پیر، 30 دسمبر، 2019

مشتری ہوشیار باش

ہماری ایک خوبی کی دنیا معترف ہے اور وہ ہے اچھا مشورہ دینا۔ موٹر سائیکل کی بتی جلتی رہ گئی تو سارا راستہ لوگ ہاتھ کی انگلیاں کھول بند کرکے اشارے سے بتائیں گے کہ بھائی بتی بند کرو۔ اگر سٹینڈ اٹھائے بغیر موٹر سائیکل سڑک پر نکال لائے تو آدھا شہر "او بھائی گھوڑی اٹھالے" کی آوازیں دیتا رہے گا۔ اور اگر پیچھے بیٹھی باجی کا دوپٹہ نیچے لٹک رہا ہو تو لوگ پیچھے دوڑ دوڑ کر اور روک روک کر درست کرواتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ جن کو مشورہ دیا جاتا ہے وہ مانتے بھی ہیں۔ انہی باتوں کو دیکھ کر بہبود آبادی والوں کو حوصلہ ملتا ہے کہ کسی دن ہمارے مشوروں پر بھی لوگ عمل کر رہی لیں گے گو کہ اب تک تو معاملہ اسکے برعکس ہے۔ 
خیر آمدم بر سر مطلب میں یہاں تازہ ترین قومی مشورے کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ کل ملاکر مجموعی طور پر جب ایک ہزار سات سو تیرہ خیر خواہوں کی طرف سے یہ پیغام ملا کہ سال 2020 میں تاریخ لکھتے وقت سال 20 کی بجائے پورا 2020 لکھیں ورنہ بڑا نقصان ہوسکتا ہے تو ہم نے ممکنہ نقصانات پر غور کرنا شروع کیا۔ پتا چلا واقعی بڑے بڑے نقصانات ممکن ہیں۔ ذرا سوچیں اگر یکم جنوری 2020 کو آپ کا بچہ پیدا ہوجائے اور آپ تاریخ لکھتے وقت سال 20 لکھیں اور دو دن بعد آپ گھر آئیں تو گھر میں جوان منڈا پھر رہا ہو اور پوچھنے پر بولے کہ ابا حضور میں آپ کا فرزند ارجمند ہوں اور آپ کی بے احتیاطی کی وجہ سے دو دن بعد ہی میں انیس سال اور دو دن کا ہوگیا ہوں کیونکہ آپکی لاپرواہی کی وجہ سے تاریخ پیدائش میں بیس کے بعد کسی نے 01 لگا کر 2001 کردیا۔ اب ایسے نابالغ اور قبل ازوقت بالغ بچے کا آپ کیا کریں گے؟ سوائے صحافی بنانے کے اور اسکا کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ ایسے لوگ نابالغ میڈیا میں چل جاتے ہیں کہیں اور نہیں۔ اسی طرح نکاح نامے میں 20 کو 2001 کرکے اگر ساس نے بیوی کی طرف سے یہ کہہ کر خلع کی درخواست دائر کردی کہ داماد نامرد ہے انیس سال ہوگئے لیکن بٹیا کی گود ہری نہیں ہوئی تو کیا ہوگا؟ نقصان تو ہوگیا نا؟ 
تو جناب مشورہ دینے والوں کا مشورہ مانئے اور ایک سال چوکنے رہئے۔
(سیف اللہ خان مروت)

پیر، 16 دسمبر، 2019

شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے

اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں دو طلبہ تنظیموں میں تصادم کے نتیجے میں ایک طالبعلم جاں بحق اور کئی زخمی ہوگئے۔ یاد رہے کہ یہ لوگ یہاں کوئی عسکری تربیت لینے نہیں آئے تھے بلکہ علم حاصل کرنے آئے تھے۔ یہ سب لوگ بہت امیر کبیر خاندانوں کے بچے بھی نہیں کیونکہ وہ زیادہ تر بیرون ملک یا نجی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔ ان میں اکثریت مڈل کلاس اور لوور مڈل کلاس خاندانوں کے بچے ہوں گے۔ ان میں بیشتر کے والدین نے اپنا پیٹ کاٹ کر انکے تعلیمی اخراجات پورے کئے ہوں گے۔ کچھ نے جائیداد بیچ کر روشن مستقبل کے خواب دیکھے ہوں گے کہ بچہ پڑھ لکھ کر کچھ بنے گا۔ کچھ کی ماؤں نے زیور بیچے ہوں گے۔ کئیوں کی بہنوں کی شادیاں اس لئے نہیں ہوئی ہوں گی کہ بھائی پڑھ لے کچھ کما کر بہنوں کے ہاتھ پیلے کرے گا۔ یہ سب حقائق ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر گھروں میں تعلیمی اخراجات اسی طرح پورے کئے جاتے ہیں۔ جو طالبعلم جاں بحق ہوا ہے اسکا تعلق گلگت سے بتایا جارہا ہے۔ گلگت بلتستان میں لوگ کتنی مشکل سے زندگی گزارتے ہیں اگر آپ میں سے کوئی وہاں گیا ہے تو خوب اندازہ ہوگا۔ جس بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کی ڈگری ہاتھ میں لئے گھر لوٹنے کے منتظر والدین نے اسکی لاش وصول کی ہوگی تو ایک بار تو ضرور پچھتائے ہوں گے کہ کاش اسے ہم اپنے ساتھ کھیتی باڑی کیلئے ادھر ہی رکھ لیتے اسلام آباد بھیجتے ہی نہیں۔ 
پچھلے دنوں طلبہ یونینز کی بحالی کی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ طلبہ نے عملی طور پر ثابت کردیا کہ وہ اس قابل نہیں کہ ان کی جتھے بندیوں کو باقاعدہ قانونی شکل دی جائے۔ وہ ماضی میں بھی کئی بار ثابت کرچکے ہیں۔ مشال خان کا واقعہ ابھی اتنا پرانا نہیں ہوا۔ 
شہر میں آکر پڑھنے والے بھول گئے 
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

طلبہ، وکیل اور ڈاکٹروں کی حرکتیں دیکھ کر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہمیں تعلیم کی نہیں تربیت کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے والدین بچوں کو سکول کالج یونیورسٹیوں میں بھیج کر سمجھ رہے ہیں کہ انکی تربیت ہورہی ہے جبکہ ہمارے نظام تعلیم میں معاشرتی علوم ابتدائی چند جماعتوں میں رٹا کر سمجھا جاتا ہے کہ فرض ادا ہوگیا۔ 


اتوار، 1 دسمبر، 2019

آزادی

آزادی بہت ضروری چیز ہے۔ ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے۔ بعد میں اپنی خوشی یا گھر والوں کی خوشی سے خود ہی شادی کرلیتا ہے۔ شادی کے بعد پھر آزادی چاہتا ہے۔ مرد کو عورت سے سے آزادی چاہئے۔ عورت کو مرد سے آزادی چاہئے۔ مرد کو عورت سے آزادی اسلئے چاہئے تاکہ وہ دوسری عورت کے ہاتھوں اپنی آزادی آزادانہ طور پر کھو دے۔ عورت کو آزادی کیوں چاہئے معلوم نہیں۔ شاید اسلئے کہ مرد اسے تنگ نہ کریں اور وہ آزادی سے جسکے ہاتھوں مرضی تنگ ہوں۔ عوام کو بھی آزادی چاہئے۔ تاکہ وہ آزادانہ طور پر جسکو چاہیں اپنا آقا منتخب کرسکیں۔ طلباء کو بھی آزادی چاہئے تاکہ وہ آزادی سے سیاستدانو کی خدمت کرسکیں۔  ملازمین کو بھی آزادی چاہئے تاکہ وہ اپنی مرضی سے جب چاہیں جیسے چاہیں ملازمت کریں۔ تاجروں کو بھی آزادی چاہئے تاکہ وہ آزادانہ تجارت کرسکیں۔ جتنے کی چیز جتنے میں بیچیں یا چاہے نہ بیچیں گودام میں رکھ لیں۔ گوالے کو بھی آزادی چاہئے تاکہ وہ آزادانہ طور پر پانچ کلو دودھ دینے والی اکلوتی بھینس کا ایک من دودھ بیچ سکیں۔ پولیس والوں کو بھی آزادی چاہئے تاکہ وہ آزادی سے اپنی ملازمت کرسکیں۔ فوج کیلئے بھی آزادی ضروری ہے تاکہ وہ ملک کیلئے حکمران ڈھونڈ سکیں۔ اگر ڈھونڈنے میں وقت لگے تو وہ تب تک بادل ناخواستہ یہ بوجھ خود اٹھا سکیں۔ قوموں کو بھی آزادی چاہئے۔ لیکن قومیں تو آزاد ہوتی ہیں پھر آزادی کیوں چاہئے؟ تاکہ وہ آزادی سے کسی آزاد قوم کو اپنا آقا چن سکیں۔ آزادی بہت ضروری ہے۔
مشق
آزادی کیا ہے اسکی اقسام بیان کریں؟
2۔ کیا آزادی کو بھی یہ آزادی حاصل ہے کہ جسکی چاہے ہولے؟ 
3۔ کیا آزادی کیلئے قربانی ضروری ہے شادی شدہ افراد آزادی حاصل کرنے کیلئے کیا کریں؟
4۔ آزادی حاصل کرنے کیلئے آزاد ہونا ضروری ہے؟

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...