ہماری ایک خوبی کی دنیا معترف ہے اور وہ ہے اچھا مشورہ دینا۔ موٹر سائیکل کی بتی جلتی رہ گئی تو سارا راستہ لوگ ہاتھ کی انگلیاں کھول بند کرکے اشارے سے بتائیں گے کہ بھائی بتی بند کرو۔ اگر سٹینڈ اٹھائے بغیر موٹر سائیکل سڑک پر نکال لائے تو آدھا شہر "او بھائی گھوڑی اٹھالے" کی آوازیں دیتا رہے گا۔ اور اگر پیچھے بیٹھی باجی کا دوپٹہ نیچے لٹک رہا ہو تو لوگ پیچھے دوڑ دوڑ کر اور روک روک کر درست کرواتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ جن کو مشورہ دیا جاتا ہے وہ مانتے بھی ہیں۔ انہی باتوں کو دیکھ کر بہبود آبادی والوں کو حوصلہ ملتا ہے کہ کسی دن ہمارے مشوروں پر بھی لوگ عمل کر رہی لیں گے گو کہ اب تک تو معاملہ اسکے برعکس ہے۔
خیر آمدم بر سر مطلب میں یہاں تازہ ترین قومی مشورے کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ کل ملاکر مجموعی طور پر جب ایک ہزار سات سو تیرہ خیر خواہوں کی طرف سے یہ پیغام ملا کہ سال 2020 میں تاریخ لکھتے وقت سال 20 کی بجائے پورا 2020 لکھیں ورنہ بڑا نقصان ہوسکتا ہے تو ہم نے ممکنہ نقصانات پر غور کرنا شروع کیا۔ پتا چلا واقعی بڑے بڑے نقصانات ممکن ہیں۔ ذرا سوچیں اگر یکم جنوری 2020 کو آپ کا بچہ پیدا ہوجائے اور آپ تاریخ لکھتے وقت سال 20 لکھیں اور دو دن بعد آپ گھر آئیں تو گھر میں جوان منڈا پھر رہا ہو اور پوچھنے پر بولے کہ ابا حضور میں آپ کا فرزند ارجمند ہوں اور آپ کی بے احتیاطی کی وجہ سے دو دن بعد ہی میں انیس سال اور دو دن کا ہوگیا ہوں کیونکہ آپکی لاپرواہی کی وجہ سے تاریخ پیدائش میں بیس کے بعد کسی نے 01 لگا کر 2001 کردیا۔ اب ایسے نابالغ اور قبل ازوقت بالغ بچے کا آپ کیا کریں گے؟ سوائے صحافی بنانے کے اور اسکا کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ایسے لوگ نابالغ میڈیا میں چل جاتے ہیں کہیں اور نہیں۔ اسی طرح نکاح نامے میں 20 کو 2001 کرکے اگر ساس نے بیوی کی طرف سے یہ کہہ کر خلع کی درخواست دائر کردی کہ داماد نامرد ہے انیس سال ہوگئے لیکن بٹیا کی گود ہری نہیں ہوئی تو کیا ہوگا؟ نقصان تو ہوگیا نا؟
تو جناب مشورہ دینے والوں کا مشورہ مانئے اور ایک سال چوکنے رہئے۔
(سیف اللہ خان مروت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں