اتوار، 19 اپریل، 2020

جنٹلمین ‏

یہ کوئی 14 سال پہلے کی بات ہے جب ہم نے اکاونٹس کی ملازمت کو خیر باد کہہ کر بینک کی ملازمت اختیار کی۔ ابتدائی چھ مہینے ہماری تعلیم و تربیت کیلئے مختص کئے گئے تھے جو ابتداء میں ہمیں کچھ زیادہ لگے لیکن بعد میں اندازہ ہوا کہ بہت کم ہیں۔ تعلیم تو خیر مشکل نہیں تھی تربیت البتہ بہت مشکل تھی۔ سب سے مشکل کام جنٹلمن کی طرح کھانا کھانا تھا۔ ڈائننگ ہال میں صرف میز تھی کرسیاں نہیں تھیں۔ مطلب کھڑے کھڑے کھانا تھا۔ اب ہم ٹھہرے دیہاتی کہ جب تک زمین پر آلتی پالتی مار کر نہ بیٹھیں کچھ کھایا ہی نہیں جاتا۔ اوپر سے چمچ چھری کانٹے سے کھانا جسکا نہ ہمیں تجربہ تھا نہ خواہش۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بچپن میں چمچ سے کڑوی دوائی کے علاوہ ہم نے کچھ نہیں کھایا۔ سالانہ بخار کے دنوں میں کئی طرح کے کڑوے شربت ہی ناک بند کرکے اور چمچ سے منہ میں انڈیلے گئے۔ دوسری وجہ یہ کہ جب بھی کسی ہوٹل یا ریستوران میں چمچ دیکھتا ہوں تو پہلا خیال ذہن میں یہ آتا ہے کہ یہ چمچ مجھ سے پہلے کتنے لوگوں کے منہ کی سیر کرچکا ہوگا۔ بس یہی سوچ کر ہی چمچ سے کھانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اکثر ساتھی شہری بابو تھے اور چاول جلدی جلدی کھا لیتے جبکہ ہم چاول کے نہ عادی ہیں نہ شوقین۔ صحرا میں پلے بڑھے جہاں چاول سال میں دو دفعہ پکتے محرم میں اور شب برات کے موقع پر اس کے علاوہ کبھی کوئی فوت ہوا اور ایصال ثواب کیلئے کسی نے چاول لوگوں کو کھلائے تو وہ اضافی موقع لیکن اس زمانے میں یہ نئی بیماریاں جیسے کینسر، ہیپاٹائٹس سی اور ہارٹ اٹیک ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھیں تو اموات بہت کم ہوتی تھی۔ تو ہم روٹی کے ایسے عادی ہیں کہ اگر من و سلوای بھی کھلادیں تب بھی شاید دانہ گندم کی طلب ضرور کریں گے۔ پلیٹ میں سالن ڈالنے کے بعد روٹی کہاں رکھیں؟ اور پلیٹ میں رکھ بھی دیں تو دوسرے ہاتھ میں پلیٹ پکڑی ہو تو روٹی ایک ہاتھ سے توڑیں کیسے؟ جبکہ بچپن سے سکھایا گا تھا کہ ایک ہاتھ سے روٹی توڑنا معیوب اور رزق کی بے توقیری ہے۔ اوپر سے سوٹ اور ٹائی۔ بسا اوقات ہم پہلے ہماری ٹائی سالن میں ڈبکی لگالیتی تھی۔ جسے ہم چوس کر صاف کرلیا کرتے۔ لہذا ہم اپنی پلیٹ اٹھا کر ٹریننگ ہال میں جاکر آرام سے کرسی پر بیٹھ کر کچھ دن کھاتے رہے۔ لیکن دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی وہاں بیٹھ کر کھانے لگے تو سٹاف کالج نے سختی منع کردیا۔ اب ہمارے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔ تو ہم نے یہ حل نکالا کہ روٹی کے چھوٹے ٹکڑے کرکے پہلے سے پلیٹ میں رکھ لیتے اور پھر ایک ایک ریڈی میڈ نوالہ کھا کر پیٹ بھرتے۔
جب تعلیم و تربیت اختتام کے قریب پہنچی تو ہم سب کو پی سی ہوٹل بھوربن میں ایک دن ظہرانے کے لئے لے جایا گیا۔ پہلی بار کسی بڑے ہوٹل میں جانا ہوا تھا۔ فرش اتنا صاف تھا کہ پوری چھت اس میں واضح نظر آرہی تھی۔ پہلی نظر دیکھنے کے بعد ہمیں لگا کہ یا تو پانی کا تالاب ہے یا پھر آئینہ۔ اس فرش پر اگر ہم اکیلے ہوتے تو کبھی جوتوں سمیت چلنے کی ہمت نہ کرتے بلکہ اگر گرمیاں ہوتیں تو شاید کپڑے اتار نہانے کیلئے چھلانگ ہی لگادیتے۔ خیر دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم بھی بادل ناخواستہ اور سہمے سہمے جوتوں سمیت داخل ہوئے۔ ہوٹل میں لوگ تھے لیکن شور نہیں تھا۔ سب لوگ بڑی مدھم آواز میں گفتگو کر رہے تھے جس سے ہماری گھبراہٹ اور بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد بیت الخلا جانا ہوا۔ باہر نکل کر ہاتھ دھونے کیلئے بیسن کی طرف گیا تو نل کھولنے کیلئے کوئی ناب موجود نہیں۔ میں نے دائیں بائیں اوپر نیچے ٹٹول کر دیکھا لیکن بے سود۔ باہر جا کر تھوڑی دیر میں کھانا کھانا تھا اس لئے ہاتھ دھوئے بغیر بھی نہیں جاسکتا تھا۔ جیسے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ چمچ چھری کانٹے کو دیکھ کر ہی آدھی بھوک مرجاتی ہے، تو لا محالہ روٹی ہاتھوں سے ہی توڑنی تھی۔ لہذا نے فیصلہ کیا کہ تھوڑی دیر انتظار کرتے ہیں کہ کوئی اور ہاتھ دھوئے تو طریقہ سیکھ لیتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہی ایک بندہ آیا اور ہاتھ دھوکر میری طرف بڑھنے لگا۔ پہلے تو میں سمجھا مجھ سے ملنے آرہا ہے لیکن جب اس نے ایکسکیوز می کہا تو میں حیران ہوا کہ میں راستے میں تو نہیں کھڑا نہ میرے پیچھے دروازہ ہے۔ بہرحال میں نے اسے ایکسکیوزا اور ایک طرف ہوگیا۔ میں جہاں کھڑا تھا وہاں میرے پیچھے دیوار پہ کوئی ڈبہ سا تھا۔ یکدم سے اس ڈبے سے غوں غوں کی آوازیں نکلیں تو میں گھبرا کر دو قدم اور پیچھے ہٹ گیا۔ اس میں کچھ نکل نہیں رہا تھا لیکن وہ اپنے ہاتھ آپس میں رگڑ رہا تھا۔ جب وہ چلا گیا تو میں پھر بیسن کے پاس گیا لیکن نل پانی دینے پر آمادہ نہ ہوئی۔ اب میں نے ٹھان لی کہ پانی نکال کر ہی رہوں گا چاہے لوہے کے نل کو نچوڑنا ہی کیوں نہ پڑے۔ ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہوئے اچانک نل سے پانی نکل کر میرے ہاتھ پر گرا تو میں گھبرا کر پیچھے ہٹا اور گرتے گرتے بچا۔ دائیں بائیں نظر دوڑائی کہ کسی نے دیکھا تو نہیں اور یہ دیکھ کر تسلی ہوئی کہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ ایک بار پھر ڈرتے ڈرتے ہاتھ بڑھایا اور نل کے نیچے بیسن کو دبانے ہی والا تھا کہ اس سے پہلے ہی پانی نکلنا شروع ہوگیا۔ پہلے میں سمجھا شاید نل کے آس پاس کوئی جگہ دبنے سے پانی نکلا ہے۔ لیکن اب اندازہ ہوگیا کہ نل کے نیچے ہاتھ جائے تو پانی خودکار طریقے سے نکلتا ہے۔ ہاتھ دھو کر وہاں سے تیزی سے نکل گیا۔
باقی تفصیلات پھر سہی۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...