جمعہ، 10 مئی، 2019

ملٹری اکاؤنٹس کی یادیں (حصہ پنجم)

ہمارے کنٹرولر صاحب تبدیل ہوگئے اور نئے کنٹرولر مسعود شیروانی صاحب نے چارج لے لیا۔ دفتروں میں آپ کی شہرت آپ سے ایک میل آگے آگے چلتی ہے۔ نئے کنٹرولر صاحب کو میری شہرت بطور پھڈے باز پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے پہلی میٹنگ میں ہی پوچھ لیا کہ آپ کو پھڈے باز کیوں کہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ سر میں تو اپنا کام سیدھے طریقے سے قواعد و ضوابط کے مطابق کرنے کی کوشش کرتا ہوں لوگ اسکو پھڈے کانام دے دیتے ہیں۔ لوگ بھلے پھڈے باز کہتے ہوں لیکن میں ان سے متفق نہیں ہوں یہ صرف انکی رائے ہے۔ انہوں نے دفتر کے اندر جتنے پھڈے والے کام تھے وہ میرے ذمے لگا دئیے جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے دفتر کے اندر ہی آدھے لوگ مجھ سے ناراض ہوئے۔ شیروانی صاحب ایک انتہائی ماہر ایڈمنسٹریٹر تھے اور وہ ہر شخص سے اسکی استعداد کے مطابق کام لینا جانتے تھے۔ انکا رویہ انتہائی دوستانہ تھا اور ہر بات بغیر لگی لپٹی کرنے کے عادی تھے۔ پہلی دفعہ مجھے کسی افسر کیساتھ کام کرتے ہوئے اچھا محسوس ہونے لگا تھا۔ 
ایک دن ہمارے سابقہ انسٹرکٹر منظور کیانی صاحب سے بات ہورہی تھی تو میں نے پوچھا کہ سر ہماری پروموشن کب ہوگی؟ ہنس کر کہنے لگے کہ باقی تو مجھے کچھ نہیں پتا البتہ یہ بتا سکتا ہوں کہ ۱۹۸۵ میں میں آپ لوگوں کی طرح آیا تھا اور انیس سال بعد بھی اسی گریڈ میں بیٹھا ہوں اب آپ خود اندازہ لگالیں۔ انکی اس بات سے مجھے شدید مایوسی ہوئی اور میں نے ادھر ادھر دوسری نوکری کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردئیے۔ ہر دوسرے تیسرے دن کسی جاب کیلئے اپنے دستاویزات اور اسناد کے نقول بھیجتا۔ ہفتے میں ایک دن شام کو انٹرنیٹ کیفے میں بیس روپے فی گھنٹہ کے حساب سے انٹرنیٹ استعمال کرتا اور اس زمانے میں آن لائن جابز جو کوئی میسر آتیں انکے لئے اپلائی کرلیتا۔ سب سے پہلے سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن میں جونئیر ایگزیکٹیو کی سیٹ کیلئے تحریری امتحان کا خط ملا۔ یہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے امتحان بعد پہلا اور میری زندگی کا دوسرا مقابلے کا امتحان تھا۔ ٹیسٹ میں انگریزی اور ریاضی کا حصہ تو آسان لگا لیکن جب آگے معلومات عامہ اور انا لیٹیکل اور لاجکل کے حصے میں پہنچا تو جواب تو دور کی بات مجھے سوال تک کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اس سے پہلے زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کوئی سوال میں نے حل کئے بغیر یا کم از کم اپنی سمجھ کے مطابق حل کرنے کی کوشش کئے بغیر چھوڑا ہو۔ لیکن اس ٹیسٹ میں آدھا پرچہ میں نے بالکل چھوڑ دیا کیونکہ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ سوال میں مانگا کیا ہے۔ اس ٹیسٹ سے میں بری طرح مایوس ہوگیا۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ اسکے بعد میں کسی ٹیسٹ میں جاؤں گا ہی نہیں۔ جو نوکری مل گئی ہے اس پر صبر شکر کرکے بیٹھ جاتا ہوں۔ جو ٹیسٹ حادثاتی طور پر پاس کرلیا اور نوکری مل گئی وہی کافی ہے۔ کچھ دنوں بعد ایم سی بی بینک سے کال آئی کہ آپ نے ٹیلر کی پوسٹ کیلئے آن لائن ایپلائی کیا تھا اور کل تین بجے اسلام آباد میں آپکا انٹرویو ہے۔ میں نے پوچھا ٹیسٹ کب ہوگا تو جواب ملا کہ ٹیسٹ نہیں ہے براہ راست انٹرویو ہوگا۔ یہ سن کر مجھے تسلی  اور بے انتہا خوشی ہوئی۔ اگلے دن میں مقررہ وقت پر انٹرویو کیلئے پہنچ گیا۔ تین لوگ انٹرویو لے رہے تھے۔ انہوں نے تعارف کے بعد پوچھا کہ آپ ملٹری اکاؤنٹس میں گزٹڈ آفیسر کی پوسٹ چھوڑ کر ٹیلر بننا چاہتے ہیں؟ انکے انداز سے ہی میں نے بھانپ لیا کہ یہ پوسٹ میری موجودہ نوکری کے مقابلے میں کم تر ہے۔ عرض کیا کہ مجھے کچھ پتا نہیں کہ ٹیلر کیا ہوتا ہے اور مجھے تنخواہ کا بھی اندازہ نہیں۔ (مجھے لگا تھا شاید ٹیلر منیجر سے تھوڑا اوپر یا ذرا سا نیچے ہوتا ہوگا)انہوں نے بتایا کہ ٹیلر کا کام کیش وصولی اور ادائیگی ہے اور ماہانہ تنخواہ چھ ہزار فکسڈ ہے۔ اتنا کچھ سننے کے بعد بھی میں نے سوال پوچھا کہ اس جاب میں ترقی کرنے کے چانسز کیا ہیں۔ جواب ملا کوئی بھی نہیں۔ پھر انہوں نے پوچھا کیا آپ ٹیلر بننے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ میں نے جواب دیا نہیں۔ اسکے بعد خاموشی سے باہر نکل آیا۔
میں شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار رہا۔ وجہ ٹیسٹ کا خوف تھا۔ جونئیر ایگزیکٹیو کے ٹیسٹ سے جس بری طرح سے پٹا تھا دوبارہ کسی ٹیسٹ میں بیٹھنے کا حوصلہ نہیں ہورہا تھا۔ 
میں اتوار کے دن بلا ناغہ صدر جاتا جہاں کتابوں کا میلہ سا لگا ہوتا تھا۔ صدر کی ساری بڑی سڑکوں پر کتابوں کے سٹال لگے ہوتے تھے۔ میں ایک سرے سے شروع ہوتا اور ہر سڑک کی کتابیں چھانتا۔ کتابیں دیکھتے دیکھتے میری نظر ایک کتاب پر پڑی جس کے ساتھ ایک سی ڈی بھی تھی۔ سی ڈی کی وجہ سے وہ کتاب میں نے اٹھائی اور ورق گردانی کرتے ہوئے اسکے سوال دیکھ کر لگا کہ اس طرح کے سوالات میں نے پہلے کبھی دیکھے ہیں۔ پھر یاد آیا کہ یہ تو وہی سوالات ہیں جو جونئیر ایگزیکٹیو والے ٹیسٹ میں آئے تھے۔ میں نے وہ کتاب لے لی۔ وہ بیرنز کی جی آر ای تھی۔ ایک مہینے میں وہ کتاب میں نے نہ صرف پڑھ لی تھی بلکہ اسکے تمام سوال بھی حل کرلئے تھے۔ ہفتے اور اتوار کو ٹیوشن کی چھٹی ہوتی تھی تو صبح سے رات تک میں اسی کا مطالعہ کرنے اور سوالات حل کرنے میں لگا رہتا۔ اب میرا نفسیاتی دباو کافی حد تک ختم پوچکا تھا اور اعتماد لوٹ آیا تھا۔ انہی دنوں سوئی ناردرن گیس میں ایڈمن آفیسر اور مارکیٹنگ آفیسر کی آسامیوں کا اشتہار بڑے بھائی کو کہیں اخبار میں نظر آیا تو انہوں نے بذریعہ ڈاک بھجوا دیا اور حکم دیا کہ اسکے لئے آن لائن ایپلائی کرو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ جب ٹیسٹ کیلئے لاہور بلایا گیا تو خط کیساتھ ٹیسٹ کا نمونہ بھی بھیج دیا گیا اور بتایا گیا کہ تین گھنٹے دورانئے کا ٹیسٹ ہوگا۔ میں نے ایک دن پہلے دفتر سے چھٹی لی اور بذریعہ ریل گاڑی شام کے وقت لاہور پہنچ گیا۔ اس سے پہلے میں ایک ہی دفعہ لاہور گیا تھا اور وہ بھی ڈیرہ اسماعیل خان سے رات بھرسفر کرکے دن کے وقت ایک رشتہ دار کیساتھ کچھ خریداری کرکے پھر واپسی کا سفر کیا تھا۔ مطلب آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے نہ لاہور دیکھا تھا نہ کچھ اندازہ تھا کہ وہاں کیسے اور کہاں رہنا ہے۔ ریلوے سٹیشن سے نکل کر میں سوچ رہا تھا کہ کسی رکشے والے سے کہہ دوں گا کہ سوئی گیس کے دفتر کے قریب کسی سستے ہوٹل تک چھوڑ آئے۔ لیکن ریلوے سٹیشن سے نکلتے ہی ایک ہوٹل نظر آیا جسکا نام حافظ یا الحافظ ہوٹل تھا۔ سوچا پہلے یہیں کمرہ دیکھ لوں۔ ہوٹل پہنچ کر مدعا بیان کیا تو بتایا گیا کہ سنگل روم تین سو روپے کا ہے۔ یہ مجھے مناسب لگا اور میں نے ادائیگی کردی اور کمرے کی چابی لیکر پہلی منزل پر پہنچ گیا۔ وہ ڈربہ نما کمرہ تھا جسکی چوڑائی لگ بھگ پانچ فٹ اور لمبائی سات فٹ سے زیادہ نہیں تھی۔ ساتھ ایک ملحقہ غسل خانہ بھی تھا جسکی لمبائی اور چوڑائی بالترتیب پانچ فٹ اور تین فٹ ہوگی۔ کمرے میں ایک بستر لگا ہوا تھا جو ریل گاڑی کی برتھ سے ذرا زیادہ چوڑا تھا۔ رات کو لیٹتے وقت میں نے احتیاطاً اپنا بیگ اور کتاب سائیڈ پر رکھ دی تاکہ نیند میں کروٹ بدلتے ہوئے نیچے نہ گروں۔ رات اچھی گزری صبح ٹیسٹ دس بجے شروع ہونا تھا اسلئے وقت کافی تھا۔ میں ناشتے کی تلاش میں نیچے آیا اور ہوٹل کے دائیں بائیں ہر طرف ناشتے ہی ناشتے نظر آئے۔ ناشتے سے فارغ ہوکر میں نے سیگریٹ سلگائی اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ دور ریلوے سٹیشن سے ایک شخص آتا دکھائی دیا جو مانوس لگ رہا تھا۔ وہ ہو بہ ہو میرے دیرینہ دوست اور یونیورسٹی کے کلاس فیلو اور روم میٹ  فضل وہاب کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن فضل تو عسکری بینک پشاور میں ہوتا ہے ادھر صبح صبح کیا کر رہا ہوگا۔ لیکن جب وہ بہت قریب آیا تو وہ واقعی فضل ہی تھا۔ یہ دوسال بعد پہلی ملاقات تھی۔ میں نے آواز دیکر متوجہ کیا تو وہ بھی دیکھ کر پہلے تو حیران ہوا پھر گلے ملا اور ہم دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے سے ایک ہی سوال کیا، تم یہاں کیسے؟ اور دونوں کا جواب ایک جیسا ہی تھا سوئی گیس کا ٹیسٹ ہے۔ یہ سن کر دونوں اور بھی خوش ہوئے۔ میں اسے اپنے کمرے میں لے گیا اور پھر تیار ہوکر دونوں ٹیسٹ کی مطلوبہ جگہ پہنچ گئے۔ وہ مارکیٹنگ آفیسر اور میں ایڈمن آفیسر کا امیدوار تھا۔ تیاری کے حوالے سے بات ہوئی تو پتا چلا کہ فضل کمپیوٹر اور ریاضی کے حوالے سے پریشان ہے اور میں معلومات عامہ (جنرل نالج) کا رونا رو رہا تھا۔ جب ہال میں داخل ہوئے تو پتا چلا کہ سیٹیں مخصوص نہیں ہیں اور کوئی کہیں بھی بیٹھ سکتا ہے۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔ 

جب ممتحن نے ٹیسٹ سے پہلے ہدایت نامہ سنایا تو پتا چلا ٹیسٹ کا دورانیہ تین کی بجائے دو گھنٹے کاہے اور اس میں دوسو پچاس الفاظ کا ایک مضمون بھی ہے۔ فضل نے کہا یہ تو نری بے ایمانی اور دھوکہ ہے ڈیڑھ گھنٹہ تو مضمون لکھنے میں نکل جائیگا۔ میں نے کہا یہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا کرسکتے ہیں۔ کہنے لگا دھوکے کو دھوکے سے ماریں گے۔ میں نے پوچھا کیسے؟ کہنے لگا مضمون اپنا اپنا کرلیں گے اور باقی ملٹیپل چوائس جو تمہیں آئیں کرتے جاؤ جو نہ آئیں چھوڑتے جاؤ ٹائم ضائع نہیں کرتے اور میں بھی ایسا کرتا ہوں۔ پھر باقی سوال ایک دوسرے سے شئیر کرلیں گے۔ میں نے کہا بولیں گے کیسے؟ کہنے لگا اشاروں سے۔ اگر جواب اے ہوگا تو ایک انگلی بی ہوگا تو دو انگلیاں اور اسی ترتیب سے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہم نے ایسا ہی کیا اور وقت سے پہلے ٹیسٹ مکمل کرکے نکل آئے۔ اسکے بعد وہ پشاور اور میں راولپنڈی آگیا۔ ہم دونوں کو شدت سے نتیجے کا انتظار تھا۔ اور جب نتیجہ آیا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ye zabta hai ki baatil ko mat kahun baatil | ضابطہ | Habib Jalib

یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ د...