راولپنڈی میں تعیناتی سے پہلے ہی ٹریننگ کے دوران میں گھر والوں کو راولپنڈی منتقل کر چکا تھا۔ میری شادی زمانہ طالبعلمی میں (بقول شخصے بچپن میں) ہوچکی تھی۔ اور ٹریننگ کے دوران پہلی بیٹی بھی اس دنیا میں آچکی تھی۔ جب گھر راولپنڈی منتقل کر رہا تھا اس وقت بچی کی عمر چودہ دن تھی۔ والدہ کا کہنا تھا کہ چالیس دن سے پہلے بچوں کو سفر پر لے جانے سے ان پر جنوں بھوتوں کا سایہ پڑجاتا ہے۔ انکی اس بات نے میرا ارادہ اور مضبوط کردیا اور کہا کہ اب تو چالیس دن پورے ہونے سے پہلے ہی لے جاؤں گا تاکہ پتا چلے جن بھوت کیسے میری بچی کے قریب آتے ہیں۔ کوئی جن بھوت تو قریب نہ آیا البتہ کچھ دن بعد بچی بیمار ہوگئی۔ جب ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے کہا کہ بچی کو یرقان ہے جو عموماً نوزائد بچوں کو ہوتا ہے کیونکہ جگر پوری طرح فعال نہیں ہوتا اور ہدایت کی کہ بچی کو دن کے وقت دھوپ لگوائیں۔ میں نے عرض کیا کہ میرے گھر میں دھوپ نہیں آتی۔ ڈاکٹر کو شاید میری بات ناگوار گزری اسلئے اکھڑے ہوئے لہجے میں بولے کہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میرے پاس گھر میں دھوپ لانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ نہ سورج کو اپنے گھر میں اتار سکتا تھا اور گھر سر پر اٹھا کر دائیں بائیں کے مکانوں سے اونچا کرسکتا تھا۔ ساری رات پریشانی سے نیند نہیں آرہی تھی۔ آخر میں نے ایک تجربہ کرنے کا سوچا۔ اگلے دن ایک چار فٹ کی بڑی ٹیوب لائٹ لاکر بچی کے بستر کیساتھ ہی دیوار پر لگادی۔ دو تین دن لگاتار ٹیوب لائٹ کی روشنی ملنے کی وجہ سے بچی کی آنکھوں کا زرد رنگ ہلکا ہوتے ہوتے معمول پر آگیا اور بچی تندرست ہوگئی۔
گھر جھنڈا چیچی کی ایک گلی میں بہت اندر تھا۔ پورا گھرایک چھوٹے سے کمرے، ایک چھوٹے سے غسل خانے اور برآمدے پر مشتمل تھا۔ اگرچہ یہ پہلی منزل پر تھا لیکن دائیں بائیں اور آگے پیچھے اونچے اونچے کئی منزلہ مکان تھے جسکی وجہ سے آسمان کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہی نظر آتا تھا۔ اگر مالی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ میری زندگی کا سب سےغریب ترین دور تھا۔ تنخواہ جیسا کہ سرکاری ملازمت میں ابتداء میں بہت کم ہوتی ہے، میری بھی بہت کم تھی۔ اوپر سے مکان کا کرایہ، بجلی اور گیس کے بل، بچی کا دودھ اور گھر کے سودا سلف کا خرچہ۔ عموماً پیسے اگلی تنخواہ سے کچھ دن پہلے ہی ختم ہوجاتے۔ ایسے بھی دن آئے کہ پیسے ختم ہوگئے اور بچی بیمار ہوئی تو نہ ڈاکٹر کی فیس کے پیسے تھے نہ دوائی لینے کے۔ بچی کا بُخار کم کرنے کیلئے اسکے سر اور جسم پر گیلا کپڑا ڈالتے رہتے۔ زمانہ طالبعلمی سے ہی میں ٹیوشن پڑھا کر اپنا خرچہ خود ہی اٹھاتا تھا۔ گھر میں بھی اگر کسی نے پیسے خود سے دے دئیے تو ٹھیک ورنہ میں نے کبھی نہیں مانگے۔ اب جبکہ میں برسر روزگار بھی تھا اور پردیس میں بھی تھا کسی سے پیسے ادھار کیسے مانگتا؟ بہرحال چند ماہ اسی طرح گزار لئے۔
میں اپنے آپ کو اس لحاظ سے بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اللہ نے مجھے کبھی لمبی آزمائش میں نہیں ڈالا۔ وقتی مشکلات ضرور آئی ہیں لیکن پھر ان مشکلات کا حل بھی کہیں نہ کہیں خود ہی نکل آتا ہے۔ ملٹری اکاؤنٹس ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں ہمارے ایک انسٹرکٹر جمال ناصر صاحب بھی تھے۔ انکے والد کا تعلق بنوں سے تھا لیکن راولپنڈی کے مستقل رہائشی تھے اور زندگی میں صرف ایک بار ہی بنوں گئے تھے۔ انہیں پشتو بھی نہیں آتی تھی لیکن اسکے باوجود بھی میرے ساتھ انکو ایک خاص لگاؤ تھا کہ میرا تعلق جس ضلع سے تھا وہ بنوں کا قریب ترین ضلع تھا۔ ایک دن باتوں باتوں میں گھر کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا کہ مبارک لین اڈیالہ روڈ پر ہمارا ایک مکان خالی پڑا ہے اور ہم اسکے بل ادا کر کر کے تھک گئے ہیں تو اگر آپ چاہتے ہیں تو اس میں رہ لیں۔ میں نےکہا کہ ٹھیک ہے مکان دکھادیں۔ وہ چھٹی کے بعد مکان دکھانے لے گئے۔ مکان میرے ایک کمرے کے مکان کے مقابلے میں بہت بڑا تھا۔ اس میں دو بیڈروم، ایک لا ونج ایک ڈرائنگ روم اور ایک کچن تھا۔ وہ علاقہ بھی ذرا کھلا اور نسبتاً صاف تھا۔ مجھے مکان پسند آیا۔ کرایہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کرایہ کچھ نہیں اسکا بس آپ رہ لیں۔ اگر میں انکی آفر قبول کرلیتا تو میرے معاشی حالات پر بہت خوشگوار اثر پڑ سکتا تھا لیکن مجھے ایسے مفت رہنا مناسب نہ لگا۔ جب بہت اصرار کیا اور شرط رکھ دی کہ کرایہ لیں گے تو تب ہی گھر میں رہوں گا ورنہ نہیں، تو انہوں نے کہا کہ چلیں ٹھیک ہے جتنا کرایہ آپ آسانی سے دے سکیں دے دینا۔ میں نے ڈھائی ہزار روپے کرایہ مقرر کیا جس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اور یوں غاروں کے زمانے سے ایک جست میں میں باقاعدہ مکان میں شفٹ ہوگیا۔ گھر میں کل سامان ایک چٹائی جس پر ایک میٹرس بچھا کر سوتے تھے، ایک بڑی رضائی، دو تکیے، ایک فرج اور ٹی وی، ایک گیس کا چولہا، کپڑے اور کھانے پینے کے برتن۔ اب گھر تو بہتر ہوگیا تھا لیکن تنخواہ اب پہلے سے بھی زیادہ جلدی ختم ہونے لگی تھی کیونکہ اب دفتر آنے جانے کا بھی کرایہ لگتا تھا جبکہ پہلے میں جھنڈا چیچی سے سول لائنز اور پھر وہاں سے ریلوے لائن کیساتھ ساتھ پیدل چل کر راولپنڈی صدر دفتر آتا جاتا ڈیڑھ سے دو کلومیٹر تھا۔ تاہم ایک فائدہ یہ ہوا کہ وہیں مبارک لین میں ایک پٹھان کی دوکان تھی جس سے مہینے بھر کا سودا سلف لے جاتا اور تنخواہ ملنے کے بعد پیسے دے دیتا۔ چونکہ نقد پیسے اسی وقت نہیں دینے پڑتے تھے اسلئے خرچہ بھی بڑھ گیا اور تنخواہ جو پہلے ہفتہ بھر پہلے ختم ہوتی تھی اب دس پندرہ دن پہلے ختم ہونے لگی۔ اس صورتحال سے پریشان ہوکر میں نے متبادل ذرائع آمدن کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔ دھاماں موڑ پر ایک فروٹ کی ریڑھی والا بابا تھاجسکا تعلق سوات سے تھا۔ بچی اب چار پانچ ماہ کی تھی اور ٹھوس غذا کھا لیتی تھی اور کیلے شوق سے کھاتی تھی۔ اکثر شام سے پہلے کیلے لینے کیلئے اسکے پاس جاتا تھا۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ باباجی آپ کتنے پیسے کما لیتے ہیں؟ کہنے لگا بس اتنے ہوجاتے ہیں کہ مہینے بعد گھر جاکر گھر کا خرچ دے آتا ہوں اور میرا یہاں رہنے اور کھانے پینے کا خرچہ بن جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ اتنا تو آپ سوات میں بھی کما سکتے تھے پھر اتنا دور آنے کا فائدہ؟ وہ ہنس پڑا اور چائے والے کو چائے لانے کا کہہ کر ریڑھی کے نیچے سے سٹول نکال کر مجھے بیٹھنے کو کہا۔
کہنے لگا بیٹا یہ بات آپ آج پوچھ رہے ہیں اور میں روزانہ رات کو سونے سے پہلے یہی بات سوچتا ہوں۔ پھر میرے گود میں بیٹھی ہوئی بیٹی کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا جب یہ پیدا ہوئی تھی تو روئی تھی؟ میں نے کہا کہ میں تو ادھر راولپنڈی میں تھا اور یہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئی تھی مجھے نہیں پتا لیکن روئی ہوگی کیونکہ بچہ پیدا ہوتے ہی روتا تو ہے۔ کہنے لگا آپکو پتا ہے بچہ کیوں روتا ہے؟ میں نے کہا نہیں؟ کہنے لگا جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسکے ایک ہاتھ میں اسکی عمر کا پرچہ ہوتا ہے اور دوسرے ہاتھ میں رزق کا۔ پھر ایک فرشتہ وہ پرچے چھین کر لے جاتا ہے تو بچہ رونا شروع کردیتا ہے۔ جو بچہ روتا نہیں وہ یا تو مرا ہوا پیدا ہوتا ہے یا فوراً مر جاتا ہے۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ اسکے ہاتھ میں نہ رزق کا پرچہ ہوتا ہے نہ عمر کا۔ اچھا تو وہ فرشتہ آسمان پر جاکر عمر کا پرچہ وہیں رکھ لیتا ہے جبکہ رزق کا پرچہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے وہیں سے پھینک دیتا ہے۔ پھر وہ ٹکڑے ہوا سے ادھر اُدھر بکھر جاتے ہیں۔ کوئی ٹکڑا کہاں گرتا ہے تو کوئی کہاں۔ ان ٹکڑوں کا اتا پتا بچے کے کان میں بتا دیا جاتا ہے۔ پھر انسان ساری زندگی گھوم پھر کر وہ ٹکڑے چنتا رہتا ہے۔ میرے رزق کے پرچے کا کوئی ٹکڑا دھاماں موڑ پر گرا ہے اور وہی چننے کیلئے مجھے بھیجا گیا ہے۔ جب وہ پورا ہوجائیگا تو آپ آئیں گے اور ادھر میں نہیں ہوں گا کوئی اور پھل بیچ رہا ہوگا۔ چائے پی کر میں گھر کی طرف چل دیا لیکن بابا کی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔ میں رات کو بھی بہت دیر تک کروٹیں بدل بدل کر بابا کی بات پر غور کرتا رہا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جس گھر میں میں رہ رہا تھا وہ رہنے کیلئے کافی تھا۔ یہاں بھی ایک ہی کمرہ ہمارے استعمال میں ہے باقی کمروں میں رہنا تو دور کی بات رکھنے کیلئے کوئی سامان ہی نہیں۔ پھر مجھے اڈیالہ روڈ پر کیوں بھیجا گیا؟ یہاں میرا کونسا رزق پڑا ہے جو مجھے نہیں معلوم؟ لیکن مجھے سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ نہ جانے کس وقت نیند آئی اور میں سوگیا۔ اگلے دن میں پھر وہاں گیا تو بابا جی سے گپ شپ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی باتوں نے مجھے ساری رات سونے نہیں دیا۔ کہنے لگے کیوں کیا ہوا؟ میں کہا کہ میں ساری رات یہی سوچتا رہا کہ مجھے اڈیالہ روڈ کیوں بھیجا گیا میرا کونسا ٹکڑا یہاں گرا ہے۔ ہنس کر کہنے لگے صاحب آپ تو سرکاری ملازم ہیں نا۔ میں نے کہا نہیں وہ تنخواہ تو مجھے دفتر کے قریب والے گھر میں بھی مل رہی تھی۔ یہاں بھیجا گیا ہوں تو رزق کا کچھ اور حصہ اڈیالہ روڈ پہ ضرور پڑا ہے۔ پھر مذاق کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آپکی فروٹ والی ریڑھی کیساتھ مجھے سبزی کی ریڑھی لگانی پڑے گی۔ وہ میری بات سن کر ہنس پڑے پھر کہنے لگے بیٹا آپ تو پڑھے لکھے ہیں یہ کام تو ہم ان پڑھوں کا ہے آپ سو بہتر کام کرسکتے ہیں۔ میں نے کہا کہ تجارت کوئی برا کام تو نہیں یہ تو پیغمبروں کا پیشہ رہا ہے۔ کہنے لگے وہ تو ٹھیک ہے لیکن تجارت بھی پڑھے لکھے لوگوں والی ہو نا۔ پھر سامنے کتابوں اور سٹیشری کی دوکان کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اگر میں دوچار جماعتیں پڑھ لیتا تو اس کی طرح کتابیں بیچتا دیکھو کتنا صاف ستھرا کام ہے اور سارے پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے گاہک آتے ہیں۔ میں کتابوں کی دوکان اور اس میں آتے جاتے گاہکوں کو دیکھنے لگا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں اٹھ کر کتابوں کی دوکان میں داخل ہوگیا.
ملٹری اکاؤنٹس کی یادیں (حصہ چہارم)
بابا جی کی بات نے میرا بڑامسئلہ حل کردیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ متبادل اور مزید آمدن کیلئے کیا کرنا چاہئیے سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن باباجی کی بات سمجھ میں آگئی۔ میں نے دوکاندار سے کہا کہ اگر میں یہاں ایک چارٹ پر لکھ دوں کہ ٹیوشن کیلئے رابطہ کریں اور سامنے شیشے پر لگا لوں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ دوکاندار نے کہا نہیں، لگالیں اور اپنا ٹیلی فون نمبر یا موبائل نمبر لکھ لیں لوگ خود ہی رابطہ کرلیں گی۔ یہاں آکر بات پھر اٹک گئی۔ میرے پاس نہ تو ٹیلی فون تھا نہ موبائل۔ موبائل فون کی سم ان دنوں پچیس سو روپے کی ملتی تھی جبکہ پچیس سو میرے گھر کا ماہانہ کرایہ تھا یوں سم خریدنا میری اوقات سے باہر کی بات تھی۔ نو کیا ۳۲۱۰ اور ۳۳۱۰ بھی میری بساط سے باہر تھے۔ اب یہ تو فیصلہ کرلیا تھا کہ کیا کرنا ہے لیکن کیسے کرنا ہے یہ اب بھی معمہ بنا ہوا تھا۔ میرے گھر کے سامنے عمران صاحب رہتے تھے جو سی ایم اے آڈٹ کے پی اے تھے۔ میں نے ان سے موبائل نمبر لیا تاکہ رابطے کیلئے اشتہاری کاغذ پر لکھ لوں اور اگر کوئی رابطہ کرے تو وہ بتادیں گے۔ انہوں نے نہ صرف موبائل نمبر دیا بلکہ ایک موٹرولا سی ۱۱۵سیٹ سم کارڈ سمیت دیا اور کہا کہ جب تک اپنا نہیں لیتے یہ استعمال کریں۔ اسکے علاوہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے بچوں کو ٹیوشن کیلئے بھیجنا شروع کردیا۔ اسکے بعد جب کتابوں کی دوکان پر اشتہار لگایا تو اچانک ٹیوشن پڑھنے والوں کی لائن لگ گئی۔ ایک ماہ بعد حالت یہ ہوگئی کہ دو بجے گھر پہنچ کر کھانا کھاتا اور تین بجے سے ٹیوشن والے بچے آنا شروع ہوجاتے جو رات دس گیارہ بجے تک سلسلہ جاری رہتا۔ میری معیشت اب قرضوں کے بوجھ تلے سے نکل آئی تھی اور جتنی میری ماہانہ تنخواہ تھی اس سے کہیں زیادہ میری ٹیوشن کی آمدن ہوگئی۔ گو کہ یہ کام انتہائی تھکا دینے والا تھا لیکن جسمانی تھکاوٹ سے کہیں زیادہ مشکل وہ ذہنی دباؤ تھا جو میں اس سے پہلے برداشت کرتا رہا تھا۔ اسلئے جسمانی تھکاوٹ مجھے کوئی مشکل نہ لگی۔
اس گھریلو زندگی کے علاوہ ایک دفتری زندگی بھی تھی۔ دن کا ایک حصہ دفتر میں گزر جاتا جسکا ابھی تک ذکر نہیں ہوا۔ میری پوسٹنگ سی ایم اے (آفیسرز پینشن ) میں ہوئی۔ پینش پیمنٹ گروپ ۳ کا انچارج بنا دیا گیا۔ میرے پاس کل چار آڈیٹرز تھے۔ ایک کا تعلق ڈیراسماعیل خان سے تھا انکا نام عبدالسلام خان گنڈہ پور تھا اور اب وہ ریٹائر ہوکر واپس ڈیرہ اسماعیل خان آکر رہنے لگے ہیں۔ ایک کا نام صدیق تھا جو غالباً ٹیکسلا یا واہ کینٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک کا نام محمد اسلم تھا انکا تعلق چکوال سے تھا۔ وہ حکیم، ہومیو ڈاکٹر اور انتہائی خوش مزاج انسان تھے۔ چوتھی ایک لڑکی تھی جسکا نام غالبا کوثر تھا۔ ہمارا کام سادہ سا تھا۔ ریٹائرڈآرمی آفیسر اپنے پینش کے بل ہمیں بھیجتے۔ ہم ان پر ضروری کاروائی کرکے انکے ماہانہ چیک انکے متعلقہ اکاونٹ میں بھجوا دیتے اور ساتھ پینشنرز کو بھی اطلاعی چٹھی (چیک سلپ)بھجوادی جاتی۔
عمر کے اس حصے میں آکر یہ اندازہ ہوا ہے کہ آپ بھلے دنیا جہان کی کتابیں پڑھ لیں ٹریننگ حاصل کریں آپ اپنے تئیں بڑے ذہین فطین ہوں لیکن تجربہ حاصل کرنے کا نہ تو کوئی شارٹ کٹ ہے اور نہ ہی نعمُ البدل۔ آپ کے پاس کتابی علم جتنا بھی ہو اس سے آپ صحیح معنوں میں مستفید تب ہی ہوسکتے ہیں جب تجربے کے بنیاد پر آپ اس علم کا صحیح استعمال کرسکیں۔ ناتجربہ کاری، جوش جوانی اور جذباتیت کی وجہ سے جو چند بڑی بڑی غلطیاں مجھ سے سرزد ہوئیں انکا ذکر کرنا یہاں ضروری ہے تاکہ اگر کوئی نوجوان افسر جسکا دماغ ساڑھے ساتویں آسمان پر ہو یہ غلطیاں نہ دہرائے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ پینشن کے چیک بینک بھجوا دئیے جاتے اور معلوماتی چٹھی پینشنر کے گھر کے پتے پر بھجوادی جاتی تھی تاکہ پینشنر کو پتا چلے کہ اسکی پینشن بینک بھیج دی گئی ہے۔ ایک پینشنر کا خط موصول ہوا کہ جوکہ بڑی شستہ انگریزی میں لکھا گیا تھا جس میں وہ شکوہ کر رہے تھے کہ انہیں دو مہینے سے معلوماتی چٹھی نہیں مل رہی۔ میں نے جاکر ڈسپیچ سیکشن کے انچارج سے کہا کہ چٹھیاں آپ کو دے دی جاتی ہیں آپ لوگوں کو کیوں نہیں بھیجتے؟ جواباً اس نے کہا کہ ہمارے پاس بجٹ کم ہے اسلئے صرف چیک بھجوائے جارہے ہیں۔ میں سیدھا واپس اپنی سیٹ پر آیا اور اپنی انگریزی دانی ثابت کرنے کیلئے جواباً لکھ بھیجا کہ ہمارے پاس بجٹ کی کمی ہے جسکی وجہ سی ہم فی الحال صرف چیک ہی بھجوا پار ہے ہیں۔ جوں ہی اضافی بجٹ منظور ہوگا آپ کو خطوط ملنے لگیں گے۔ خط بھیج کر میں مطمئن ہوگیا۔
اس بات کو ایک ہفتہ ہوا ہوگا کہ ایک دن گروپ نمبر ایک جو دروازے کیساتھ تھا، میں کوئی سفید ریش صاحب کھڑے تھےجو بار بار پوچھ رہے تھے کہ کس نے کیا ہے اور سب انکار میں سر ہلا رہے تھے۔ مجھے تجسس ہوا تو اٹھ کر وہاں گیا اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ ان صاحب نے ایک خط دکھایا کہ یہ خط کس نے لکھا ہے؟ یہ وہی خط تھا جو میں نے لکھا تھا۔ میں نے فوراً کہا کہ میں نے لکھا ہے۔ ان کے تیور فوراً بدل گئے اور سخت لہجے میں کہا کہ کس کہنے پر لکھا ہے؟ میں نے کہا کہ ایک پنشنر کا خط آیا تھا وہ وجہ جاننا چاہتے تھے اور وجہ وہی تھی جو لکھی ہے۔ وہ تھوڑے سے حیران ہوئے پھر کہنے لگے آپ سے کس نے کہا کہ بجٹ نہیں ہے۔ میں نے کہا ایک منٹ رکیں ابھی بتاتا ہوں کہ کہہ کر میں ڈسپیچ سیکشن کی طرف مڑا اور وہیں سے ڈسپیچ سیکشن والوں کو پکارا “شوکت وہ چیک سلپ لوگوں کو ابھی تک نہیں مل رہیں مسئلہ کیا ہے؟ میں نے جان بوجھ کر تھوڑا سختی سے پوچھا تاکہ متوقع رد عمل آئے۔ ادھر سے اسی درشتگی سے جواب ملا، “جناب دس بار بتا چکے ہیں بجٹ نہیں اب پلے سے بھیجیں کیا؟” جواب مل چکا تھا میں ان صاحب کی طرف مڑا اور کہا کہ اب سن لیا نا اپنے کانوں سے؟ وہ مسکرائے اور مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے باہر جانے لگے۔ وہ ملٹری اکاونٹنٹ جنرل آفس کے کمپلینٹ سیل کے انچارج تھے۔ انہوں نے پہلے میرا تعارف پوچھا پھر اپنا تعارف کروایا اور بعد میں سمجھایا کہ دفتری معاملات میں اس طرح نہیں لکھتے۔ میں نے کہا کہ میرے خط میں کوئی ایک بات جھوٹی تھی؟ ہنس کر کہنے لگے کہ وقت کیساتھ ساتھ تمہیں سمجھ آجائیگی کہ کونسا سچ کہاں کس حد تک بولنا ہوتا ہے۔ پھر ایک کہ چائے اور ڈھیر ساری نصیحتیں پلا کر رخصت کردیا۔ تاہم دوبارہ کبھی بجٹ کی کمی پیش نہیں آئی۔
دوسرا واقعہ جو مجھے یاد ہے وہ کچھ یوں تھا کہ کنٹرولر صاحب معائنہ کر رہے تھے۔ گروپوں میں آکر حاضری رجسٹر چیک کیا تو اس میں میرا ایک آڈیٹر چھٹی پر تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ یہ بندہ واقعی چھٹی پہ ہے یا فرلو پر ہے۔ (اس وقت تک مجھے فرلو کے بارے میں کوئی خاص علم نہیں تھا) اسکی چھٹی کی درخواست موجود تھی اسلئے مجھے انکی بات انتہائی ناگوار گزری گویا انہوں نے میری سچائی پر سوال اٹھایا اور بائیس سال کی عمر میں جب میری جذباتیت عروج پر تھی، مجھے انکی بات گولی کی طرح لگی۔ میں نے انتہائی رکھائی سے کہا کہ درخواست فائل میں موجود ہے آپ دیکھ سکتے ہیں اور ان معاملات میں میں مذاق کرنے کا عادی نہیں ہوں۔ یہ جواب میں نے اپنے سب سے بڑے باس کو دیا جو یقیناً انہیں ناگوار گزرا۔ ان کے جانے کے بعد سب لوگ میرے پاس آکر کہنے لگے کہ تم نے انتہائی غیر مناسب جواب دیا ہے اور اب انتظار کرو کہ تمہارے ساتھ ہوتا کیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ کنٹرولر جان سے مار سکتا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ پھر پوچھا نوکری سے نکال سکتا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں؟ پھر پوچھا تنخواہ بند کرسکتا ہے؟ جواب ملا نہیں؟ تو پھر اسکے علاوہ کچھ بھی کرلے مجھے کیا فرق پڑتا ہے؟ میں اپنی ضد پر اڑا ہوا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ کسی اچھی سیٹ پر تمہاری تعیناتی نہیں ہوگی اور ہوسکتا ہے کھڈے لائن لگا دیا جائے۔ ممکن ہے بد تمیز کاکوئی رد عمل ظاہر ہوتا لیکن ایک ہفتے بعد ہی کنٹرولر صاحب کا تبادلہ ایچ آئی ٹی (ٹیکسلا) ہوگیا اور یوں یہ باب بند ہوگیا۔ اُس وقت مجھے اپنے روئیے پر فخر تھا لیکن آج سوچتا ہوں تو اگر اس باس کی پوزیشن میں میں ہوتا اور میرا ماتحت اس طرح بدتمیزی کرتا تو شاید بہت بری طرح پیش آتا وہ بھلے مانس انسان تھے انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ ٹیکسلا نئی کمانڈ کیلئے جب میں نے اپنی درخواست دی تو بقول شخصے انہوں نے سب سے پہلے میری درخواست یہ کہہ کر پھاڑ دی کہ اس بدتمیز سے تو میں یہاں بھی تنگ ہوں یہ ادھر ساتھ کہاں جارہا ہے۔
تیسرا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے ایک بریگیڈئیر ریٹائرڈ پینشنر تھے جو اپنا ذہنی توازن کھو چکے تھے لیکن اپنے آپ کو وہ اب بھی حاضر سروس بریگیڈئیر ہی سمجھتے تھے۔ ان سر میں نہ جانے کہاں سے یہ سودا سمایا کہ ان کی پینشن انہیں پوری نہیں مل رہی۔ انہیں بہ تیرا سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھے تو میں نے ہاتھ کھڑے کردئیے کہ بزرگو آپ کے مسئلے کا میرے پاس کوئی حل نہیں۔ انہوں نے درخواست دی جس پر آفس نوٹ لگا کر میں نے آگے بھجوادی اور وہ ڈپٹی کنٹرولر کے پاس پڑی تھی کہ وہ صاحب میری شکایت لیکر انکے پاس پہنچ گئے۔ ڈپٹی کنٹرولر سخاوت صاحب تھے اور رینکر تھے اور خاصے تلخ مزاج بھی۔ انہوں نے مجھے بلوایا تو میں حاضر ہوگیا۔ مخبوط الحواس پینشنر کو دیکھ کر مجھے غصہ تو ویسے بھی تھا لیکن افسر بالا کے سامنے خاموش رہا۔ جب انہوں نے کہا کہ ان کا مسئلہ حل کیوں کر رہے تو میں نے ان کا کیس زبانی سمجھانا شروع کردیا۔ ابھی میں آدھی کہانی بھی نہ سنا پایا تھا کہ سخاوت صاحب بگڑ گئے۔ شاید ان کو بھی بریگیڈئیر صاحب نے زچ کیا ہوا تھا۔ کہنے لگے آپ ابھی نئے ہیں اسلئے آپکو معلوم نہیں کہ دفتری کام زبانی نہیں ہوتے آفس نوٹ لکھ کر پیش کرتے ہیں۔ وہ شاید شکایت کنندہ کی تسلی کروانے کیلئے مجھ پر خفگی کا اظہار کر رہے تھے لیکن میں تو ویسے ہی ہر وقت بگڑا رہتا تھا انکے غصے سے آگ بگولا ہوگیا۔ عرض کیا کہ سر لکھا ہوا تو پڑھے لکھوں کیلئے ہوتا ہے اگر آپ اپنی میز پر دیکھیں تو دائیں طرف سبز رنگ کے فولڈر میں آفس نوٹ پڑھا ہے اگر آپ پڑھ سکیں تو۔ اور زبانی اسلئے سنا رہا ہوں کہ آپ نے پوچھا زبانی ہے۔ سخاوت صاحب کا بس نہیں چلتا تھا کہ جوتا اتار کر وہیں میری مرمت کردیں اسلئے بُرا سا منہ بنا کر کہا ٹھیک تم جاؤ۔ اور میں باہر نکل گیا۔ اس واقعے کے بعد میرا نا پھڈے باز رکھ دیا گیا۔ اپنے نام سے کم اور پھڈے باز کے نام سے زیادہ یاد کیا جانے لگا۔
چوتھا واقعہ ناقابل اشاعت حد تک غیر مہذب ہے۔ جو لڑکی میرے گروپ میں کام کرتی تھی وہ دودن بغیر اطلاع کے نہیں آئی۔ جب میں نے اپنے سٹاف سے اسکی درخواست کے بارے میں پوچھا تو سب نے کہا کہ فرلو کی ہوگی۔ میں نے پوچھا فرلو کیا چیز ہوتی ہے؟ کہنے لگے بغیر درخواست کے چھٹی کرلینا اور واپس آکر حاضری لگا لینا۔ میں نے کہا یہ تو غیر قانونی چھٹی ہوگئی۔ جواب میں کہنے لگے کہ یہاں ایسے ہی ہوتا جب کام کا رش نہیں ہوتا تو سب کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اگر سب لوگ روزانہ ایک ایک قتل اور ایک ایک ڈاکہ ڈالنے لگ جائیں تو کیا وہ ہمارے لئے حلال ہوگا؟ اسکے بعد میں نے اسکو لال پین سےغیر حاضر کردیا۔ اگلے دن میں ہال میں داخل ہوا تو کوئی خاتون چلا چلا کر بول رہی تھیں۔ قریب جاکر دیکھا تو آواز میرے گروپ سے ہی آرہی تھی اور وہی میرے گروپ والی خاتون تھیں۔ میرا بلڈ پریشر چھت کو چھو رہا تھا لیکن خود پر قابو رکھتے ہوئے پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟ کہنے لگی کس کی جرات ہے کہ مجھے غیر حاضر کرے مجھے کبھی کنٹرولر نے بھی غیر حاضر نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ میں نے کیا ہے اور تماشا بنانے کی ضرورت نہیں یہ بات ذرا سلیقے سے بھی پوچھ سکتی ہو اس میں اتنا چلانے والی کیا بات ہے؟ وہ اور بھی زور زور سے چلانے لگی۔ میری برداشت جواب دے چکی تھی اسلئے سامنے پڑی بڑی سی ایش ٹرے اٹھائی اور اس کی طرف بڑھنے لگا۔ باقی سٹاف والے سیٹوں سے اٹھنے لگے تھے کہ میں نے منع کردیا اور کہا کہ جو بیچ میں آیا وہ نےائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔ اسکے سر پر جاکر ٹھہر گیا اور کہا کہ اب ذرا منہ سے ایک لفظ نکال کر دکھاؤ۔ وہ بیچاری سہم کر بیٹھ گئی اور پھر میز پر سر رکھ کر رونے لگی۔ میں تھوڑی دیر وہیں کھڑا رہا پھر واپس آکر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جب میرا غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور وہ سارا دن روتی رہی تو مجھے اس پر ترس اور خود پر غصہ آنے لگا۔ پھر اسکو سمجھانا شروع کیا کہ اسے اس طرح آسمان سر پر نہیں اٹھانا چاہئے تھا۔ اس نے ہچکیوں لے لے کر بتایا کہ اسکی ماں بیمار ہے اور اسکے لئے اسے مہنےُ میں دوچار دن فرلو کرنی پڑتی ہے۔ یہ سن کر مجھے اور بھی برا لگا۔ اس دن کے بعد وہ سب سے فرمانبردار سٹاف ممبر بن گئیں۔اسکے بعد اکثر اس واقعے کو یاد کرکے ہم سب بہت ہنستے تھے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں