جولائی ۲۰۱۷ میں سکردو سے گلگت جاتے ہوئے استک نالے پر ہم لینڈ سلائیڈنگ میں پھنس گئے تھے۔ رات گئے وہیں ایک بڑے پتھر پر بیٹھا پہاڑوں کے پیچھے سے چاند نکلنے کا نظارہ کر رہا تھا۔ اس وقت جو ذہن میں آیا لکھ دیا۔ یہ تکنیکی اعتبار سے غزل تو نہیں کہلائی جائے شاید لیکن جو کچھ بھی ہے آپ کی نذر ہے۔
سامنے دریا تھا میرے پشت پہ کوہسار تھے
میں تھا تنہائی تھی زلف یار تھی رخسار تھے
تیری ہمراہی میں باقی سب خیال بے کار تھے
ہے حسیں امروز جب تو فکر فردا کیوں کروں
کس قدر بے معنی سے واعظ کے سب اصرار تھے
دائیں جانب چاند تھا بائیں طرف تیرا جمال
اک ذرا سی چاندنی باقی تیرے انوار تھے
اسکی خواہش تھی کوئی ایک شعر اسکے نام ہو
وہ مگر عنواں رہا جتنے میرے اشعار تھے
میں کہاں شاعر تھا لفاظی مجھے آتی نہ تھی
مجتمع اس نے کئے بکھرے میرے افکار تھے
سیف نا سجھی تیری تھی اسکو نہ الزام دو
اس کے ہر انکار میں پوشیدہ سو اقرا ر تھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں