جمعرات، 30 اپریل، 2020

ناک ‏آوٹ ‏ضرب

کل میں نے اماں کی دعاوں کے حوالے سے کچھ لکھا تھا تو کئی دوستوں کے پیغامات موصول ہوئے کہ جو تجربات ہیں ان سے متعلق واقعات کے بارے میں لکھیں۔ تو اس حوالے سے ایک واقعہ بیان کردیتا ہوں۔
اماں جان نے کبھی کسی کام سے نہیں روکا۔ یہاں تک کہ جب میں سگرٹ پیتا تھا تو سگرٹ سے بھی نہیں روکا کبھی۔ لیکن ایک بات پر انہیں اعتراض رہا ہے اور وہ ملک سے باہر جانے پر۔ نیشنل بنک افغانستان میں کچھ اسامیاں خالی تھیں تو میں نے بھی درخواست بھیج دی یہ سوچ کر کہ اماں کو منا لوں گا۔ وجہ یہ تھی کہ افغانستان میں تنخواہ بہت زیادہ تھی اور میرا خیال تھا کہ تین سال یا کچھ زیادہ عرصہ وہاں گزار کر ملازمت چھوڑ دوں گا۔ ٹیسٹ لیا گا جو بہت اچھا ہوا۔ انٹرویو کیلئے بلایا گیا اور انٹرویو پینل میں بینک کے صدر آصف بروہی اور گروپ چیف صاحبان تھے۔ چالیس منٹ کا انٹرویو ہوا اور بہت اچھا ہوا۔ مجھے یقین تھا کہ میں نہ صرف انٹرویو پینل کو متاثر چکا ہوں بلکہ میرا انتخاب بھی ہوچکا ہے۔ واپس گھر آکر جب اماں سے پوچھا کہ دعا کی تھی تو کہنے لگیں کہ خصوصی دعا کی تھی۔ پھر اماں نے پوچھا کہ یہ کس چیز کا انٹرویو تھا؟ جب بتایا کہ افغانستان کیلئے تھا تو خاموش ہوگئیں۔ اس انٹرویو کا نتیجہ آج تک نہیں نکلا اور سرے سے غائب ہوگیا۔ ایک سال بعد دوبارہ اعلان ہوا تو میں نے سرے سے درخواست ہے نہیں بھیجی کیونکہ مجھے پتا تھا میں امی کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتا۔ جو لوگ پچھلے سال میرے ساتھ انٹرویو میں تھے وہ سب لوگ منتخب ہوکر افغانستان چلے گئے۔ دو سال بعد پھر ٹرانسفر پوسٹنگ ہورہی تھی تو افغانستان میں تعینات ایک دوست نے بالخصوص رابطہ کیا اور کہا کہ درخواست اس بار ضرور بھیجنا یہاں کے جی ایم صاحب نے خود کہا ہے کہ اس سے کہو درخواست بھیجے تم آسانی سے آجاوگے۔ میں نے کہا کہ امی راضی نہیں ہیں باہر جانے پہ اسلئے میں نہیں جاسکتا۔ اس نے اصرار کیا کہ اماں کو راضی کرلو تم سے باتوں میں کون جیتے سکتا ہے کوشش تو کرو۔ میں نے کہا ٹھیک ہے کوشش کرتا ہوں۔ شام کو گھر آکر کپڑے بدلے اور اماں کے ساتھ بیٹھ گیا اور ٹانگیں دبانا شروع کیا۔ کافی دیر تک دباتا رہا تو اماں نے کہا کہ بس کردو تم خود دن بھر کے تھکے ہوئے آئے ہو۔ میں اسی موقعے کی تلاش میں تھا فورا" کہا کہ امی بینک کا کام ہے تو تھکانے والا دس دس گھنٹے کام کرنا پڑتا ہےبندہ تنگ آجاتا ہے۔ بس کہیں سے تین چار کروڑ روپے مل جائیں تو کوئی زرعی زمین لیکر بندہ کھیتی باڑی کرے، گائیں بھینسیں، بھیڑ، بکریاں اور گھوڑے پالے اور سکون سے رہے۔ امی کو جانوروں سے بہت محبت ہے اسلئے میں نے دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا۔ اماں کہنے لگیں کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن اتنے پیسے آئیں گے کہاں سے ڈاکہ ڈالوگے؟ میں نے کہا طریقہ تو بہت آسان ہے افغانستان بلا رہے ہیں اگر چلا جاوں تو تین سال میں اتنے پیسے آسانی سے جمع ہوسکتے ہیں اور تین سال تو پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔ میں نے اپنی طرف سے ترپ کا پتا پھینک دیا تھا۔ اماں اٹھ کر بیٹھ گئیں اور پوری طرح متوجہ ہوئیں۔ میں دل ہی دل میں خوش رہا تھا کہ میرے تیر ٹھیک نشانے پہ لگ رہے ہیں۔ کہنے لگیں تین سال بہت لمبا عرصہ نہیں؟ میں نے کہا امی تین سال تو یوں گزر جاتے ہیں اور پھر افغانستان کونسا دور ہے یہی پشاور کے پاس ہی تو ہے بندہ مہینے میں دو چکر لگا سکتا ہے گھر کے۔ اماں کہنے لگیں کہ نہیں تین سال بہت زیادہ ہیں میں اس سے بھی آسان طریقہ بتاتی ہوں اگر تم چاہو تو۔ میں نے کہا بتائیں۔ کہنے لگیں کہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کے بچے نہیں ہوتے اور ان کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اگر تم محمد (میرے بیٹے کا نام ہے) کو بیچ دو تو چار پانچ کروڑ میں بک جائیگا۔ اور محمد سمجھدار ہے تین چار سال میں واپس بھی آجائیگا۔ میں نے کہا امں کیا کہہ رہی ہیں پیسے کیلئے کوئی بچے بیچتا ہے بھلا؟ اماں کہنے لگیں کہ مجھے کیا پتا ہے تم میرا بیٹا پیسوں کیلئے بیچ رہے تھے تو مجھے لگا شاید پیسے کیلئے لوگ بچے بیچنے لگے ہیں۔ اماں نے مجھے ایسا لاجواب کردیا کہ میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا۔ اگلے دن دوست کو پیغام بھیجا کہ بھائی آپ کے مشورے پر عمل کرکے اماں کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن اماں نے پہلے ہی راونڈ میں Knockout Punch مار کر چاروں شانے چت کردیا۔ اسکے بعد کبھی بیرون ملک تعیناتی کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ ہاں البتہ تعلیم کے لئے جانے کی کوشش کی تھی جس کی الگ کہانی ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...