اتوار، 19 اپریل، 2020

جب ‏عزت ‏بال ‏بال ‏بچ ‏(یادیں)

۲۰۰۵ میں میں نے فیصلہ کرلیا کہ ملٹری اکاونٹس کی ملازمت چھوڑنی ہے  اور پھر شاید ہی کوئی پاکستان کا محکمہ ہو جس میں کسی ملازمت کیلئے درخواست نہ بھیجی ہو۔ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ٹیسٹ یا انٹرویو ہوتاتھا۔ اسکے بعد بینک میں آگیا اور درخواستیں بھیجنے کا سلسہ رک گیا۔ لیکن امتحان ہال کی جو ایک مخصوص سنسنی ہوتی ہے اسکا ایسا چسکا پڑا کہ یہ سلسلہ اب تک نہیں رکا۔ بینک میں آنے کے بعد انسٹیٹیوٹ آف بینکرز کے امتحانات کا سلسلہ جاری رہا۔ جب وہ ختم ہوگیا تو آن لائن پوسٹ گریجویٹ ڈپلوموں کا سلسلہ شروع ہوا دو تین ڈپلومے کرنے کے بعد بوریت ہونے لگی تو میں نے ایک اور حل نکالا۔ مختلف اداروں میں ملازمتوں کے ٹیسٹ دوبارہ دینا شروع کردیا۔ مقصد ملازمت کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ ٹیسٹ میں بیٹھنا ہوتا تھا۔ ہرمہینے این ٹی ایس کا کوئی نہ کوئی ٹیسٹ ہوتا اور میرا شوق پورا ہورہا تھا۔ ۲۰۱۲ میں ایس این جی پی ایل میں ایگزیکٹیو ایڈمن آفیسر کی آسامیوں کا اشتہار نظر آیا تو میں نے فورا آن لائن درخواست جمع کروادی یہ سوچ کر پوسٹ بڑی ہے تو ٹیسٹ بھی مشکل ہوگا مزہ آئے گا اور اگر تنخواہ اور مراعات زیادہ ہوئیں تو سونے پر سہاگہ۔ یہ براہ راست کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر آن لائن ٹیسٹ دینے کا میرا پہلا تجربہ تھا۔ جوں ہی آخری سوال کا جواب دیا سامنے سکرین پر نتیجہ سامنے آگیا میرے  سو میں سے اٹھتر نمبر تھے ۔ مجھے بڑ مایوسی ہوئی کہ اسی سے کم ہیں۔باہر نکلا تو کئی دوست ملے۔ جب انہوں نے پوچھا کہ ٹیسٹ کیساہوا تو میں نے کہا کہ بس گزارہ ہوا۔ نمبربتائے تو وہ  حیران ہوکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ مجھے شرمندگی کا احساس ہوا۔جب انکےنمبر پوچھے تو زیادہ سے زیادہ نمبر ایک دوست کے تریسٹھ تھے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ میرے نمبر کافی زیادہ ہیں  مطلب اندھوں میں کانا راجاہوں۔ کچھ دنوں بعد انٹرویو کیلئے لاہور بلایا گیا۔ مجھے کچھ زیادہ امید تو نہیں تھی لیکن لاہور کی سیر کا موقع اچھا تھا۔ اس سے پہلے میں ۲۰۰۵ میں ایڈمن آفیسر کی آسامی کیلئے ٹیسٹ پاس کرکے انٹرویو دے چکا تھا اور انٹرویو بورڈ کے پانچ ممبران نے مجھے نصف گھنٹے سے زیادہ خوب لتاڑا تھا۔ تاہم میں ناکام ہوا تھا۔ 
ان دنوں لاہور میں ڈینگی کی وبا پھیلی ہوئی تھی اور لوگ لاہور جانے سے خوفزدہ ہوتے تھے لیکن یہ خوف میرے شوق کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا تھا۔ جہاں انٹرویو کا انتظار کر رہے تھے وہاں مجھے اپنا ایم بی اے کا کلاس فیلو الیاس بھی ملا۔ وہ کسی منسٹری میں ملازمت کر رہا تھااس وقت۔ اس نے کہا کہ آپ کیوں آئے ہیں انکی تنخواہ تو آپ کی تنخواہ سے کم ہے۔ میں نے کہا آپ کیوں آئے ہیں؟ کہنے لگا میری موجودہ تنخواہ پینتیس ہزار ہے اور ایس این جی پی ایل کی تنخواہ سنا ہے ساٹھ ہزار سے اوپر ہے تو میرے لئے تو یہ اچھا موقع ہے۔ میں نے اس کی بات کو سنجیدہ نہیں لیا اور کہا کہ دیکھا جائیگا۔ جب انٹرویو شروع ہوا تو سب سے پہلا نمبر میرا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے وقت ہمیشہ کی طرح انٹرویو کا ایک مخصوص خوف اور جسم میں چیونٹیاں دوڑنے کی وہ ایک خاص کیفیت تھی جو ہمیشہ ہوتی تھی۔ لمبی میز کے پیچھے تین افراد بیٹھے  تھے اور ایک اور شخص ذرا ہٹ کر بیٹھا ہوا تھا۔ سب سے پہلے انہوں نے میرا تعارف اور تمام تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا۔ جو ہمیشہ کی طرح لکی مروت کے چھوٹے سے گائوں سے شروع ہوکر ڈیرہ سماعیل خان  اور ٹاہلی کے درخت کے نیچے قائم مکتب پرائمری سکول مشہ منصور سے شروع ہوکر مادر علمی گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان پر ختم ہوا۔ اسکے بعد انہوں نے ملازمت کےحوالے سے پوچھا تو میں نے تفصیل سے بتا دیا۔ اگلا سوال حسب معمول اکاونٹنگ، فائنانس یا اکنامکس کا  متوقع تھا لیکن بات کہیں اور نکل گئی۔ بجائے نصابی سوال کرنے کے ان میں سے ایک نے پوچھا کہ آپ ایک لاکھ بیس ہزار تنخواہ لے رہے ہیں اس وقت تو یہاں آپ کی توقعات کیا ہیں؟ میں نے کہا کم سے کم دو لاکھ یا اگر یہاں اس سے زیادہ ہے تو قابل قبول ہوگی۔ میں دل ہی دل میں ڈر رہا تھا کہ کہیں کم نہ بتا دی ہو۔ ان سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور مسکرادئیے۔ مجھے فورا اندازہ ہوگیا کہ میں نے غلطی سے کم بتادی تنخواہ اور دل ہی دل میں افسوس کرنے لگا۔ درمیان میں بیٹھے بزرگ جن کی خاص بات انکے سفید لمبے بال تھے اور ماتھا گنج پن کی وجہ سے آدھے سر تک پہنچ چکا تھا ، ناگوار سی شکل بنا کر بولے، کیا آپ کو اندازہ ہے کہ یہاں ہم کتنی تنخواہ دیتے ہیں؟میں نے کہا نہیں۔ کہنے لگے زیادہ سے زیادہ پینسٹھ ہزار اور کچھ اور ملا کر ستر ہزار تک ہو سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں۔ کیا آپ اس تنخواہ پر کام کریں گے؟ جبکہ آپ ایک لاکھ بیس ہزار پہلے ہی لے رہے ہیں۔ میں نے کہا ایک لاکھ بیس ہزار تو صرف تنخواہ ہے اس میں بونس، کیش ایوارڈ، گاڑی، گاڑی کا پیٹرول اور دوسری مراعات شامل نہیں ہے۔ وہ ملاکر اوسطا" پونے دولاکھ ماہانہ بنتے ہیں ۔ اس میں لامحالہ کچھ مبالغہ بھی شامل تھا۔ اب یکدم بزرگ کے تیور بدل گئے۔ تیوری چڑھا کر بولے، تو اسکا مطلب یہ ہواکہ آپ اس تنخواہ پر کام نہیں کرنا چاہتے؟ میں نے کہا نہیں۔ اب وہ مزید بگڑ گئے۔ کہنے لگےآپ ایک ذمہ دار پوسٹ پر تعینات ہیں۔ آپ نےدفتر سے چھٹی بھی لی۔آپ نے درخواست جمع کروائی، ٹیسٹ دیا، ڈینگی کی وبا کی وجہ سے لوگ لاہور سے بھاگ رہے ہیں آپ  انٹرویو کیلئےلاہور آئے اور آپکی سنجیدگی کا حال یہ ہے کہ آپ نے کوئی ریسرچ نہیں کی کہ یہ کس گریڈ کی جاب ہے، تنخواہ کیا ہے؟مجھے اس اچانک حملے کی ہرگز توقع نہیں تھی۔شرٹ کے نیچے کہیں ٹھنڈے پسینے کے قطرے جسم پر رینگتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ بزرگ نے ساری عزت ہاتھ میں پکڑا دی تھی اور میں بحالی ءِعزت و آبرو کی کوئی راہ تلاش کر رہا تھا۔ وہ پھر کہنے لگے کہ ہمارے کل نو گریڈ ہوتے ہیں ایک سے نو تک اور یہ گریڈ فور کی جاب ہے۔ مجھے شدید ہزیمت کا احساس ہو رہا تھا اور بدلہ لینے کے بارے میں سوچ رہا تھا اسلئے کسی گریڈ میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے ۲۰۰۵  کاانٹرویو یاد آگیا تب بھی اسی طرح ہی لتاڑا گیا تھا اور یکدم میرے ذہن میں ہر سوال کا جواب آگیا ۔ بزرگ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ، تو مسٹر خان آپ یہاں صرف نو کہنے آئے تھے؟ میں نے کہا نہیں۔ وہ سب لوگ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے۔ میں نے کہا میں کچھ اور کہنے آیا تھا۔ جی بولیں، بزرگ نے کہا اور سب میری طرف متوجہ ہوگئے۔ میں نے کہا سر آپ کو یاد ہوگا اسی دفتر میں ۲۰۰۵ میں ایڈمن آفیسر کیلئے انٹرویو ہوئے تھے اور آپ بھی اس انٹرویو پینل کے ممبر تھے۔ بولے جی ہاں۔ میں نے کہا ، سر تب میں ایڈمن آفیسر کی پوزیشن کیلئے یہاں انٹرویو دینے آیا تھا۔ اور آدھا گھنٹہ انٹرویو کرنے کے بعد آپ کے پینل نے فیصلہ یہ کیا تھا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ آپ مجھے ملازمت دے سکیں جسکی یقینا آپکے پاس وجوہات ہوں گی۔ آپ تو شاید بھول گئے ہوں گے لیکن میں نہیں بھولا۔ میں نے اپنی طرف سے مکمل تحقیقات کرلی تھیںمجھے گریڈ اور تنخواہ دونوں کا اچھی طرح سے علم تھا۔ ظاہر ہے میں نے سفید جھوٹ بولا۔ میرا مقصد یہاں ملازمت کرنا بالکل نہیں تھا صرف اس پینل کے سامنے بیٹھنا تھا۔ میں آج آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ۲۰۰۵ میں آپ نے مجھے ریجیکٹ کرکے غلطی کی تھی۔ اور اس غلطی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ایس این جی پی ایل مجھے ایفورڈ نہیں کرسکتا ۔ بس میں یہ بتانے کیلئے آیا تھا یہاں۔ میرا خود اعتمادی سے بھرپور جھوٹ بالکل نشانے پر لگا۔ وہ سب حیران ہوکر مجھے دیکھنے لگے۔ بزرگ کو میں نے ناک آوٹ کردیا تھا۔ ان کے ساتھ والے صاحب بولے کہ سات سال بعد آپ صرف یہ کہنے یہاں آئے ؟ میںنے کہا جی سر۔ بزرگ کہنے لگےیار پٹھان تو بڑے شتر کینہ ہوتے ہیں۔ آپ کا سات سال پرانا غصہ ابھی تک اترا نہیں؟ میںنے کہا سر اب اتر گیا۔ اب میں اجازت چاہوں گا۔ 
جب میں اٹھنے لگا تو میں نے ان میں سے کسی کے منہ سے سنا کہ اگلا امیدوار الیاس ہے۔ باہر آیا تو الیاس منتظر تھا۔ کہنےلگا کیا پوچھا؟ میں نے گلے لگا کر کہا مبارک ہو تم سیلیکٹ ہوگئے۔ وہ کہنے لگا بکواس نہیں کرو سوال بتاو کیا پوچھ رہے ہیں۔ میں نے کہا میرٹ لسٹ کے ترتیب سے بلا رہے ہیں۔ میرے بعد تمہاری باری ہے۔ میں انکار کر آیا ہوں تو اگر ایک سیٹ بھی ہے تو تمہاری ہے فکر نہ کرو۔ بس یہ خیال رکھنا کہ میرے گھر میں گیس کا کنکشن لگوا دینا۔ وہ بولا کنکشن چھوڑو تمہارے گھر میں میں گیس کا کنوا کھدوا دوں گا۔ اسکے بعد میں وہاں سے نکل آیا۔ ایک ماہ بعد الیاس مروت کا فون آیا۔ بہت خوش تھا کہنے لگا ابھی ابھی لیٹر ملا ہے اور میں نے ابھی اپنی ماں کو بھی نہیں بتایا پہلی کال تمہیں کی ہے کیونکہ سب سے پہلی مبارکباد تم نے دی تھی۔ الیاس ابھی تک ایس این جی پی ایل میں ملازمت کر رہا ہے لیکن وہ گیس کا کنواابھی تک اس نے نہیں کھدوایا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...