جمعہ، 19 اکتوبر، 2018

مقید

جولائی ۲۰۱۷ میں سکردو سے گلگت جاتے ہوئے استک نالے پر ہم لینڈ سلائیڈنگ میں پھنس گئے تھے۔ رات گئے وہیں ایک بڑے پتھر پر بیٹھا پہاڑوں کے پیچھے سے چاند نکلنے کا نظارہ کر رہا تھا۔ اس وقت جو ذہن میں آیا لکھ دیا۔ یہ تکنیکی اعتبار سے غزل تو نہیں کہلائی جائے شاید لیکن جو کچھ بھی ہے آپ کی نذر ہے۔

سامنے  دریا   تھا   میرے   پشت  پہ کوہسار تھے 
میں تھا تنہائی تھی  زلف   یار  تھی  رخسار  تھے
 تیری  ہمراہی  میں  باقی  سب  خیال بے کار تھے
ہے حسیں امروز  جب  تو  فکر  فردا  کیوں  کروں
کس قدر بے معنی سے واعظ کے سب اصرار تھے
دائیں   جانب   چاند   تھا   بائیں  طرف   تیرا   جمال 
اک   ذرا  سی   چاندنی    باقی    تیرے  انوار  تھے 
اسکی خواہش تھی کوئی  ایک  شعر  اسکے  نام  ہو
وہ  مگر   عنواں   رہا  جتنے   میرے   اشعار  تھے
میں کہاں شاعر   تھا   لفاظی   مجھے   آتی  نہ  تھی
مجتمع  اس  نے  کئے  بکھرے  میرے  افکار  تھے
سیف  نا   سجھی   تیری   تھی   اسکو  نہ  الزام  دو
اس  کے  ہر  انکار  میں  پوشیدہ  سو  اقرا ر   تھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...