بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ مولوی حضرات خشک مزاج اور ترش رو قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور ہنسی مذاق سے انکا دور دورتک کوئی واسطہ نہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر چہ عوام کے سامنے وہ بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور شاید یہ اس مقام کا تقاضا بھی ہے لیکن اگر آپ ان کےقریبی حلقے میں شامل ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ داڑھی پگڑی والے لوگوں کے حس مزاح کا معیار بہت بلند ہے۔ میں چونکہ غیر اعلانیہ مولوی ہوں اسلئے میرے بہت سے مولوی بہت قریبی دوست ہیں۔ ایسے ہی ایک مولوی دوست کے ساتھ جارہا تھا کہ راستے میں ایک حاجی صاحب نے آواز دیکر روک لیا۔ قریب آکر حاجی صاحب نے مولوی صاحب سے درخواست کی کہ حضرت ہمارے پیش امام کی سرکاری نوکری لگ گئی ہے اور اب انکے لئے ممکن نہیں کہ وہ امامت کرسکیں تو ہمیں امام مسجد چاہئے۔ مولوی صاحب نے کہا ٹھیک ہے میں بندوبست کردیتا ہوں آپ فکر نہ کریں۔ حاجی صاحب فرمانے لگے کہ آج کل اکثر لوگوں کے عقائد خراب ہیں تو کوشش کریں کہ صحیح العقیدہ ہو. مولوی صاحب نے کہا کہ ایسا ہی ہوگا انشاء اللہ۔ اس کے بعد کہنے لگے کہ کوشش کیجئے مستند عالم دین ہو اور مدرسے کا سندیافتہ ہو۔ مولوی صاحب نے ایک بار پھر بڑے تحمل سے جواب دیا کہ انشاء اللہ عالم فاضل ہوگا۔ حاجی صاحب نے پھر فرمائش کی کہ حضرت دیکھئے گا کہ حافظ قرآن بھی ہو کیونکہ ماہ رمضان میں تراویح میں ختم قرآن کا پھر مسئلہ ہوتا ہے۔ مولوی صاحب نے پھر کہا کہ حافظ بھی ہوگا۔ اب مولوی صاحب بھی اکتا چکے تھے جانے کیلئے حرکت کرنے لگے تو حاجی صاحب نے کہا کہ ذرا دیکھئے گا کہ خوش آواز قاری ہو نماز میں اچھی قرات سننا اچھا لگتا ہے۔ مولوی صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ حاجی صاحب فکر نہ کریں انشاءاللہ بندہ آپکے ہر معیار پر پورا اترے گا۔ یہ کہہ کر ہم چلنے لگے تو پیچھے سے آواز دے کر حاجی صاحب نے کہا کہ حضرت دیکھئے گا ذرا خوش شکل اور خوش لباس مولوی ڈھونڈنا ہے۔ اس پر مولوی صاحب یکدم رک کر پیچھے مڑے حاجی صاحب کے قریب گئے اور کہا کہ حاجی صاحب ایک بات تو بتائیں۔ حاجی صاحب متوجہ ہوئے تو مولوی صاحب بولے کہ یہ بتائیں آپ نے مولوی صاحب سے امامت ہی کروانی ہے نا؟ حاجی صاحب حیران ہوکر بولے جی جی امام ہی چاہئے کیوں آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ مولوی صاحب مسکرا کرکہنے لگے، بس ذرا اپنی تسلی کیلئے پوچھا کیونکہ آپ نے جتنی خوبیوں کی فرمائش کی ہے مجھے لگا آپ نے بچے نکلوا کر نسل بڑھانی ہے اسکی۔ یہ کہہ کر وہ اسی مسکراہٹ کے ساتھ واپس پلٹے اور میں سارا رستہ ہنسی سے لوٹ ہوتا رہا۔
سیف اللہ خان مروت
(یہ 1997 کا ایک حقیقی واقعہ ہے)
اس بلاگ کا بنیادی مقصد تو میری کی ہوئی سمع خراشی کو یکجا کرنا تھا۔ ماضی میں جتنا یہاں وہاں، ادھر اُدھر لکھا اس کے یا تو بچوں نے جہاز بنا کر اڑادئیے یا ردی کی نذر ہوگئے۔ چینی زبان کا ایک مقولہ ہے کہ پھیکی سے پھیکی روشنائی اچھے سے اچھے حافظے سے بدرجہا بہتر ہے۔ لیکن روایتی کاغذ اور روشنائی کی وجہ سے بہت سا کام ضائع کرچکا ہوں اسلئے یہ طریقہ آزما رہا ہوں۔ دعا گو ہوں کہ اب کی بار ای میل کا پاس ورڈ نہ بھول جائے۔ تنقید و اصلاح کی مکمل آزادی ہے۔
ہفتہ، 11 اپریل، 2020
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...

-
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے شاید اب بھی ترا غم دل سے لگا رکھا ہو ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا...
-
آج بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے چہرے کو دیکھتے ہی میرا موڈ بھانپ گئے۔ پوچھنے لگے خیریت ہے آج تیور کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہیں۔ میرے ن...
-
کیا آپ نے کبھی کوزہ گر کو کام کرتے ہے دیکھا ہے؟ وہ مٹی کو بہت پیار سے گوندتا ہے اس کی صفائی کرتا ہے اور پھر اس مٹی کا برتن بنانا شروع ک...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں