چند رشتے مٹا رہا ہوں میں
ضبط کو آزما رہا ہوں میں
خود کو خود سےادھیڑ بیٹھا تھا
خود کو خود سے ملا رہا ہوں میں
رشتے ناطے ہیں سارے دو پل کے
بخدا سچ بتا رہا ہوں میں
جان و دل کہ سدا رہے مرہون
ہار کر روح آرہا ہوں میں
منہ کا اب ذائقہ بدلنے کو
شوق سے دھوکہ کھا رہا ہوں میں
تم کو مبروک ہو نئی دینا
تیری دنیا سے جا رہا ہوں یں
قصر خوابوں کا نا مکمل تھا
اب مکمل ڈھا رہا ہوں میں
سیف اللہ خان مروت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں