منگل، 5 فروری، 2019

حج فریضہ یا خواہش

میری ویسے تو کوشش ہوتی ہے کہ ایسے معاملات کو نہ چھیڑوں جن سے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ تاہم کچھ معاملات میں چپ رہنا بھی مجرمانہ فعل ہے۔ 
کل میں نے حج کے متعلق ایک ٹویٹ کا عکس نشر کیا۔ چونکہ وہ بہت مختصر تھا اس میں تفصیلی بحث ممکن نہیں تھی۔ بہت سے لوگوں نے اس سے اختلاف بھی کیا جوکہ ان کا حق تھا اور خوش آئند بھی۔ اختلاف  رائے جب بھی پیدا ہوتا ہے نئی جہتیں کھلنے لگتی ہیں۔ 
حج کے بارے میں لوگ کتنے جذباتی ہوتے ہیں اور لوگوں کی کتنی خواہش ہوتی ہے یہ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھ سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا   
۲۰۰۶ سے بینک میں آنے کے بعد ۲۰۱۸ تک میں نے تین ہزار سے زائد حجاج کرام کی حج درخواستیں بینک کے ذریعے جمع کروائی ہیں۔ میں نے حج قرعہ اندازی میں ناکام ہونے والے بزرگ حاجیوں کو بچوں کی طرح روتے بلکتے دیکھا ہے اور انہیں بچوں کی طرح گلے لگا کر تسلیاں بھی دی ہیں۔ مکے اور مدینے سے جو جذباتی لگاؤ ہے اس سے ادنیٰ سے ادنیٰ مسلمان کا دل بھی خالی نہیں اور یہ میرا گمان نہیں یقین ہے۔ 
لیکن دوسری طرف دیکھیں تو یہ جذبات اور خوہشات سے بڑھ کر ایک فرض بھی ہے۔اسلام دین فطرت ہے اور میں نے دین اسلام میں کوئی چیز فطرت کے خلاف نہیں پائی۔ اگر کسی کو کوئی بات فطرت کے خلاف لگتی ہے تو یہ سمجھنے کی غلطی تو ہوسکتی ہے حقیقت نہیں۔ ایک ایسا مذہب جسے رہتی دنیا تک قائم رہنا ہو غیر فطری باتوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انسانی علم جس تیزی سے ارتقاء پذیر ہے اگر کسی مذہب میں کوئی غیر فطری بات ہوگی تو وہ کھل کر سامنے آجائے گی۔اللہ کے فضل و کرم سے دین اسلام میں ابھی تک کوئی ایسا نقص کوئی ثابت نہیں کرسکا ہے۔ 
فرائض کے بارے میں دین کے احکامات بہت واضح ہیں۔ سمجھنے کیلئے ہم ایسے فرض کی مثال لے لیتے ہیں جس سے روزانہ پانچ وقت ہمارا واسطہ پڑھتا ہے۔ نماز مخصوص اوقات میں فرض ہے۔ نماز کے ارکان سے پہلے اسکی شرائط ہیں۔ اگر بغیر شرعی عذر کے ان شرائط میں سے ایک بھی کم ہو تو فرض ادا نہیں ہوگا، مثلاً باوضو ہونا، بدن کا پاک ہونا، لباس کا پاک ہونا، نماز کی جگہ کا پاک ہونا، قبلہ رو ہونا، نماز کی نیت ہونا اور نماز کا وقت ہونا۔ دن کے گیارہ بجے اگر میں ٹھہر کر سو بار بھی ظہر کی نماز ادا کردوں تو فرض نماز ادا نہیں ہوگی چاہے جتنے خشوع و خضوع سے کیوں نہ ادا کی جائے۔ وجہ کیا ہے کہ میں نے شریعت کے احکام کی پابندی کی بجائے اپنی خواہش اور سہولت کے مطابق نماز ادا کردی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نماز شرائط کے بغیر ادا نہیں ہوتی تو حج کا فریضہ شرائط کے بغیر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے؟ جب حج کیلئے ایک بنیادی شرط ہی استطاعت ہے تو استطاعت کے بغیر خواہش جتنی بڑی ہی کیوں نہ اس سے فرض حج ادا کیسے ہوگا؟ 
اور پھر اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ کیا دین ہماری خواہشات کے تابع ہے؟ ایسا ہر گز نہیں۔ دین کا مقصد دین کو خواہشات کے تابع کرنے کی بجائے خواہشات کو دین کے تابع کرنا ہے۔ اسلام نے عزت کا معیار تقویٰ پر رکھ دیا۔ خطبہ حجۃ الوداع میں واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتادیا کہ عزت کا معیار رنگ نسل مال و دولت نہیں بلکہ تقوٰی ہے۔ اور تقوٰی کیا ہے؟ اپنے خواہشات کو دین کے تابع کرنا۔ جسکی جتنی زیادہ خواہشات دین کی تابع ہیں وہ اتنا ہی اچھا مسلمان ہے۔ جب مذہب نے ایک چھوٹ دے دی تو اسکو من و عن تسلیم کرنا ہی تقوٰی ہے نہ کہ اپنی خواہش کے مطابق چلنا۔ کل کو ایک متقی خاتون کہے گی کہ جن دنوں میں اسے نماز معاف ہے اسکی خواہش ہے وہ نماز ادا کرتی رہے کیونکہ اسے نماز میں سکون ملتا ہے اور اسکی خواہش ہے تو کون ذی شعور اس عمل کو درست قرار دے گا؟ 
مسئلہ یہ ہے کہ دین اسلام نے قدم قدم پر تدبر اور تفکر کی دعوت دی ہے جو کہ بدقسمتی ہم نے ترک کردیا ہے۔ 
تمام ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ جو حج کے اخراجات بڑھ جانے کی وجہ سے حج کی ادائیگی سے محروم ہوئے ہیں وہ بے شک رنجیدہ ہوں وہ اللہ کے حضور روئیں بھی فریاد بھی کریں استطاعت بھی مانگیں کیونکہ یہ سب اللہ کو بہت محبوب ہیں۔ وہ الصمد ہے۔ ممکن ہے آپکا یہ ایک آنسو اللہ کو ان لوگوں کے حج سے زیادہ مقبول ہو جن کے پاس استطاعت تو ہے لیکن وہ تڑپ نہیں جو اللہ نے آپ کو عطاء کردی ہے۔ کون ایسا مسلمان ہے جو یہ چاہے گا کہ اس سے یہ تڑپ لے لی جائے اور اسکے بدلے میں استطاعت دے دی جائے؟ شاید ہی کوئی ہو۔ 

 ؤنا علینا الا البلاغ     سیف اللہ خان مروت

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...