کہتے ہیں کہ جب کارخانہ عالم کو وجود بخشا گیا اور جاندار تخلیق ہوچکے، نعمتیں، رحمتیں اور زحمتیں بٹ چکیں، کچھ لے لی گئیں کچھ لاد دی گئیں تو تقسیم کنندہ فرشتہ دم لینے کیلئے بیٹھا ہی تھا کہ اسے شوروغل سنائی دیا۔ پہلے واہ واہ مکرر مکرر اور پھر پکڑو،چھوڑو، جانے نہ پائے کی آوازیں۔ حیران ہوکر قریب گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک صاحب نے دوسرے کا گریباں (یا اگر گریباں تب تک ایجاد نہیں ہوا تھا تو جو بھی پکڑا جاسکتا تھا) پکڑے زور زور سے چلا رہا تھا اور کہہ رہا تھا،
تو اپنی غزل پڑھ کے کھسکتا ہے کدھر کو
میں نے بھی تجھے سن لیا تو بھی تو مجھے سن
فرشتے نے بیچ بچاؤ کرانے کے بعد پوچھا کہ آپ لوگوں کا زاد راہ کہاں ہے؟ کیسا زاد راہ؟ سب نے یک زبان ہوکرپوچھا؟ فرشتہ سب کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرکے چلنے لگا اور وہ سب پیچھے ہولئے۔ ایک بڑے گودام کی طرف اشارہ کرکے فرشتہ بولا، اندر جاؤ اپنا اپنا زاد راہ لو اور پھر اپنی اپنی راہ لو۔ کارخانہ قدرت میں بہت سے کام توجہ کے منتظر ہیں۔
وہ اندر گئے سب دیوانہ وار پوٹلیاں الٹ پلٹ کر دیکھتے اور لیبل پڑھ کر پھینکتے رہے۔ جو مطلوب تھا وہ کسی کو نہ ملا۔ سب واپس فرشتے کے پاس آئے اور بولے وہاں تو ہمارے کام کا کچھ نہیں بچا۔ فرشتے نے پوچھا کیا چاہئے۔ سب بولے داد۔ فرشتہ ہنس کر بولا وہ تو سب مولوی لوگ لے گئے ساتھ میں فتووں کی بوریاں بھی۔ اب منبر پر مخالف فرقے کے خلاف فتوے دیتے رہیں گےاور داد سمیٹتے رہیں گے۔ جو بچا ہے لے لو ورنہ اپنی راہ لوشعراء مایوس ہوکر واپس اندر گئے جو بچا کھچا تھا اسے ٹٹولنے لگے۔ جو دستیاب تھا اس میں جھوٹ، مبالغہ، لفاظی، ظالم اور سنگدل قسم کے محبوب، گل و بلبل، ٹھنڈی آہیں، جگر اور کلیجے کے زخم، کانچ کے بنے آبگینے سے نازک دل اور کچھ بعد از مرگ غیر شرعی خواہشات۔ جس کو جو ہاتھ آیا سمیٹتا اور چلتا بنا۔
تو صاحبو!
یہ شعراء کی ابتداء تھی۔ سائنس کہتی ہے زندہ رہنے کیلئے خوراک پانی اور آکسیجن ضروری ہے۔ شعراء اس سے قطعاً متفق نہیں۔ انکے مطابق زندہ رہنے کیلئے داد اور شاعری کو زندہ رکھنے کیلئے بے داد بہت ضروری ہے۔ مجھے ذاتی طور پر شاعر نہ صرف بہت پسند ہیں بلکہ ان سے دلی ہمدردی بھی ہے۔ یہ بہت مظلوم لوگ ہوتے ہیں۔ انکی مظلومیت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ جو شاعری ایک بار سننے سے عام آدمی کے سر میں درد شروع ہوجاتا ہے وہ شاعر دوسروں کو سنانے سے پہلے پچاس یا سودفعہ خود کو سنا چکے ہوتے ہیں۔ اور جب خود سننے کا مزید حوصلہ نہیں رہتا تب دوسروں کو سنانے لگتے ہیں۔
اگر آپ کو کوئی شاعر چڑچڑا اور بدمزاج لگے تو یقین کیجئے وہ فطرتاً ایسا نہیں ہے محض داد کی کمی کا شکار ہے۔ یقین نہ آئے تو داد دیکر دیکھ لیجئے اگلے دن وہ سر شام اپنا دیوان بغل میں دابے آپ کے دروازے پر ہوگا۔
شعراء میں جو قدر مشترک ہے وہ یہ کہ سب کا محبوب ظالم اور سنگدل ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حسن اتفاق ہے لیکن کچھ بدگمانوں نے یہ تک بھی کہا ہے کہ محبوب انکی شاعری سن سن کر پک چکے ہیں اسلئے بامر مجبوری سنگدلی اختیار کرنی پڑی۔ ممکن ہے یہ بد ذوق اور شاعر بے زار یا شاعر گزیدہ قسم کے لوگوں کی پھیلائی ہوئی بات ہو لیکن بوجوہ قرین قیاس بھی لگتی ہے۔ ہم نے آج تک کسی شاعر کو اپنی ذاتی اور زندہ منکوحہ کی محبت میں شاعری کرتے نہیں دیکھا۔ غالباً اسکی وجہ گھر میں نافذ دستور زباں بندی ہے۔
جو لوگ شاعری میں طبع آزمائی کرنے کے بعد ناکام ہوجاتے ہیں وہ بہت اچھے نقاد بن جاتے ہیں۔ چونکہ انہیں ہر طرح کا برا شعر کہنے کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے اسلئے وہ برے شعر کو فوراً پہچان لیتے ہیں۔ اور داد کی کمی کے باعث ویسے بھی بھرے بیٹھے ہوتے ہیں اسلئے بے لاگ تبصرہ کرنے سے ذرا نہیں کتراتے۔
اکثر شعراء کی شاعری پڑھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ سارے شعر ہسپتال کے انتہائی نگہداشت وارڈ میں بستر مرگ پر لیٹ کر لکھے گئے ہیں۔ ٹوٹا دل، پارہ پارہ جگر، آنکھوں سے بجائے آنسو خون کا بے تحاشا اخراج، منہ سے بجائے لعاب دہن کے خون تھوکنا، پاؤں میں بے شمار چھالے، اور تن بدن پر بے شمار بڑے بڑے گھاؤ۔ ایسے بندے کو اور کہاں ہونا چاہئیے بھلا؟
بڑے شاعر عموماً مفلس ہوتے ہیں کیونکہ وہ شاعری کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ لیکن بلا کے سخی ہوتے ہیں۔ اپنے محبوب کو قدموں میں لانے کیلئے کچھ بھی اسکے قدموں میں نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ پشتو کے ایک شاعر اقبال جان فرماتے ہیں کہ شاعر سارا جہان اٹھا کر محبوب پر نچھاور کرلیتا ہے گویا یہ سارا جہان اسکے ابا حضور کی میراث ہو۔
لیکن خدا شکر خوری کو شکر دیتا ہے۔ داد کے طالب شعراء کو داد ملتی ضرور ہے لیکن بسا اوقات بعد از مرگ۔ ادھر شاعر مرا نہیں اور ادھر تعریفوں کے پل بندھے نہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر شعراء کو جو پذیرائی مرنے کے بعد ملتی ہے اگر جیتے جی مل جاتی تو وہ لمبی عمر جیتے۔ گویا شاعر کو سرِاہے جانے کے لئے مرنا پڑتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اکثر شعراء بعد از مرگ غیر شرعی خواہشات کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً دم نکلے تو سر محبوب کی گود میں ہو، محبوب شاعر کے لاشے سے لپٹ لپٹ کر روئے اور اگر وہاں موقع نہ ملے یا بیگم آس پاس ہو تو بعد میں قبر پہ لوٹتا رہ جائے وغیرہ وغیرہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں