفاظ سے کھوئی ہوئی عزت کسی بھی دوسرے ذریعے سے واپس حاصل نہیں کی جاسکتی جبکہ دوسرے وسائل کے ذریعے حاصل کی ہوئی عزت اگر کھو بھی جائے تو الفاظ کے ذریعے بحال ہوسکتی ہے۔
اس بلاگ کا بنیادی مقصد تو میری کی ہوئی سمع خراشی کو یکجا کرنا تھا۔ ماضی میں جتنا یہاں وہاں، ادھر اُدھر لکھا اس کے یا تو بچوں نے جہاز بنا کر اڑادئیے یا ردی کی نذر ہوگئے۔ چینی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ پھیکی سے پھیکی روشنائی اچھے سے اچھے حافظے سے بدرجہا بہتر ہے۔ لیکن روایتی کاغذ اور روشنائی کی وجہ سے بہت سا کام ضائع کرچکا ہوں اسلئے یہ طریقہ آزما رہا ہوں۔ دعا گو ہوں کہ اب کی بار ای میل کا پاس ورڈ نہ بھول جائے۔ تنقید و اصلاح کی مکمل آزادی ہے۔
ہفتہ، 2 مئی، 2020
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...

-
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا...
-
آج بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی میرا موڈ بھانپ گئے۔ پوچھنے لگے خیریت ہے آج تیور کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہیں۔ میرے ن...
-
کیا آپ نے کبھی کوزہ گر کو کام کرتے ہے دیکھا ہے؟ وہ مٹی کو بہت پیار سے گوندتا ہے اس کی صفائی کرتا ہے اور پھر اس مٹی کا برتن بنانا شروع ک...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں