اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
یہ شعر کچھ عرصہ پہلے میرے بہت ہی عزیز دوست ذیشان رشید کی دیوار پہ دیکھا۔ دل تو کر رہا تھا کہ وہیں تبصرہ کردوں لیکن ملاقات ہوئے کافی عرصہ ہوگیا اور آخری ملاقات اتنی مختصر تھی کہ تشنگی باقی رہ گئی اور مجھے باقاعدہ گستاخی کا موقع نہیں مل سکا۔ ایسا بھی نہیں کہ میں فطرتا گستاخ ہوں لیکن ذیشان بھائی واحد بزرگ دوست ہیں جن کی شان میں میں گستاخی باقاعدہ کرتا ہوں باقیوں کی شان میں مجھ سے گستاخی ہوجاتی ہے۔ بسا اوقات یہ خود فرمائش کرکے گستاخی کرواتے ہیں۔ اگر دو گستاخیوں کا درمیانی وقفہ بڑھ جائے تو وہ نہ صرف اسکو میری صحت بلکہ نیت کی خرابی بھی سمجھنے لگتے ہیں۔ اس شعر کے حوالے سے اعتراضات تو مجھے ہمیشہ سےرہے ہیں لیکن ذیشان بھائی نے جب اپنی دیوار پر پوسٹ کیا تو میرے لئے دعوت کی بجائے ایک حکم کا درجہ رکھتا تھا کہ اس پر تفصیلی تبصرہ کروں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ محبت کوئی گائے بھینس یا بکری تو ہے نہیں کہ پالنے کے بعد آپ کو بہت سارے دوسرے فوائد کیساتھ دودھ بھی دینے لگ جائے۔ محبت کرکے کسی فائدے کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسے شیر پال کر اس سے دودھ دوھنےکی بھی توقع رکھی جائے۔ اور پھر محبت کا انجام کونسا کوئی ڈھکا چھپا ہے؟ محبت زیادہ سے زیادہ دو ہی صورتوں پر منتج ہوسکتی ہے یا تو ناکام ہوکر شادی ہوجاتی ہے یا پھر کامیاب ہوکر جدائی۔ اور رونا دونوں صورتوں میں لازم ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اوّل الذکر صورت میں چھپ کر اور چپکے چپکے رونا پڑتا ہے اور مؤخرالذکر صورت میں ببابگ دہل اورسر عام۔
یہ شعر کچھ عرصہ پہلے میرے بہت ہی عزیز دوست ذیشان رشید کی دیوار پہ دیکھا۔ دل تو کر رہا تھا کہ وہیں تبصرہ کردوں لیکن ملاقات ہوئے کافی عرصہ ہوگیا اور آخری ملاقات اتنی مختصر تھی کہ تشنگی باقی رہ گئی اور مجھے باقاعدہ گستاخی کا موقع نہیں مل سکا۔ ایسا بھی نہیں کہ میں فطرتا گستاخ ہوں لیکن ذیشان بھائی واحد بزرگ دوست ہیں جن کی شان میں میں گستاخی باقاعدہ کرتا ہوں باقیوں کی شان میں مجھ سے گستاخی ہوجاتی ہے۔ بسا اوقات یہ خود فرمائش کرکے گستاخی کرواتے ہیں۔ اگر دو گستاخیوں کا درمیانی وقفہ بڑھ جائے تو وہ نہ صرف اسکو میری صحت بلکہ نیت کی خرابی بھی سمجھنے لگتے ہیں۔ اس شعر کے حوالے سے اعتراضات تو مجھے ہمیشہ سےرہے ہیں لیکن ذیشان بھائی نے جب اپنی دیوار پر پوسٹ کیا تو میرے لئے دعوت کی بجائے ایک حکم کا درجہ رکھتا تھا کہ اس پر تفصیلی تبصرہ کروں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ محبت کوئی گائے بھینس یا بکری تو ہے نہیں کہ پالنے کے بعد آپ کو بہت سارے دوسرے فوائد کیساتھ دودھ بھی دینے لگ جائے۔ محبت کرکے کسی فائدے کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسے شیر پال کر اس سے دودھ دوھنےکی بھی توقع رکھی جائے۔ اور پھر محبت کا انجام کونسا کوئی ڈھکا چھپا ہے؟ محبت زیادہ سے زیادہ دو ہی صورتوں پر منتج ہوسکتی ہے یا تو ناکام ہوکر شادی ہوجاتی ہے یا پھر کامیاب ہوکر جدائی۔ اور رونا دونوں صورتوں میں لازم ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اوّل الذکر صورت میں چھپ کر اور چپکے چپکے رونا پڑتا ہے اور مؤخرالذکر صورت میں ببابگ دہل اورسر عام۔
ادب کو شاید ادب اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ مختلف چیزوں کو بڑے پرکشش نام دے دیتا ہے مثلاً رونے دھونے کو اگریہ و زاری، اپنے کپڑے خود پھاڑنے یا محبوب کے عزیزواقارپ کے ہاتھوں پھڑوانے کو چاق دامانی، اور اپنے اوپر لگنے والے تمام سچے الزامات کو تر دامنی اور پھر ان تمام کو اکٹھا کرکے شاعری کا نام دے دیا جاتا ہے۔ جون ایلیا مرحوم ایک سچے شاعر تھے اسلئے سچ بول گئے۔ فرماتے ہیں
فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی
فلاں کے زخم اچھے تھے فلاں سے
تاریخ کی کونسی کتاب میں لکھا ہے کہ مجنوں محبت کرکے اسٹروناٹ بن گیا تھا اور خلا میں جاکر نئے سیارے دریافت کرکے آیا تھا؟ مجھے تو ایسی کوئی کتاب نظر نہیں آئی۔ وہ بھی تو صحراؤں کی خاک چھانتا رہا تھا۔ سوہنی محبت کرکے کونسا سومنگ کی اولمپک چیمپین بنی تھی؟ وہ بھی تو اتاولی ہوکر کچا گھڑا اٹھا کر لے گئی اور دریا میں کود کر مر گئی۔ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ وہ پانی سے اتنی ڈرتی تھی کہ جب بھی ماں دریا کنارے کپڑے دھونے یا گھڑا بھر لانے کو کہتی تو اسکا یہی بہانہ ہوتا کہ مینو وگدے پانڑی توں ڈر لگدا۔ لیکن تمام تر کام چوری کے باوجود جب محبت کی تو اسی محبت کے ہاتھوں ڈوب گئی۔ اگر محبت کے زیر اثر نہ ہوتی تو غالب گمان یہی ہے کہ اپنی فطری کاہلی اور کام چوری کی وجہ سے کنارے کھڑے ہوکر ہی مہیوال کو آواز دیتی کہ ادھر آتے چُک کے لے جا مینو پر نہیں اسے محبت ہوگئی تھی اور محبت کا انجام یہی ہوتا ہے۔ فرہاد بھی شیریں کیلئے نہر کھود کر لایا تو کونسی انجنئیرنگ کی ڈگری ملی یا نوکری ملی؟ ارے نوکری تو چھوڑیں چھوکری بھی نہیں ملی جسکے لئے پہاڑ کھود کر نہر نکالی۔ وہ بھی مُکر گئی تھی کہ بندہ پہلے ہی پہاڑ کھود کر ایکسپائر ہو چکا ہے۔ کچھ عرصے بعد ہی جوڑوں میں درد شروع ہوجائیں گے اور گھر کا سودا سلف لانے قابل بھی نہیں ہوگا۔ لوگ کہتے ہیں فرہاد شدت غم سے مرگیا تھا میں کہتا ہوں اسکا ٹھیک سے پوسٹ مارٹم ہوجاتا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا۔ صاف پتا چل جاتا کہ over-exertion کی وجہ سے ہارٹ اٹیک ہوا۔ تو بھائی محبت کے انجام پہ رونا کیسا؟ یہ تو نوشتہ دیوار تھا اور سرپرائز کے چانس زیروپرسنٹ تھے۔ اب آپ اگر کیکر کے درخت کو پتھر مار کر آم گرنے کی توقع کرتے ہیں تو قصور کیکر اور پتھر کا نہیں آپ کی ناجائز توقعات کا ہے۔ اسلئے رونا دھونا بند کرکے کوئی ڈھنگ کا کام شروع کردیں۔ محبت اور رونے دھونے کیلئے ابھی عمر پڑی ہے۔ ویسے بھی محبت کیلئے جتنا وقت درکار ہے میرے خیال میں یہ کام ریٹائرمنٹ کے بعد ہی کرنا چاہئے۔ تب لوگ شک بھی نہیں کرتے۔ (سیف الله خان مروت)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں