جانے کیا کیا دبا ہے سینے میں
دل نہیں لگ رہا ہے جینے میں
میں کہ خود میں نہیں رہا باقی
پھر بھلا حرج کیا ہے پینے میں
وہ بھی رویا لپٹ کے ساحل سے
چھید کرکے میرے سفینے میں
سخت جانی پہ میری حیراں ہے
جان کتنی ہے آبگینے میں
کھا کے تن پر ہزار ہا ضربیں
سنگ تب ڈھل گیا نگینے میں
تو نہیں پیش آئینہ لیکن
عکس باقی رہا آئینے میں
چھوڑئیے ضد یہ زخم سی دیجئے
عار ہی کیا ہے زخم سینے میں
سیف اللہ خان مروت
چھوڑئیے ضد یہ زخم سی دیجئے
عار ہی کیا ہے زخم سینے میں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں