مجھے جیسے ہی اطلاع ملی کہ وہ ہسپتال میں ہے میں وقت ضائع کئے بغیر ہسپتال پہنچ گیا۔ اسکے سر پر پٹیاں تھیں اور وہ ابھی تک بے ہوش تھا۔ اسے پہلی بار اس حالت میں دیکھ کر مجھے بے اختیار رونا آگیا۔ میں ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور پیچھے سر ٹکا کر کل شام کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ کافی دنوں سے پریشان تھا اور جب بھی وجہ پوچھی تو وہ ٹال دیتا۔ کل شام اچانک اس نے کہا کہ پریشانیاں تو ہرانسان کے ساتھ ہوتی ہیں اور تمہاری بھی یقینا ہوں گی۔ میں نے کہا بالکل ہیں اور شاید بہت سے لوگوں سے بڑی بڑی پریشانیاں ہیں۔ تو وہ کہنے لگا کہ پھر تم کیسے ہروقت اتنے خوش رہ لیتے ہو۔ تمہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اس انسان کو کبھی کسی پریشانی نے چھوا تک نہیں۔ آخر کیسے کر لیتے ہو؟ سوال سنجیدہ تھا اسلئے مجھے سنجیدہ ہونا پڑا ورنہ عموما میں ایسی باتیں مذاق میں ٹال دیتا ہوں۔ میں نے کہا دیکھو لعل حسین بات یہ ہے کہ پریشانی کا تعلق جسم سے نہیں ہے۔ جسم کو جب چوٹ لگتی ہے یا دباو پڑتا ہے تو درد ہوتا ہےپریشانی نہیں۔ پریشانی کا تعلق روح کے ساتھ ہے۔ جب تمہاری روح کو تکلیف ہوتی ہے تو پریشانی ہوتی ہے۔ اور ہر پریشانی کےپیچھے کوئی نہ کوئی خو ف ہوتا ہے۔ اس نے مجھے ٹوکا اور کہنے لگا کہ چلو خوف کی بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ خوف سے پریشانی جنم لیتی ہے لیکن یہ کیا بات ہوئی مطلب اگر کوئی میرے سر پر بندوق رکھے تو میں پریشان ہوں گا حالانکہ یہ ہم جانتے ہیں کہ بندوق روح کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی وہ صرف جسم کو نقصان پہنچا سکتی ہے تو پھر پریشانی کیوں ہوتی ہے؟میں نےکہا سیدھی سی بات ہے جسم روح کی سواری ہے۔ جسم کے بغیر روح اس دنیا میں نہیں رہ سکتی۔ اسلئے روح کو جب بھی یہ خوف محسوس ہو کہ اسکی سواری کو کوئی نقصان پہنچنے والا ہے تو یہ خوف روح کو پریشان کردیتی ہے۔ اس نے اب آنکھیں بند کرکے سر اثبات میں ہلانا شروع کردیا گویا بات اسکی سمجھ میں آگئی۔ میں نے کہا دیکھو یہ جسمانی تکالیف کا خوف جزوقتی ہوتا ہے اور جوں ہی وہ خطرہ ٹل جاتا ہے خوف بھی ٹل جاتا ہے اور پریشانی بھی ختم ہوجاتی ہے اسلئے یہ پریشانیاں اتنی نقصاندہ نہیں ہوتی ہیں۔ جو پریشانیاں زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں وہ وہ پریشانیاں ہیں جو کل وقتی ہوتی ہیں جن کا تسلسل نہیں ٹوٹتاایک لمحے کے لئے بھی ۔ اور یہی وہ پریشانیاں ہوتی ہیں جو بعض اوقات آپکے اعصاب کو توڑ دیتی ہیں اور بعض لوگ اس تسلسل کو توڑنے کیلئے منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں یا مستقل نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور جتنا میں نے مطالعہ کیا ہے اسکے مطابق پریشانیوں کی سب سے بڑی وجہ راز رکھنا ہے۔ جب ہم بہت سی ایسی باتیں جو درحقیقت چھپانے والی نہیں ہوتیں ہم چھپانے لگتے ہیں ۔ مثلا آپ غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن امیر ہونے کے بعد آپ اس بات کو چھپاتے ہیں ، آپ کسی چیز کے بارے میں لاعلم ہیں لیکن آپ اسکے بارے میں علمیت کا دعویِ کرتےہیں یا آپ نے کوئی ایسا کام کیا جو گناہ بھی نہیں لیکن چونکہ معاشرے میں اسکو برا سمجھا جاتا ہے تو آپ اسکو چھپاتے رہتے ہیں۔ اب یہ ایسی باتیں ہیں جن کا چھپانا بنتا ہی نہیں لیکن ہم ایسی بہت ساری چھوٹی چھوٹی باتوں سے اپنی روح کو بوجھل کردیتے ہیں اور اسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت ساری چھوٹی چھوٹی لیکن مسلسل پریشانیاں مل کر ایک بڑی پریشانی بنالیتی ہیں۔ کبھی آپ نے صحرا میں بگولا دیکھا ہے؟ یہ بگولا یکدم اتنا بڑا نہیں بنتا ۔ بہت سارے چھوٹے چھوٹے بگولےبنتے ہیں اسکے بعد یہ بگولے آپس میں ملتے جاتے ہیں اور ایک بڑے بگولے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں جو آبادی کی طرف جائے تو گھروں کی چھتیں اڑا کر لے جاتا ہے اور درخت زد میں آجائیں تو انہیں جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے۔
میری سوچوں میں اسکے کراہنے کی آواز نے رخنہ ڈالا۔ میں نے دیکھا تو وہ آنکھیں کھول کر چھت کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے اسکا ہاتھ تھاما اور پوچھا کیسے ہو؟ اس نے منہ دوسری طرف پھیر دیا۔ میں نےکہا کچھ بتاو تو ہوا کیا ایکسیڈنٹ کیسے ہوا؟ اس نے کہا کونسا ایکسیڈنٹ؟ مجھے پریشانی لاحق ہوگئی کہ چوٹ کی وجہ سے شاید یاد داشت چلی گئی ہے۔ میں نے کہا سر پہ چوٹ کیسے لگی؟ میرے اس سوال پر وہ پھٹ پڑا اور غصے سے دانت پیستے ہوئے بولا تمہاری وجہ سے ہوا سب کچھ۔ میری وجہ سے ؟ وہ کیسے؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ کل جو تم نے پتا نہیں درد اور روح اور پریشانی کے بارے میں جو ایک گھنٹہ بکواس کی تھی بھول گئے ہو کیا؟ اس نے غصے سے پھنکارتے ہوئےکہا۔ ان باتوں سے تمہارے سر پھٹنے کا کیا تعلق؟ میں نے حیران ہوکر پوچھا۔ کہنے لگا کل رات بھر میں تمہاری باتوں کے بارے میں سوچتا رہا اور باتیں میرے دل کو لگی تھیں۔سونے سے پہلے میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اب مزید راز نہیں رکھوں گا۔ صبح بیگم کچن میں ناشتہ بنا رہی تھیں مجھ سے صبر نہیں ہوا اسلئے وہیں جاکر اسے سچ سچ بتا دیا کہ میں نے تم سے چھپ کر دوسری شادی کی ہوئی ہے اور میں تمہیں مزید اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ اسکے بعد میں نے بیلن ہوا میں اٹھتے دیکھا اور اسکے بعد اب میری تمہارے سامنے آنکھ کھلی ہے۔ بات کرتے کرتے اسکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ مجھے اس پر ترس آنے لگا، میں نے کہا دیکھوہر کام کے کچھ بنیادی اصول۔۔۔۔۔ ابھی میں اتنا ہی کہ پایا تھاکہ اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور پھر ایسے ہاتھ جوڑ کر عاجز صورت بنائی جیسے مندر میں کوئی پجاری مورتی کے آگے ہاتھ جوڑ کر عاجزی سے کھڑا ہوتا ہے اور کہنے لگا، خدا کیلئے اب مزید کوئی فلسفہ نہیں۔ اب تک کسی پریشانی نے میرے سر میں بیلن نہیں مارا اور میں ہسپتال نہیں پہنچا، مجھے اپنی پریشانیوں کے ساتھ جینے دوتمہیں خدا کا واسطہ۔ میں خاموشی سے اٹھ کردروازے کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے فلسفے کے کسی نئے طالبعلم کی تلاش تھی جسکی پریشانی حل طلب ہو۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں