منگل، 28 اپریل، 2020

معافی

وہ سر جھکا کر اور ہاتھ جوڑ کر کھڑا تھا معافی مانگ رہا تھا۔ بولا معاف کردو۔ مجھے شدید غصہ آیا، میرا بدن غصے سے کانپنے لگا مجھے اس کی شکل سے نفرت ہورہی تھی۔ حقارت سے تھوک کر میں نے کہا، تمہیں لگتا ہے کہ میں کبھی تمہیں معاف کرسکتا ہوں؟ اس نے ہاتھ جوڑے اور عاجزی سے کہا، غلطی ہوگئی ہے معاف کردو۔ مجھے وہ بہت حقیر لگا۔ اچانک مجھے لگا جیسے میرا وجود پھیلنے لگا ہے میرا قد بڑھنے لگا ہے۔ میرا وجود بڑا ہوگیا بہت بڑا۔ اونچائی سے وہ بہت چھوٹا اور مزید حقیر لگنے لگا تھا۔ مجھے اپنا آپ بہت طاقتور لگنے لگا تھا۔ خدا کی طرح طاقتور یا پھر شاید میں ہی خدا تھا؟ خدا بھی تو طاقتور ہی ہوتا ہے۔ وہ معافی کیلئے گڑگڑا رہا تھا اور میرا دل کر رہا تھا اس حقیر سے کیڑے مکوڑے کو یہیں پاوں تلے مسل دوں۔ میں طاقتور تھا میں اپنے اندر خدائی طاقت محسوس کر رہا تھا۔ ہاں خدا۔ لیکن خدا تو معاف کرتا ہے۔ وہ توبہ کرنے والے کو سزا نہیں دیتا دھتکارتا نہیں پھر میں کیسے خدا ہوسکتا ہوں۔ اچھا تو میں خدا نہیں ہوں واقعی؟ پھر وہ طاقت و جسامت وہ غرور؟ وہ سب وہم تھا؟ مطلب خدا انسان سے بالکل ۔مختلف ہے؟ وہ طاقتور ہوتے ہوئے بھی معاف کردیتا ہے؟ پھر ہم خدا کو اپنی طرح کیوں سمجھتے ہیں؟ تنگ نظر، کینہ پرور، بات بات پر توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو کرنے والا۔
ہم خدا نہیں تو خدا کو خدا ہی کیوں نہ رہنے دیں، محبت کرنے والا بخشنے مہربان اور معاف کرنے والا۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...