رات ساڑھے تین کا وقت تھا۔ میری نظر گھڑی پر پڑی تو فوراً لیپ ٹاپ بند کیا اور جلدی سے بستر میں گھس کر سونے کی کوشش کرنے
لگا۔ خیالات کا ایک ہجوم سونے نہیں دے رہا تھا۔ باہر تیز ہوا چل رہی تھی اور دور سے بادل گرجنے کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ نہ جانے کب میری آنکھ لگی اور میں سوگیا۔
اچانک میری آنکھ کھلی۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ بادل اب زور سے گرج رہے تھے۔ مجھے عجیب سی بے چینی ہورہی تھی۔ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ سر میں درد ہورہا تھا۔ بجلی چمکتی تو میں اسکی روشنی میں کمرے کا جائزہ لے لیتا لیکن کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ انجانے خوف سے میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اچانک بجلی زور سے چمکی اور مجھے ہال کی کھڑکی پر ہیولا سا نظر آیا۔ اس کے بعد بجلی کی چمک میں میں اس ہیولے کو دیکھنے لگا۔ وہ کبھی دائیں اور کبھی بائیں حرکت کر رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی کمرے میں جھانکنے کی کوشش کر رہا ہو۔ مجھے اپنی ہتھیلیوں پر پسینے کی بوندیں محسوس ہونے لگیں۔ چونکہ میرا گھر قبرستان کے بالکل سامنے ہے اور اس گھر میں آنے کے بعد پتا چلا تھا کہ یہ گھر اکثر خالی رہتا ہے کیونکہ اس میں جن بھوتوں کا ٹھکانہ ہے۔ میں یہ تعین کرنے کی کوشش میں تھا کہ یہ کوئی جن بھوت ہے روح یا پھر چور۔ پھر یہ سوچ کر کہ جن بھوت تو بند دروازے سے اندر آسکتے ہیں یہ کوئی چور ہی ہوگا۔ اب میں یہ سوچ رہا تھا کہ چور اگر آیا ہے تو خالی ہاتھ تو نہیں آیا ہوگا کوئی نہ کوئی اسلحہ اسکے پاس ضرور ہوگا۔ ہوسکتا ہے وہ ایک سے زیادہ ہوں۔ میرے پاس لے دے کےایک لاٹھی تھی۔ پہلے میں نے سوچا کہ آرام سے سو جاؤں لیکن پھر سوچا کہ نہیں اس سے چوروں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ میں نے اندھیرے میں ٹٹول کر لاٹھی اٹھائی اور دبے پاؤں کمرے سے نکل کر ہال میں آگیا۔ ہال کے دروازے کے قریب پہنچ کر کانپتے ہاتھوں سے کنڈی کھولنے لگا۔ کنڈی بہت آہستہ آہستہ کھولی جس سے کوئی کھٹکا نہیں ہوا۔ میں نے دروازے سے باہر جھانکا جہاں کھڑکی کیساتھ ہیولا نظر آیا تھا۔ میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ جو کچھ بھی تھا انسان نہیں تھا۔ کمر کے قریب دھڑ ختم ہوگیا تھا۔ اسکی ٹانگیں نہیں تھیں ایسا لگ رہا تھا وہ ہوا میں معلق ہے۔ میں آہستہ سے پیچھے ہٹ کر دروازے کی اوٹ میں کھڑا ہوگیا۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اسکا کیا کیا جائے کہ اچانک بجلی بہت زور سے چمکی اور مجھے لگا بھوت نے حملہ کردیا۔ میں نے غیر ارادے طور پر اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔ جب بادل گرجا تو احساس ہوا کہ بجلی چمکی ہے۔ اب اور کیا کیا جاسکتا تھا میں گھر میں اکیلا اور بھوت کھڑکی کے پار منتظر۔ میں آیت الکرسی پڑھ کر خود پر پھونک دی۔ اب کچھ حوصلہ ملا۔ میں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، دیکھو تم جو کوئی بھی ہو ہم چھ مہینے سے ادھر اکیلے رہ رہے ہیں کبھی ایکُدوسرے کو پریشان نہیں کیا تم مہربانی کرو اپنا راستہ لو۔ ہمارا کوئی جھگڑا نہیں۔ پھر میں نے جھانک کر دیکھا تو ہیولا بہت موٹا ہوتا نظر آیا۔ میں واپس اوٹ میں چھپ گیا۔ ایک بار پھر ہمت کرکے کہا، دیکھو میں صلح پسند انسان ہوں آپ نے ادھر رہنا ہے بے شک اوپر کی منزل میں رہ لیں مجھے اوپر والا پورشن نہیں چاہئے لیکن ہریشان نہ کرو۔ جیسے ہی میں نے یہ بات کی کھٹاک کی آواز آئی جیسے کچھ گرا ہو۔ میں نے جھانک کر دیکھا تو ہیولا غائب تھا۔ میں نے سکھ کا لمبا سانس لیا۔ ہاتھ بڑھا کر لائٹ جلائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ جو شرٹ میں نے کھڑکی کے گرِل پر سوکھنے کیلئے لٹکائی تھی وہ ہنگر سمیت نیچے گری پڑی تھی۔ شرٹ اٹھا کر میں اندر آگیا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں