اس بلاگ کا بنیادی مقصد تو میری کی ہوئی سمع خراشی کو یکجا کرنا تھا۔ ماضی میں جتنا یہاں وہاں، ادھر اُدھر لکھا اس کے یا تو بچوں نے جہاز بنا کر اڑادئیے یا ردی کی نذر ہوگئے۔ چینی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ پھیکی سے پھیکی روشنائی اچھے سے اچھے حافظے سے بدرجہا بہتر ہے۔ لیکن روایتی کاغذ اور روشنائی کی وجہ سے بہت سا کام ضائع کرچکا ہوں اسلئے یہ طریقہ آزما رہا ہوں۔ دعا گو ہوں کہ اب کی بار ای میل کا پاس ورڈ نہ بھول جائے۔ تنقید و اصلاح کی مکمل آزادی ہے۔
جمعرات، 30 اپریل، 2020
ہماری صحت اور بیماریاں
یوں تو اپنی صحت کبھی بھی ایسی مثالی نہیں رہی کہ مائیں بچوں کو ہماری طرف اشارہ کرکے کہیں کہ دودھ پیا کرو تاکہ اس انکل کی طرح صحت مند رہو۔ بیس سال کی عمر سے لیکر اب تک وزن گرمیوں میں پچپن اور سردیوں میں ساٹھ کلوگرام سے زیادہ نہیں بڑھا۔ تاہم شمال میں ٹھنڈے علاقوں کے سفر کے دوران وزن پینسٹھ کلو تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اضافی وزن سوٹ اور بوٹ کا ہوتا ہے صافی وزن وہی پچاس سے کچھ اوپر ہی ہے۔ تاہم اللہ کا یہ خصوصی کرم ہے کہ صحت کے حوالے سے کبھی کوئی چھوٹی یا بڑی شکایت نہیں رہی۔ گوکہ اس دور میں شاید ہی کوئی بندہ ہو جسے کوئی نہ کوئی بیماری نہ ہو۔ اور کچھ نہیں تو کم سے کم کوئی نہ کوئی الرجی تو لازما" ہوتی ہے۔ یادش بخیر، الرجی کے بارے میں ہمارے ایک کرم فرما کا فرمان ہے کہ یہ امیر لوگوں کی بیماری ہے غریب کے پاس اتنی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے بارے میں سوچنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ تاہم اسکا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم کبھی بیمار ہی نہیں ہوئے۔ بچپن میں ایک خاص ٹائم ٹیبل کے مطابق ہم باقاعدہ بیمار ہوتے رہے ہیں۔ مثلا" جون جولائی میں سالانہ بخار لازمی ہوتا تھا جو گھر والوں کے مطابق Sun Stroke ہوتا تھا کیونکہ دوپہر کو چوری چھپے دھوپ میں ضرور نکلتے تھے۔ ساون بھادوں میں پھوڑے پھنسیاں نکلنا بھی معمول تھا۔ گھر میں موجود تالاب جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا، پیتے تھے۔ مٹکے میں پانی ڈالتے وقت کپڑے سے چھان کر ڈالا جاتا تھا اور کپڑے پر مٹھی بھر آبی کیڑے مکوڑے جمع ہوجایا کرتے تھے جس کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں گیا کہ ان سے بیماری بھی ہوسکتی ہے۔ پھوڑے عموما" چہرے پر نکلتے تھے اور انکا علاج بغیر آپریشن کے نہیں ہوتا تھا۔ آپریشن اماں خود کرتی تھیں اور آپریشن تھیٹر کا کام زمین سے لیا جاتا تھا۔ چونکہ Anesthesia کا رواج نہیں تھا اسلئے ہمیں قابو کرنے کے لئے اماں ایک گھٹنا ہمارے سینے پر اور دوسرا ہمارے ماتھے پر رکھتیں اور منہ بند رکھنے کے لئے دھونس دھمکی کا استعمال کرتی تھیں جو ہمیشہ کارگر ثابت ہوا۔ پھوڑے کا آپریشن ہونے کے بعد دوسرے دن وہ ٹھیک ہوجایا کرتا تھا۔ تاہم ایک بیماری ایسی تھی جسکا باقاعدہ کوئی موسم یا ٹائم ٹیبل نہیں ہوتا تھا اور وہ کسی بھی وقت ہوجاتی تھی گویا عشق کی ساری خوبیاں اس میں موجود تھیں سوائے خارش کے جو اضافی تھی۔ اس بیماری میں ہوتا یہ تھا کہ گردن سے جلد میں سوجن اور خارش شروع ہوتی اور کچھ ہی دیر میں پورے جسم کی جلد سرخ ہوجاتی اور شدید قسم کی سوجن ہوجاتی اور پھر بخار چڑھ جاتا۔ اس زمانے میں یہ شکایت بیماریوں کے فہرست میں شامل نہیں تھی۔ بہت عرصے بعد فلموں میں دیکھ کر پتا چلا کہ یہ الرجی کہلاتی ہے اور یہ کسی ناپسندیدہ چیز کیلئے جس کا خود کار ردعمل ہوتا ہے۔ اس زمانے میں جب بھی یہ شکایت ہوتی تو اماں فورا" کہتیں کہ چیونٹیوں کے بلوں پر پاوں رکھا ہے کہیں۔ ہمارے حجرے میں بیر کے درختوں کے نیچے چیونٹیوں کے ایسے کئی گھر تھے اور بیر چنتے ہوئے اکثر پاوں پڑجایا کرتا۔ (یہ چیونٹیاں عام گھریلو چیونٹیوں سے بڑی ہوتی ہیں)۔ اسکا علاج دوا دارو سے نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اسکا ٹوٹکہ بالکل الگ تھا۔ اماں فورا" کسی کپڑے میں مٹھی بھر گندم باندھ کر ہمارے جسم پرجہاں جہاں الرجی ہوتی، پھیرتیں اور پھر کہتیں کہ جاکر چیونٹیوں کے بل کے پاس ڈال آو۔ میں ایسا ہی کرتا اور حیران کن طور پر گھنٹے دو کے بعد میں ٹھیک بھی ہوجاتا۔ اماں کا خیال تھا کہ چیونٹیوں کے گھروں کی حفاظت پر جنات مامور ہوتے ہیں اور جب کوئی چیونٹیوں کے گھروں کو نقصان پہنچاتا ہے تو یہ جنوں کا رد عمل ہوتا ہے۔ جب تھوڑا بڑا ہوا تو سورہ نمل میں چیونٹی اور سلیمان علیہ السلام کا واقعہ پڑھنے کے بعد ہمیں خود بھی یقین آگیا کہ جنوں والی بات درست ہی ہوگی کیونکہ ممکن ہے سلیمان علیہ السلام نے جنوں کو حفاظت پر مامور کیا ہو۔ تاہم تھوڑا اور بڑا ہوا تو گندم کی مقدار بھی بڑھ گئی۔ اسلئے اس میں تھوڑی سی گندم چیونٹیوں کو ڈال کر باقی گندم دوکان پر لے جاکر اسکی ٹافیاں خرید لیا کرتا۔ دیہاتوں میں شاید یہ بارٹر سسٹم یعنی مال کے بدلے مال کی تجارت اب بھی کہیں موجود ہو جو اس زمانے میں عام تھا۔ یہ بات البتہ ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ چیونٹیوں کو گندم کھلانے کے بعد میں فورا" ٹھیک کیونکر ہوجایا کرتا۔ شاید یہ مابعد الطبیعیات عمل ہے جو ابھی تک ایک سربستہ راز ہی ہے۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...

-
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا...
-
آج بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی میرا موڈ بھانپ گئے۔ پوچھنے لگے خیریت ہے آج تیور کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہیں۔ میرے ن...
-
کیا آپ نے کبھی کوزہ گر کو کام کرتے ہے دیکھا ہے؟ وہ مٹی کو بہت پیار سے گوندتا ہے اس کی صفائی کرتا ہے اور پھر اس مٹی کا برتن بنانا شروع ک...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں