ہفتہ، 2 مئی، 2020

اعلی ‏تعلیم

میں یکسانیت سے بہت جلد اکتا جاتا ہوں۔ (یہ محض اطلاع ہے اس دوسری شادی کی خواہش نہ سمجھا جائے وہ اس سے الگ ہے)۔ نوکری کرتے کرتے اکتا گیا تو سوچا کچھ نیا کیا جائے۔ اور کافی غور و خوض کے بعد فیصلہ یہ کیا کہ کسی ترقی یافتہ ملک کی مشہور یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کی جائے۔ تحقیق شروع کی تو پتا چلا کہ یہ کام تو بہت آسان ہے۔ اگر آپ اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیں تو پیسے کا کوئی مسئلہ نہیں کوئی نہ کوئی وظیفہ(سکالرشپ) مل جاتا ہے اور آپ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔ قابلیت منوانے کیلئے پہلی شرط انٹرنیشنل جی آر ای میں بہت اچھے نمبر حاصل کرنا ہے۔ میرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ میں کبھی پڑھا کو طالبعلم نہیں رہا ہوں۔ اسکا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اماں جان جب امتحان کے دنوں میں دعا دیتیں تو دعا کچھ یوں ہوتی کہ اللہ میرے بچوں کی محنت ضائع نہ کرنا ان کو محنت کا صلہ ضرور دینا پھر میرے لئے الگ سے دعا کرتیں کہ اللہ اس کو ویسے ہی دے دینا یہ تو محنت بھی نہیں کرتا اور کبوتر، تیتر اور طوطوں سے ہی اس کو فرصت نہیں ملتی۔ لیکن اب معاملہ بین الاقوامی سطح تک پہنچ گیا تھا اور پوری دنیا کے طلبا سے مقابلہ تھا اسلئے اصلی والا پکا ارادہ کرلیا کہ اب کی بار پڑھنا ہے اور ایسے پڑھنا ہے کہ پڑھائی کا حق ادا ہو۔ کتابیں لے لیں اور دفتر سے آکر حجرے میں معتکف ہوجاتا۔ ساری رات پڑھتا اور صبح تین چار گھنٹے سوکر دفتر چلا جاتا۔ دفتر میں بھی موبائل فون پر دسیوں قسم کے GRE Applications ڈاون لوڈ کی ہوئی تھیں ان کی مدد سے پڑھتا رہتا، آن لائن ٹیسٹ دیتا رہتا۔ دو مہینے پڑھنے کے بعد مجھے لگا کہ اب تیاری پوری ہے۔ داخلہ بھیجا۔ داخلہ بھی ڈالروں میں تھا جو پاکستانی پچیس ہزار روپے بنتے تھے۔ اماں کو ابھی نہیں بتایا تھا اور میرا خیال تھا کہ ایک بار داخلے کی پیش کش آجائے پھر اماں کو کسی نہ کسی طرح راضی کرہی لوں گا۔ ویسے نہ مانیں تو کہہ دوں گا کہ مرحوم والد صاحب کا خواب تھا جو پورا کرنا ہے اور وہ یہ سن کر مان ہی جائینگی۔ ٹیسٹ کیلئے اسلام آباد بلایا گیا۔ میں اسلام آباد گیا۔ شام کے وقت پہنچ کر اماں کو بتانے کے لئے فون کیا کہ میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں اور ساتھ دعاوں کی درخواست بھی کی۔ امی نے پوچھا کہ یہ کس چیز کاٹیسٹ ہے؟ میں نے کہا جب آوں گا تو تفصیلات بتادوں گا۔ امی مشکوک انداز میں پوچھنے لگیں کہ پھر کہیں باہر جانے کا ارادہ تو نہیں؟ میں نے ہنس کر کہا کہ آپ فی الحال دعاوں پر توجہ دیں تفتیش نہ کریں۔ کہنے لگیں اگر باہر جانے کیلئے ہے تو دعا نہیں کرنی میں نے۔ اگلے دن میں مقررہ وقت سے پہلے ٹیسٹ مرکز پہنچ گیا۔ دروازے پر آمد کی وجہ اور شناخت کا مطالبہ ہوا تو میں نے شناختی کارڈ دکھادیا۔ وہ بولا پاسپورٹ دکھائیں۔ میں نے کہا پاسپورٹ؟ کیوں گیٹ کے اس پار امریکہ کی سرحد شروع ہوتی ہے کیا؟ کہنے لگا پاسپورٹ ضروری ہے۔ میں نے احتجاج کیا تو گیٹ سے جانے دیا لیکن استقبالیہ کاونٹر تک۔ وہاں موجود اہلکار سے بحث شروع کی کہ ای میل میں پاسپورٹ کا ذکر نہیں تھا اور ساتھ ای میل کی پرنٹ دکھا دی۔ اس نے ای میل کے نیچے ایک بہت چھوٹی سی لکھائی پر انگلی رکھ کر کہا کہ اس لنک کو کھول کر دیکھا تھا؟ وہاں لکھا تھا،
For ID documents details click here
میں نے کہا نہیں۔ بولا چیک کریں۔ میں واپس گاڑی کی طرف گیا موبائل فون گاڑی میں تھا۔ ای میل کھولی اور جب وہ لنک کھول کر دیکھا تو لکھا تھا،
Passport is mandatory for Srilanka, Pakistan and Bangladesh.
اب میں بحث کا جواز کھو چکا تھا۔ شکست خوردہ انداز میں دو بارہ استقبالیہ کاونٹر پر گیا اور اب منت سماجت پر اتر آیا۔ میں نے کہا ابھی پاسپورٹ کی Scanned Copy ای میل کے ذریعے منگوا لیتا ہوں۔ کہنے لگے نہیں ہم اتنا کرسکتے ہیں کہ دو گھنٹے کے اندر اگر پاسپورٹ لے آئیں تو ٹیسٹ کی اجازت دے سکتے ہیں۔ اب بحث کرنا فضول تھا۔ میں ہارے ہوئے جواری کی طرح وہاں سے لوٹ آیا۔ اماں کو فون کیا تو پوچھنے لگیں کہ ٹیسٹ ہوگیا؟ میں نے کہا نہیں انہوں نے دروازے سے ہی واپس لوٹا دیا۔ وہ حیران ہوکر پوچھنے لگیں کہ کیوں؟ میں نے کہا وہ کہہ رہے تھے کہ ماں کو ساتھ لاو اور وہ یہاں آکر کہے کہ وہ تمہیں ملک سے باہر بھیجنے پر راضی ہیں تو امتحان میں بیٹھنے دیں گے۔ اماں کہنے لگیں اچھا تو باہر جا رہے تھے تم؟ بہت اچھا کیا ہے۔ میں وہاں سے نکلا اور نوشہرہ میں اپنے دوست عاصم کے پاس چلا گیا غم ہلکا کرنے کیلئے۔ اب مجھے اس میں کوئی شک نہیں رہا تھا کہ ماں کی رضا کے بغیر پڑھائی کسی کام کی نہیں۔ پھر اپنے شہر میں ہی ایم فل میں داخلہ لے لیا۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...