کچھ دن پہلے میں ایک دوست کی دوکان پر گیا جو ویلڈنگ کا کام کرتا ہے۔ اسکی دوکان میں وزن کرنے والا کانٹا دیکھا تو سیدھا چڑھ دوڑا کہ لگے ہاتھوں اپنا وزن کرکے دیکھ لیں کتنا باقی رہ گیا ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ وزن اکہتر کلو تک پہنچ گیا ہے۔ وزن بڑھانا میرے لئے ہمیشہ ایک مشکل کام ثابت ہوا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے وزن بڑھنے کی اتنی خوشی تھی کہ گھر میں تو سب کو فرداً فرداً بتا یا ہی باہر بھی جو ملا یا کسی سے فون پر بات ہوئی باتوں باتوں میں موضوع کو گھما کر وزن کی طرف لے آتا اور پھر بتا دیتا کہ میرا وزن بھی پہلی دفعہ ستر کا ہندسہ عبور کرگیا ہے۔ یہ ذکر بالخصوص ان لوگوں کے سامنے زیادہ جوش و جذبے سے کیا جن کا وزن مجھ سے بھی ایک دو چٹانک کم تھا۔
کئی لوگوں نے وزن بڑھنے کے راز کے بارے میں بھی پوچھا جنہیں میں نے بڑی تفصیل سے اپنی اچھی عادات کے بارے میں بتایا کہ صبح ناشتے میں گائے کا خالص گھی اور بالائی کھاتا ہوں۔ عرصہ ڈیڑھ سال سے سیگریٹ نوشی ترک کی ہوئی ہے۔ دوپہر کا کھانا اپنے مقررہ وقت پر کھاتا ہوں اور پروٹین سے پھر پور کھانے کھاتا ہوں۔ کھانے کیساتھ سلاد کے طور پر مولی کے پتے اور ہری مرچیں شوق سے کھاتا ہوں۔ رات کاکھانا وقت پر کھا لیتا ہوں تاکہ سونے سے پہلے پہلے غذا کا بیشتر حصہ ہضم ہوچکا ہو۔ پانی کے معاملے میں احتیاط کرتا ہوں۔ کوشش کرتا ہوں کہ گھر اور دفتر کے علاوہ کہیں پانی نہ پیؤں اور اگر پینا پڑجائے تو منرل واٹر پیتا ہوں۔ اسکے بعد صحت کی قدرو قیمت پر تفصیل سے روشی ڈالتا۔ لگے ہاتھوں ان تمام بری عادتوں کا احاطہ بھی کرلیتا جن کی وجہ سے صحت متاثر ہوتی ہے اور وزن کم ہونا شروع ہوجاتا ہے مثلاً یہ کہ ہماری طرح برائلر مرغی اور فارمی انڈے سے مکمل پرہیز برتیں اور کولڈ ڈرنکس کو تو بالکل حرام ہی سمجھیں۔ زیادہ چائے نوشی سے بھی پرہیز لازم ہے۔
اسکے بعد کم وزن سے لاحق ہونے والی ممکنہ بیماریوں کی تفصیل بھی بتا دیتا۔ جب سامنے کھڑے شخص کومتاثر دیکھتا تو احساس تفاخر سے سینہ مزید چوڑا ہوجاتا کہ وہ اس وقت ہماری صحت اور صحت کے متعلق ہمارے علم سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ ہمیں ایک رول ماڈل کے طور پر رشک بھری نگاہوں دیکھ رہا ہے۔
کبھی کبھی دل میں شیطان غلط قسم کے وسوسے بھی ڈالنے کی کوشش کرتا کہ ہم خود نمائی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ لیکن ہم دل ہی دل میں لاحول پڑھ کرشیطان پر چار حرف بھیج کر فوراً خود کو سمجھا دیتے کہ اکہتر کلو وزن کا تقریباً جوان اور صحتمند انسان ایسا قبیح کام کر ہی نہیں سکتا۔ یہ تو ہم معاشرے میں صحت کے حوالے سے عوامی شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسکی طرف سے لوگ فی زمانہ بالکل غافل ہیں۔ جس طرح انگریز کی غلامی کے دور میں اقبال نے نوجوانوں کی خودی کو آواز دی اور خواب غفلت میں پڑے ہندوستانیوں کا بالعموم اور ہندوستان کے مسلمانوں کو بالخصوص جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگایا، یا جیسے آمریت کے دور میں حبیب جالب نے جمہور کو بیدار کرنے کیلئے اپنے کلام کا سہارا لیا ہم فی زمانہ وہی کام کر رہے ہیں۔ آخر ہم پر بھی قوم کا کچھ حق واجب ہے۔ اقبال ہوئے جالب ہوئے کہ ہم ہوئے سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں بس فرق اتنا سا ہے کہ ان حضرات کے پاس کلام کا ہنر تھا ہمارے پاس قابل رشک صحت ہے۔ ہم نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ حفظان صحت کے اصولوں، کھانے پینے کے آداب، کھانے پینے کی چیزوں کی تفصیلات کہ دن اور رات کے کھانے میں کیا شامل ہونا چاہئے وغیرہ وغیرہ کے بارے مضامین کا ایک سلسلہ بھی شروع کریں گے تاکہ عوام میں صحت کے حوالے سے معدوم شعور کو ایک بار پھر وجود بخشیں۔ ان مضامین کے بعد ملک میں صحت کی سہولیات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، ناکافی سہولیات اور ڈاکٹروں کی نالائقی کے بارے میں مضامین کا ایک اور سلسلہ شروع کریں گے تاکہ لوگ استفادہ کرسکیں۔ اسکا بالواسطہ فائدہ یہ ہوگا کہ ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ کم ہوتے ہوتے ختم ہوجائیگا۔ ممکن ہے ہمارے مضامین کی وجہ سے حکومت کو ہسپتال ہی بند کرنا پڑ جائے کیونکہ ہسپتالوں کی رونق بہر حال مریضوں کے دم قدم سے ہوتی ہے۔ ہم نے چشم تصور سے دیکھا کہ ڈاکٹر بے روزگار ہیں اور میڈیکل سٹور کے شیلفوں میں تازہ سبزیاں اور پھل سجے ہوئے ہیں۔
اس کار نیک کو عملی جامہ پہنانے میں کچھ ہی دن باقی تھے۔ انتظار تھا کہ امتحان ختم ہو اور سکون سے بیٹھ کر تفصیل سے لکھنا شروع کریں گے۔
دوتین دن بعد بینک کے سٹرانگ روم میں پھر کانٹا نظر آیا تو خیال آیا کہ ایک بار پھر وزن چیک کرلیا جائے کہ کتنا بڑھا ہے۔ لیکن یہ دیکھ کر حیرت اور پریشانی ہوئی کہ ان دنوں میں وزن تین کلو کم ہوکر صرف اڑسٹھ کلو رہ گیا ہے۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ رہا۔ دو تین بار ہتھیلیوں سے رگڑ رگڑ کر آنکھیں صاف کیں لیکن وزن وہی اڑسٹھ کااڑسٹھ کلو ہی رہا۔ دو تین دن میں تین کلو وزن کیسے کم ہوسکتا ہے جبکہ ان دنوں میں کل ملا کر تیس قدم سے زیادہ پیدل بھی نہیں چلے کبھی، نہ کبھی کھانے پینے کا ناغہ کیا۔ پہلے تو خیال آیا کہ صبح کا ناشتہ جو کلو ڈیڑھ ہوگا پانی اور چائے ملا کر، وہ بھی ہضم ہوگیا ہوگا۔ غور و فکر اور حساب کتاب کے بعد اس مفروضے کو مسترد کردیا کیونکہ بھلے ہضم بھی ہوگیا ہو، تھا تو ابھی تک جسم کے اندر ہی۔ تھوڑی سی پیاس بھی لگ رہی تھی تو اگر ڈھائی سو گرام پانی بھی پی لیں تو وزن پھر بھی سوا اڑسٹھ کلو رہ جاتا ہے جو کہ بہت کم ہے۔ ساتھ کھڑے افسر نے کوٹ کی آستین پر لگی مٹی کی طرف توجہ دلائی تو خیال آیا کہ آج ہم نے کالا کوٹ پہنا ہے جوکہ بہت ہلکا ہے جبکہ اس دن بھورے رنگ کا کوٹ پہنا تھا جو بہت بھاری تھا۔ اب کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی کہ تین کلو فرق کوٹ کے وزن کا تھا۔ ہمیں اپنے سارے خواب چکنا چور ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ شاید چہرے سے پریشانی عیاں تھی جسے بھانپ کر ساتھی افسر نے پوچھا کہ سر پریشان کیوں ہورہے ہیں۔ میں نے کہا وزن میں تین دن میں تین کلو کا فرق پڑا ہے جوکہ پریشان کن ہے۔ کہنے لگا سر فکر کی کوئی بات نہیں سویٹر، کپڑے، بوٹ گھڑی اور موبائل اگر ہٹا دیں تو صافی وزن یہی کوئی ساٹھ کلو ہی بچے گا جو اتنا زیادہ نہیں۔ اس کی بات سے ہم مزید شرمندہ ہوکر کانٹے سے اتر آئے۔ شاید اسے لگا تھا کہ ہم وزن بڑھنے کی شکایت کر رہے ہیں۔ عرض کیا تین کلو پہلے ہی کم ہوا ہے آپ مزید کم کر رہے ہیں ساٹھ کلو وزن تو میرا ۱۹۹۹ میں تھا بیس سال بعد بھی ساٹھ ہی ہے ابھی۔ اسے اپنی غلطی اور ہماری ترجیحات کا ادراک ہوگیا فوراً بولا آپ کے بوٹ اتنے وزنی بھی نہیں اور سویٹر، کپڑوں کا تو وزن نہ ہونے کے برابر ہے باقی گھڑی اور موبائل کا کتنا وزن ہوگا۔ میرا خیال ہے اڑسٹھ کلو وزن ٹھیک ہی ہے۔
ہمیں افسوس اس بات کا نہیں کہ ہمارا وزن نہیں بڑھا بس فکر یہ کھائے جارہی ہے کہ قارئین صحت کے متعلق بیش بہا علم سے محروم رہیں گے۔ البتہ مثبت پہلو یہ ہے کہ ڈاکٹر اور میڈیکل سٹور والے بے روزگاری سے فی الحال بچ گئے ہیں۔ اس سے یہ بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تین کلو وزنی کوٹ کے اردو ادب، ملکی معیشت یہاں تک کہ ملک بھر کےہسپتالوں تک پر کس حد تک اثر انداز ہوسکتا ہے۔ سیف اللہ خان مروت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں