جمعرات، 30 اپریل، 2020

مجھے پہاڑوں سے خوف کیوں آنے لگا

میرے حلقہ احباب کو پتا ہے کہ گھومنا پھرنا بالعموم اور پہاڑ بالخصوص میرے لئے محبوب کا درجہ رکھتے ہیں۔ گاہے گاہے پہاڑ مجھے اپنی طرف اس شدت سے کھینچ لیتے ہیں کہ نیوٹن کا کشش ثقل کا فارمولا تک غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ شاید اسی محبت کی وجہ تھی کہ مجھے پہاڑوں سے کبھی ڈر محسوس نہیں ہوا۔ کئی بار اس بے خوفی میں ایسی بے وقوفیاں بھی کیں جن کا نتیجہ اگر یقینی موت نہیں تو عمر بھر کیلئے اپاہج ہونا لازم تھا، پھر بھی ڈر نہیں لگا۔ لیکن اب مجھے پہاڑوں سے ایک انجانا سا خوف محسوس ہونے لگا ہے۔ اس کی وجہ بہت خاص ہے۔ اور بتانا اس لئے ضروری ہے کہ بار بار دوست رابطہ کرکے دعوت دے رہے ہیں اور میں ان کو حیلوں بہانوں سے ٹال رہا ہوں۔ دراصل میرا ماں کی دعا پہ یقین اتنا پختہ ہے کہ میں یہ تو شک کرسکتا ہوں کہ صبح سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہو لیکن اس بات پہ مجھے کبھی شک نہیں رہا کہ مری ماں کوئی دعا دیگی اور وہ میرے حق میں قبول نہیں ہوگی۔ اور یہ یقین اندھا یقین نہیں ہے بلکہ اس پیچھے سینکڑوں واقعات ہیں جن میں سے صرف ایک یہاں لکھ دیتا ہوں۔
تین سال پہلے کی بات ہے ڈیرہ اسماعیل خان سے پشاور جارہا تھا وہاں سے کراچی کی فلائٹ تھی۔ اماں نے رخصت کرتے وقت گلے لگا کر ماتھا چوما اور دعا دی کہ جاو اور اس طرح استری کئے ہوئے کپڑوں میں واپس آو۔ گھر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر میری گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور حادثہ اتنا شدید تھا کہ کہ گاڑی سڑک سے پندرہ بیس میٹر کے فاصلے پر قلابازیاں کھاتے ہوئے سڑک سے نیچے گری اور آخر کار چھت کے بل ٹھہر گئی۔ میں گاڑی میں اکیلا تھا۔ جب گاڑی سے باہر نکلا ہاتھ جھاڑے اور اپنے جسم کو ٹٹولا تو مجھے خراش تک نہیں آئی تھی۔ جبکہ گاڑی کی حالت یہ تھی کہ اس میں کچھ بھی ٹھیک نہیں بچا تھا۔ ٹرک میں لاد کر واپس ڈر اسماعیل خان لے گیا۔ میں نے کپڑوں کو دیکھا تو کپڑوں کی استری تک خراب نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اماں کی دعا یاد آئی اور مسکرا دیا۔ کئی ماہ بعد جب اماں کو پتا چلا تو ناراض ہوکر کہنے لگیں کہ مجھ سے جھوٹ کیوں بولا کہ گاڑی بیچ دی۔تو میں نے جواب دیا کہ سچ پوچھیں تو غلطی ساری آپکی ہی ہے دعا ادھوری مانگی تھی۔ میری سلامتی کی دعا کی تھی گاڑی کی نہیں مانگی تھی۔ اب انہوں نے دعا میں ترمیم کردی ہے۔ اب کہتی ہیں اللہ تمہیں گاڑی سمیت سلامت لوٹائے۔ خیر بات پہاڑوں کی ہورہی تھی تو جب بھی سفر پر نکلتا ہوں اماں کی دعاوں کا سایہ سر پر ہوتا ہے۔
ہوا یوں کہ پچھلے سال سپانٹک مہم کی وڈیوز میں نے یوٹیوب پر اپلوڈ کردیں۔ وہ وڈیو بھائی نے اماں کو دکھا دیں کہ دیکھیں یہ ایسے خطرناک پہاڑوں میں جاتا ہے۔ اماں نے ہمیشہ کی طرح مجھے روکا نہیں نہ ناراضگی کا اظہار کیا اور نہ ہی جانے سے منع کیا۔ بس ایک اضافی دعا اپنی دعاوں میں شامل کردی۔ وہ اب ساتھ یہ دعا بھی مانگتی ہے کہ یا اللہ اسے پہاڑوں سے صبر آجائے۔ اب مجھے نہیں پتا صبر کا مطلب کیا ہے۔ اگر صبر کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑوں کی طرف جانے کا میرا دل ہی نہ کرے تو پھر تو دعا قبول نہیں ہوئی کیونکہ میرا دل اب بھی پہاڑوں کیلئے ویسے ہی مچلتا ہے۔ لیکن رہ رہ کر یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہوسکتا ہے اللہ نے بطور آزمائش اس دعا کی قبولیت کو بطور خاص میرے اختیار میں دے دیا ہو۔ وہ کہتا ہو کہ اب تک تمہارے حق میں تمہاری ماں کی ہر دعا میں نے لفظ بلفظ اور حرف بحرف قبول کی ہے تو اس ایک دعا کا اختیار تمہیں دے دیا ہے چاہو تو رک کر اسکی دعا کو قبول کرو یا پھر چلے جاو اور اسکی دعا کو رد کردو۔ بس اسی امتحان میں ناکامی کا ایک خوف ہے جو مجھے لگ بھگ ایک سال سے روکے ہوئے ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ اماں کے ساتھ کامیاب مذاکرات کرکے دعا میں ردو بدل کروا لوں مثلا" اس میں سطح سمندر سے اونچائی کی حد شامل کروا لوں کہ پانچ ہزار میٹر سے زیادہ اوپر جانے سے صبر آجائے۔ لیکن جب تک یہ ترمیم نہیں ہوتی میرا پہاڑوں سے خوف برقرار ہے اور فاصلہ بھی۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...