12 اور 13جولائی 2018
صبح آنکھ کھلی تو اچھے خاصے تازہ دم ہوگئے تھے۔ صبح ناشتے کے وقت معمول سے کم عجلت تھی۔ ہم نے بھی خاموش رہنے میں عافیت سمجھی کہ کہیں ہمارے پوچھنے پر وہ لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ ہمیں کوئی جلدی ہے اور وہ بھی جلدی جلدی کام نمٹائیں۔ مجھے جلد بازی ویسے بھی نہیں پسند اور صبح صبح تو بالکل نہیں پسند۔ ناشتہ کرتے اور سامان سمیٹتے جس وقت ہم چلے تو ساڑھے سات بج چکے تھے۔ پتا چلا کہ آج فاصلہ کم ہے اسلئے جلدی کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ اب راستہ آہستہ آہستہ مشکل ہونا شروع ہوگیا۔ مشکل اس طرح کہ اس میں چڑھائی اترائی کا تناسب ذرا بڑھ گا لیکن خطرناک نہیں تھا۔
دو گھنٹے چلنے کے بعد گائیڈ نے سامنے پہاڑ پر درختوں اور ہریالی کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ سامنے پائیو کیمپ ہے اور اسکے پیچھے جو چوٹی نظر آتی ہے وہ پائیو پیک (Paiju Peak)۔
پائیو پیک 6660 میٹر بلند چوٹی ہے اور بلتورو رینج میں واقع ہے۔ اسی چوٹی کے دامن میں ہونے کی وجہ سے اس کیمپ کو پائیو کیمپ کہا جاتا ہے۔ پائیو پیک بلتورو گلئشئیر میں بہت اہم ہے۔ یہاں سے گزرنے کے بعد کئی حوالوں سے پائیو پیک کی مدد کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ آپ نے نماز پڑھنی ہے تو منہ پائیو پیک کی طرف کرکے پڑھنی ہے یہی قبلہ ہے۔ صبح صبح اٹھ کر سب سے پہلے پائیو پیک کو دیکھنا پڑتا ہے۔ اگر پائیو پیک کے اوپر آسمان صاف ہے تو دن بھر موسم صاف رہے گا۔ لیکن اگر اس کے اوپر بادل کا چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہو تو سب پریشان ہوجاتے ہیں کہ موسم کسی بھی وقت خراب ہوسکتا ہے۔ یہ مقامی لوگوں کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے۔
فاصلہ دیکھ کر مجھے لگا کہ ہم آدھے گھنٹے میں ہی پہنچ جائیں گے۔ لیکن پہاڑوں میں فاصلے ہمیشہ دھوکہ دیتے ہیں۔ جتنا آپ پہاڑ کی طرف چلتے ہیں اتنا ہی دور ہوتا جاتا ہے۔ کیمپ اونچائی پر تھا اور اسکا مطلب تھا کہ ہم نے اوپر کی طرف جانا تھا جس سے ہماری رفتار سست اور وقفے بڑھ رہے تھے۔ ساڑھےبارہ بجے کے قریب ہم اوپر کیمپ کے کنارے تک پہنچ گئے جہاں بڑے بڑے سایہ دار درخت تھے۔ ہمارے پہنچتے ہی عباس بھی وہاں آنکلا۔ کیمپ ابھی نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے عباس سے پوچھا کی کیمپ کہاں ہے؟ وہ بولا بس ساتھ ہی ہے آپ بیٹھ جائیں آرام کرلیں۔ میں نے کہا آپ کو کیسے پتا تھا کہ ہم یہاں پہنچ گئے ہیں؟ وہ بولا کہ میں نے صبح دوربین سے دیکھ لیا تھا آپ لوگوں کو اور مجھے ا ندازہ تھا کہ آپ لوگ اس وقت تک پہنچ جائیں گے۔ میں تھوڑی دیر درخت کے نیچے بیٹھا رہا اس کے بعد درخت کے اوپر چڑھ گیا اور اوپر بیٹھ گیا۔ میں نے ایسا کیوں کیا مجھے اب تک سمجھ نہیں آئی۔ شاید بچپن میں سارا دن درختوزن کی چوٹیوں پر گزارنے کی پرانی عادت جاگ گئی تھی۔ آدھا گھنٹہ وہاں آرام کرنے کے بعد ہم کیمپ کی طرف بڑھے۔ تھوڑا سا چلنے کے بعد سامنے کیمپ نظر آگیا۔ کیمپ میں بہت رونق تھی۔ ہر طرف رنگ برنگے خیمے بڑے بڑے درختوں کی چھاؤں میں لگے ہوئے تھے۔ پائیو کیمپ میرے مطابق اس راستے کا سب سے خوبصورت کیمپ ہے۔ یہاں بہت بڑے بڑے گھنے درخت ہیں، نیچے دریا بہتا ہے۔ غسل خانے اور بیت الخلا بنے ہوئے ہیں اور ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد نہانے چلا گیا۔ پانی بہت زیادہ ٹھنڈا تھا لیکن بتایا گیا تھا کہ ان سے آگے نہانا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ہوجائیگا۔ اسکے بعد دوپہر کا کھانا کھایا اور میں نیچے درختوں کے جھنڈ میں چلا گیا۔ درختوں میں موجود پرندوں کا نظارہ کرنے لگا۔ یہاں سے ٹرینگو ٹاور بھی صاف نظر آتا ہے۔ اوپر ایک نئے گروپ کے پہنچنے کی اطلاع ملی۔ میں اٹھ کر اوپر آیا تو پتا چلا کہ پانچ نوجوان راولپنڈی سے آئے ہیں اور انکے ساتھ صرف اک پورٹر ہے۔ سارا سامان خود اٹھا کر لائے ہیں پورٹر بھی صرف راستہ دکھانے کیلئے ساتھ رکھا ہے۔ ان سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ ڈبوں میں بند خوراک ساتھ لائے ہیں اور گرم کرنے کے گیس سلنڈر ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس 25 سے 30 کلو وزنی سامان تھا۔ ان کا یہاں تک پہنچنا بذات خود ایک کمال تھا۔ وہ طالبعلم تھے اور انہوں نے بتایا کہ ان کا بجٹ محدود ہے اسلئے وہ اپنی مدد آپ کے تحت یہاں تک پہنچے ہیں۔ ان کو سب نے مشورہ دیا کہ یہ بہت خطرناک ہے اور اتنے وزن کیساتھ چلنا ان کو مشکل میں ڈال دیگا کونکہ ہاں سے آگے راستہ مشکل اور ناہموار ہے۔ اگر کسی ایک کو بھی کوئی چوٹ لگی یا پاوں میں موچ بھی آگئی تو واپس جانا ناممکن ہوجائے گا۔ اسلئے مناسب یہی ہے کہ یہیں جتنی دیر رکنا چاہتے ہیں رکیں ادھر ادھر پہاڑوں میں گھومیں پھریں اور پھر اپنی خوراک کو دیکھتے ہوئے یہیں سے واپس چلے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کریں گے جہاں تک جاسکے جائیں گے اور اگر جانا ممکن نہ ہوا تو واپس چلے جائیں گے۔
رات کے کھانے کے دوران یہ فیصلہ ہوا کہ صبح جس قدر ممکن ہوا جلدی نکلیں گے۔ اسکے بعد سارا سفر گلیشئیر کے اوپر تھا اور مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی تھا۔ اسکے علاوہ خوبرسے کیمپ سے پہلے ایک ندی کو پار کرنا ہے اور اگر 12 بجے سے پہلے وہ ندی پار نہ ہوئی تو پار کرنا تقریبا " ناممکن ہوگا۔ اسکے بعد پانی بہت بڑھ جاتا ہے اور رسی لگا کر پار کرنا بھی خطرناک ہوتا ہے۔
صبح باوجود کوشش کے بھی بہت جلدی نہیں نکل سکے اور نکلتے نکلتے ساڑھے چھ بج گئے تھے۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد اندازہ ہوا کہ راستہ واقعی بہت مشکل ہے۔ گلیشئیر پر کوئی راستہ ہوتا ہی نہیں۔ ہر گروپ والے پیچھے آنے والوں کیلئے جگہ جگہ دوچار پتھر ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر راستے کی نشاندہی کرجاتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود بھی اگر دو تین دن پہلے کے نشانات لگے ہوں تو امکان یہی ہوتا ہے کہ راستہ کہیں نہ کہیں سے کٹ چکا ہوتا ہے کیونکہ برف مسلسل حرکت میں رہتی ہے۔ راستہ بہت زیادہ ناہموار تھا اور صحیح معنوں میں آزما رہا تھا۔ اور باوجود اسکے کہ برف کے اوپر چل رہے تھے گرمی لگ رہی تھی۔ ہر پانچ دس منٹ کے بعد رکنا پڑ رہا تھا۔ بہرحال گرتے پڑتے، لڑکھڑاتے اور سنبھلتے آہستہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ کئی جگہوں پر راستہ بہت تنگ اور خطرناک تھا اور نیچے سینکڑوں فٹ گہری کھائیاں تھیں۔ راستے میں ہمیں ایک گروپ ملا جسکے کے گائیڈ نے بتایا کہ انہوں نے چالیس منٹ پہلے ندی عبور کی ہے اور ہمارے پہنچتے پہنچتے پانی اتنا بڑھ چکا ہوگا کہ پار کرنا ناممکن گا یا پھر انتہائی خطرناک۔ ہمارا گائیڈ کچھ زیادہ ہی محتاط اور وہمی تھا۔ اس نے کہا کہ ہم متبادل راستے سے جائیں گے جو کہ لمبا ہے لیکن محفوظ ہے۔ ہم راستہ دائیں طرف چھوڑ کر بائیں طرف پہاڑوں میں گھس گئے جو کہ دراصل پہاڑ نہیں تھے بلکہ گلیشئیر تھا۔ کافی دیر تک داں بائیں اور آگے پیچھے گھومتے رہے لیکن راستہ نہیں ملا۔ گویا ہم دائرے میں چکر لگا رہے تھے۔ آخر ہم کچھ لوگوں نے ایک اونچی جگہ پر جاکر راستہ دیکھا اور ایک جگہ ایسی نظر آگئی جہاں تھوڑی سی کوشش سے ایک مشکل جگہ عبور کی جاسکتی تھی۔ گرتے پڑتے اسی طرف چل دئیے۔ گلیشئیر میں راستہ نکالنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے اندھیرے میں کسی انجان گھر میں راستہ ڈھونڈنا۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ گلیشئیر میں وزن اٹھا کر چلنے سے سانس بھی پھولا ہوا ہوتا ہے۔ آخر ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے ہم نے اوپر چڑھنا تھا۔ وہ جگہ مشکل تھی۔ دائیں بائیں راستہ دیکھا لیکن نظر نہیں آیا۔ مجبورا" ایک بندے کو اوپر چڑھنا پڑا اور اس نے اوپر چڑھ کر رسی لٹکا دی اور پھر ایک ایک کرکے سارا قافلہ اوپر پہنچ گیا۔ اسکے بعد دور سے پہاڑ کے دامن میں خوبرسے کیمپ بھی نظر آنے لگا۔ کیمپ دیکھتے ہی کچھ ہوش ٹھکانے آگئے۔ وہاں سے کیمپ تک پہنچتے پہنچتے ہمیں ایک گھنٹہ مزید لگا۔ ساڑھے تین بجے کے قریب ہم خوبرسے کیمپ پہنچ گئے۔ تھکاوٹ سے برا حال تھا۔
تھوڑی دیر سستانے کے بعد کیمپ کا چکر لگایا تو وہاں دو آدمی ملے جن کی جلد ایسی کالی تھی جیسے جل کر کوئلہ بنی ہو۔ تعارف کے بعد پتا چلا کہ وہ ہائی الٹچیوڈ پورٹرز ہیں اور چائنیز گروپ کے ساتھ کے ٹو سر کرنے گئے تھے۔ رسی ٹوٹنے کی وجہ سے کوہ پیما مر گئے جن میں سے ایک کی لاش بھی نہیں مل سکی۔ وہ لوگ واپس جارہے تھے اور یہاں رات گزارنے کیلئے رکے تھے۔ کیمپ میں آبادی اچھی خاصی تھی۔ کچھ گروپ اوپر جارہے تھے اور کچھ واپس لوٹ رہے تھے۔ یہاں ایک امریکی پروفیسر سے ملاقات ہوئی۔ وہ تاریخ کے پروفیسر تھے۔ پاکستان پہلی دفعہ آئے تھے اور پاکستان کے قدرتی حسن اور لوگوں سے بہت متاثر تھے۔ اسکے مطابق پاکستان ٹورزم کے لحاظ سے دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ اور یہ کہ پاکستان جیسا بھی ہے کم سے کم ایک فیصد بھی ویسا نہیں جیسا میڈیا میں دکھایا جاتا ہے۔
شام تک ادھر ادھر گھوم پھر کر وقت گزارا۔ شام ہوتے ہی سردی بہت بڑھ گئی۔ شام کے بعد رات کا کھانا کھایا اور پھر اگلے دن کی منصوبہ بندی کرکے سونے کیلئے اپنے خیمے میں چلا گیا۔ جسم تھکاوٹ اور درد سے چور تھا اور ساری رات بہت بے چین گزری۔ خوبرسے کی رات مشکل راتوں میں سے ایک رات تھی۔ اگرچہ میں بہت گہری نیند سونے کا عادی ہوں لیکن اس رات بار بار آنکھ کھلتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں