جب نتیجہ آیا تو ہم دونوں ان چند خوش قسمت لوگوں میں شامل تھے جنہیں فائنل سیلیکشن انٹرویو کیلئے بلایا گیا۔ اب منزل بالکل سامنے نظر آرہی تھی اور ہمیں کسی حد تک یقین تھا کہ ہم منتخب ہوجائیں گے۔ ایس این جی پی ایل آفس لاہور میں ہمارا انٹرویو تھا۔ مقررہ دن ہم وہاں حاضر ہوئے۔ باری آنے پر انٹرویو بورڈ کے سامنے پیش ہوئے۔ انٹرویو بورڈ سات لوگوں پر مشتمل تھا جن میں سے تین لوگ سامنے اور چار لوگ بائیں طرف بیٹھے تھے۔ اس سے پہلے فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں بورڈ تین لوگوں پر مشتمل تھا اور تینوں سامنے بیٹھے تھے۔ شروع میں مجھے بائیں طرف والے چار افراد کی موجودگی سے الجھن ہورہی تھی لیکن وہ لوگ صرف خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے۔ ابتدائی تعارفی سوالات سامنے بیٹھے تین افراد میں بائیں طرف والے صاحب نے کئے۔ اسکے بعد سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ انٹرویو کا فطری خوف ہوتا ہے جو تعارف کے مرحلے سے گزرتے گزرتے ختم ہوچکا تھا۔ مینجمنٹ، اکاونٹنگ اور اکنامکس کے مختلف سوالات پوچھے گئے جن کے جوابات اپنی دانست میں میں نے ٹھیک دئیے۔ یہ سوالات درمیان میں بیٹھے ہوئے لمبے سفید بالوں والے بزرگ نے کئے۔ باقی افراد اپنی اپنی نوٹ پیڈ میں کچھ لکھتے رہے۔ یہ مرحلہ دس سے پندرہ منٹ تک چلا ہوگا۔ سامنے دائیں طرف سیاہ سوٹ اور لال ٹائی لگائے بڑی بڑی مونچھوں والے صاحب اس دوران بالکل خاموش بیٹھے رہے۔ وہ کچھ لکھنے کی بجائے میری اصلی اسناد کی فائل کھولے ورق گردانی میں مصروف تھے۔ جب سوال جواب ختم ہوئے تو درمیان میں بیٹھے ہوئے بزرگ نے ساتھ بیٹھے ہوئے بڑی مونچھوں والے صاحب کی طرف دیکھا اور کہا اوور ٹو یو سر۔ اسکے بعد ان صاحب نے سر اٹھائے بغیر عینک کے اوپر سے میری طرف دیکھا۔ انکا انداز انتہائی سنجیدہ اور غیر دوستانہ تھا۔ نپے تُلے انداز میں پہلا سوال کیا۔ ایم بی اے میں آپکے نمبر اتنے زیادہ کیسے آئے؟ مجھے انکا سوال برا لگا لیکن ظاہر ہے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا اسلئے مختصر سا جواب دیا کہ سر ہمارے وہاں زیادہ نمبر لینا برا سمجھنے کا رواج نہیں تھا۔ کہنے نہیں بات رواج کی نہیں لیکن نمبر میرے حساب سے بہت زیادہ ہیں۔ میں نے کہا سر ممکن ہے آپ کا حساب درست نہ ہو نمبر اپنی جگہ ٹھیک ہوں۔ کہنے لگے نہیں میرا وہ مطلب نہیں آپ برا مان گئے۔ دراصل ہمارے زمانے میں اتنے نمبر کبھی کسی نے نہیں لئے۔ فرسٹ ڈویژن لینا بھی بڑی بات ہوا کرتی تھی۔ میں نے کہا سر آپ کے زمانے میں دنیا نے اتنی ترقی بھی نہیں کی تھی علم کے ذرائع بھی بہت محدود تھے لے دے کر کتاب اور استاد تک محدود تھے جبکہ آج کل ایسا نہیں ہے۔ کہنے لگے آپ کو برا تو لگے گا لیکن اگر میری ایمان دارانہ رائے پوچھیں تو آپ کی یونیورسٹی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں نمبر ٹکا کردیتے ہیں۔ مجھے واقعی برا بلکہ بہت برا لگا تھا۔ لیکن میں غصے کا اظہار بھی نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے کہا سر میں آپ کی رائے کو اپنی یونیورسٹی کیلئے کمپلینٹ سمجھتا ہوں اور آپ کی معلومات عامہ کی داد دیتا ہوں کیونکہ میں جس یونیورسٹی میں پڑھا ہوں پاکستان میں اعشاریہ ایک فیصد سے بھی کم لوگ اسکا نام جانتے ہیں اور ان کے اعشاریہ ایک فیصد شاید یہ جانتے ہوں کہ کس شہر میں اور کون کونسی ڈگری وہاں دی جاتی ہے۔ جبکہ آپ کو نہ صرف میری یونیورسٹی کے بارے میں علم ہے بلکہ یہ بھی پتا ہے میری یونیورسٹی کے بارے میں لوگوں کا تاثر کیا ہے۔ میں نے انتہائی مہذب الفاظ میں بھرپور طنز کرکے بالفاظ دیگر انہیں جھوٹا قرار دیا۔ وہ پہلی بار مسکرا کر کہنے لگے آپ ویسے ہی برا مان گئے میں بس اتنی سی بات کر رہا ہوں کہ آپ کے وہاں نمبر تھوک کے حساب سے دے دیتے ہیں۔ انکے کے اس جوابی وار سے میرے تن بدن میں آگ لگ گئی کیونکہ وہ نہ صرف میری سولہ تعلیم کو بلکہ میری یونیورسٹی تک کی تضحیک کر رہے تھے۔ اگر انٹرویو نہ ہوتا تو میں آڑے ہاتھوں لے لیتا لیکن یہاں میرے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ میں نے کہا سر ہم بحث برائے بحث میں الجھ گئے ہیں۔ اگر آپ صرف میرے نمبر دیکھ کر میری یونیورسٹی کے بارے میں رائے قائم کر رہے ہیں تو یہ سن کر آپکو مایوسی ہوگی کہ بنوں بورڈ نے بھی مجھے اسی فیصد سے زیادہ نمبر دئیے تھے اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے بھی پورے صوبے سے ایک سیٹ پر مجھے ہی سیلیکٹ کیا تھا۔ اسکے علاوہ میں نے اپنے دوچار ناکردہ کارنامے بھی گنوا دئیے جو یقیناً جھوٹ تھا اور مجھے یاد نہیں کہ وہ کونسے کارنامے تھے لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے اور اس وقت میں حالت جنگ میں تھا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ سر آپکے دعوے کی تصدیق کا ایک ہی ممکن طریقہ ہے اور وہ یہ کہ آپ میری یونیورسٹی میں داخلہ لیں اور اگر آپ میری کیلیبر کے نہیں تو اتنے نمبر لے کردکھادیں۔ یہ سن کر انکے ساتھ ساتھ پینل میں موجود سب لوگ مسکرانے لگے پھر انہوں نے میری فائل میری طرف بڑھا کر کہا اوکے جینٹلمین تھینک یو۔
میں اٹھا اور باہر ویٹنگ روم میں آتے ہی باقی امیدواروں نے مجھے گھر لیا۔ پوچھنے لگے کون کونسے سوال پوچھے؟ میں نے سوال نہیں پوچھ رہے صرف ٹکا کے بے عزتی کر رہے ہیں۔ فضل کا بھی انٹرویو اچھا ہوا تھا لیکن اسے میری طرح خوار نہیں کیا تھا۔
ایک مہینہ خاموشی رہی کوئی جواب نہیں آیا۔ تب اپنا تجربہ ذرا کم تھا اور نہیں جانتے تھے کہ جوان آنا بھی ایک جواب ہی ہوتا ہے، اسلئے ایک دن فون کرکے پوچھ لیا۔ جواب ملا کہ ہمیں افسوس ہے آپ منتخب نہیں ہوسکے۔ سن کر مایوسی ہوئی اور اس سے زیادہ افسوس ہوا۔ افسوس اس بات کا کہ اگر پہلے سے معلوم ہوتا کہ سیلیکٹ نہیں کرنا تو انٹرویو میں موصوف سے کھل کر دو دو ہاتھ ہی کرلیتا۔ فضل نے بعد میں بتایا کہ جو بندے سیلیکٹ ہوئے ہیں وزیر توانائی آفتاب شیر پاؤ کی وساطت سے ہوئے ہیں اور انکی کوالیفیکیشن بھی ایم بی اے نہیں ہے اسلئے ہم عدالت میں کیس کرتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں ہم دونوں کی نوکری تو ہے کونسا بے روزگار ہیں ایسا نہ ہو اس سے بھی جاتے رہیں اور وہ بھی نہ ملے اسلئے رہنے دیتے ہیں۔ لیکن اس ٹیسٹ انٹرویو سے میرا کھویا ہوا اعتماد واپس بحال ہوگیا تھا۔ اب میں نے اتوار کے دن دی نیوز اور ڈان کراچی اخبار لینا شروع کیا اور ہر ہفتے دو چار جگہ اپنے کاغذات ضرور بھیجتا۔ دفتر میں مذاق اڑاتے کہ پورے دفتر کی اتنی ڈاک نہیں جاتی جتنی آپ کی جاتی ہے اور جواب کبھی ایک کا بھی نہیں آیا۔ میں انہیں کہتا کہ میرے کاغذات ابھی جوہری کے ہاتھ نہیں لگے جس دن جوہری کے ہاتھ لگے دیکھنا ادھر دفتر کے باہر لائن بناکر کھڑے ہوں گے اور باقاعدہ بولی لگائیں گے۔
ادھر مسلس آٹھ نو مہینے رات گئے تک ٹیوشن پڑھا پڑھا کر میں تھکنے لگا تھا۔ میرا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ میں یکسانیت سے بہت جلد اکتا جاتا ہوں۔ زندگی ایک دائرے میں چلنے لگی تھی۔ صبح اٹھ کر دفتر جانا دو بجے گھر واپس آنا تھوڑی دیر بعد ٹیوشن شروع کرکے رات دیر تک ٹیوشن پڑھانا اور پھر سوجانا اور اگلے دن پھر وہی دائرے میں چکر لگانا شروع کردینا۔ اب مالی مشکلات تو ختم ہوچکی تھیں لیکن اس معمول کو برقرار رکھنا مشکل ہورہا تھا۔ سوچا کچھ تبدیلی کی جائے۔ تحقیق سے پتا چلا کہ اگر ہوم ٹیوشن پڑھائیں تو اس کے پیسے زیادہ ملتے ہیں۔ مطلب نو کی بجائے تین ٹیوشن کافی ہوں گے۔ لیکن ہوم ٹیوشن کیلئے سواری چاہئے تھی اور میرے پاس سواری نہیں تھی۔ میں نے موٹر سائیکل لینے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے موٹر سائیکل کبھی نہیں چلائی تھی۔ صرف ایک بار ایک دوست کی موٹر سائیکل کالج کے زمانے میں چلانے کی کوشش کی تھی اور سیدھی سڑک پر پہلے گئیر میں گراونڈ کا ایک چکر لگایا تھا۔ ایک دوست رابطہ کیا اور مدعا بیان کیا تو کہنے لگا مری روڈ پر سرکلر روڈ ہے وہاں موٹر سائیکلوں کے شوروم اور بارگین ہیں وہاں سے لے لیں گے۔ اگلے دن ہم وہاں پہنچے۔ میرے پاس گنجائش پینتیس ہزار تک تھی۔ بہت سی موٹر سائیکل دیکھ کر شوق پورا کیا پھر آخر ایک پسند آگئی۔ پیسے بھی ہماری گنجائش کے مطابق تھے۔ دوکاندار نے کہا اسکو چلا کر دیکھ لیں۔ مجھے چلانا کوئی خاص آتا نہیں تھا اسلئے میں نے دوست سے کہا کہ آپ چلا کر دیکھ لیں۔ وہ بضد تھا کہ آپ خود چلا کر دیکھ لیں۔ آخر آپ آپ کی تکرار سے تنگ آکر میں نے انتہائی کم رفتار سے بیس یا تیس میٹر کا ایک چکر لگا کر فیصلہ سنا دیا کہ ٹھیک ہے۔ دوکاندار پینتیس ہزار سے کم لینے پہ راضی نہیں ہورہا تھا۔ میں نے کہا کہ انکل دو چار ہزار کم کرلیں اور سمجھیں کہ آپ نے اپنے بھتیجے کو تحفہ دیا ہے۔ کہنے لگا بیٹا گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو جائے گا کیا۔ بہر حال میں مالک سے بات کروا دیتا ہوں اگر وہ کم کرے تو کردے میری تو تھوڑی سی کمیشن ہے اس میں۔ فون ملاکر بات کی اور ریسور مجھے پکڑا دیا۔ دوسری طرف سے کہا گیا کہ بھائی ریٹ مناسب ہے۔ دو مہینے بمشکل چلی ہے گاڑی اور آپ مارکیٹ سے تسلی کرلیں۔ مطلب پیسے کم نہیں کئے۔ میں نے بھی بے جا ضد نہیں کی اور رسید بنوا کر پیسے دے دئیے۔ موٹر سائیکل دوکان سے نکال کر دوست سے کہا کہ آپ چلائیں۔ کہنے لگا مجھے کہاں چلانا آتا ہے آپ خود چلائیں۔ میں نے کہا کہ اگر مجھے چلانا آتا تو تمہیں ساتھ کیوں لاتا؟ کہنے لگا ابھی تو آپ نے چلائی ہے آپکو چلانا آتا ہے۔ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا اسلئے میں نے کہا ٹھیک ہے پیچھے بیٹھ جاؤ اور جتنی دعائیں آتی ہیں سب پڑھ لو۔ اسکو بٹھا کر آہستہ آہستہ آگے بڑھے۔ بمشکل تیس میٹر چلے ہوں گے کہ موٹر سائیکل کا انجن بند ہوگیا۔ ہم نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن سٹارٹ نہ ہو۔ میرا دوست کہنے لگا کہ لگتا ہے موٹر سائیکل بے کار ہے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے چلو واپس دے آتے ہیں۔ میں نے کہا نہیں تھوڑی دیر کوشش کرتے ہیں شاید ہم سے کوئی غلطی ہورہی ہو۔ شام ہوچکی تھی اور ہم موٹر سائیکل کو باری باری ککس مارے جارہے تھے۔ اتنے میں ایک ورکشاپ کے مستریوں والے کپڑے پہنے لڑکا وہاں سے گزر رہا تھا رُک کر تماشا دیکھنے لگا۔ پھر پوچھا کوئی مسئلہ ہے؟ عرض کیا ابھی ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی اب انجن بند ہوگیا اور سٹارٹ ہی نہیں ہوتا۔ اس نے کہا رکیں میں دیکھتا ہوں۔ اس نے انجن کیساتھ لگی سفید چیز (پلگ) کھول کر چیک کی پھر لگاکر ٹینکر کا ڈھکن کھولا اور کہا کہ اس میں تو پیٹرول ہی نہیں ہے۔ ہم شرمندہ ہوگئے۔ سامنے پیٹرول پمپ تک گھسیٹ کر لے گئے اور ٹینکی فل کروالی۔ اسکے بعد موٹر سائیکل کی جان میں جان آئی۔ مری روڈ پر شدید رش میں سڑک کنارے چلتے چلتے ہم آدھے گھنٹے میں دوست کے گھر پہنچ گئے۔ اسکو وہیں اتارا اور میں آگے نکل گیا۔ دوسری سواری کے بغیر چلانا نسبتاً آسان لگ رہا تھا۔ گھر تک پہنچتے پہنچتے میں موٹر سائیکل چلانا سیکھ چکا تھا۔ اب میں نے ہوم ٹیوشن کی تلاش شروع کی۔ ہمارے ساتھ دفتر میں ایک لڑکا تھا جو گھروں میں ٹیوشن پڑھاتا تھا اس سے بات کی تو کہنے لگا چکلالہ سکیم تھری میں ایک ہے۔ تین بچے ہیں ایک گھنٹہ ٹائم دینا ہوگا اور دس ہزار روپے دیں گے۔ میں نے کہا اگر دو سے تین بجے تک پڑھتے ہیں تو ٹھیک ہے میں دفتر سے سیدھا وہیں جاؤں گا اور پڑھا کر گھر چلا جاؤں گا۔ اس نے بات کی اور وہ راضی ہوگئے۔
اگلے روز میں وقت مقررہ پر انکے گھر پہنچا اور انہوں نے اچھی خاطر تواضع کی۔ بچوں سے تعارف ہوا انکی کتابیں دیکھیں اور پڑھائی کا شیڈول طے کرکے میں گھر چلا گیا۔ اگلے دن باقاعدہ پڑھائی شروع ہوئی۔ دو بچیاں اور ایک بچہ تھا۔ بچیاں بہت فرمانبردار پڑھائی پر توجہ دینے والی تھیں لیکن بچہ بگڑا ہوا رئیس زادہ تھا۔ وہ نہ اپنی پڑھائی پر توجہ دیتا تھا نہ بہنوں کو پڑھنے دیتا۔ دو دن تو میں نے پیار سمجھایا لیکن تیسرے دن بھی کوئی خاطر خواہ فرق نظر نہیں آیا تو میں نے اسکو ڈانٹا۔ چوتھے دن اس نے وہی روش دکھائی تو اسکا کان اتنا مروڑا کہ اسکا منہ جتنا کھل سکتا تھا کھل گیا۔ اور پھر سختی سے کہا کہ یہ صرف ابتداء ہے اگلا مرحلہ اس سے ذرا سخت ہوگا۔ اس دن کان لال کروانے کے بعد وہ چپ بیٹھا رہا اور مجھے خوشی ہورہی تھی کہ بچہ سدھرنے لگا ہے۔ اگلے دن جب پہنچا تو بچوں کی بجائے انکی ماں نے چائے اور دیگر لوازمات سے تواضع کی۔ جب پوچھا کہ بچے کہاں ہیں تو اس نے ایک لفافہ میری طرف بڑھایا اور معذرت کی کہ بچے آپ سے نہیں پڑھنا چاہتے۔ میں شکریہ ادا کیا لفافہ جیب میں ڈالا اور گھر کی راہ لی۔ لفافے میں پانچ ہزار روپے تھے۔ مجھے سبکی محسوس ہوئی اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ اب کسی کو گھر جاکر نہیں پڑھانا۔ اکتاہٹ برقرار تھی اسلئے میں نے مزید سٹوڈنٹس لینا بند کردیا۔ آہستہ آہستہ بچے کم ہوتے گئے اور آخر کار ختم ہوگئے۔ اسکے بعد آس پاس سے بچوں کے والدین نے پڑھانے کیلئے اصرار کرنا شروع کیا تو میں نے وہاں سے ہجرت کرنے کا سوچ لیا۔ مسلسل انکار کرنا مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
دفتر میں سلام دعا تو بہت سے لوگوں سے تھی لیکن دستی چند ایک سے تھی جن میں عبدلجلیل صاحب سر فہرست تھے۔ عبدلجلیل صاحب کی دو خوبیاں سب سے مختلف تھیں۔ ایک تو وہ ہر وقت مسکراتے رہتے اور دوسرا وہ بات بالکل سیدھی کرتے بغیر لگی لپٹی کے۔ اسی سال ۱۴ اگست ۲۰۰۵ کو یوفون نے یوم آزادی کی خوشی میں مفت سم تقسیم کرنے کا اعلان کیا۔ جب جلیل بھائی سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ وہاں کافی رش ہوگا اور میں نے ایک دوست کے ذمے لگائی ہیں سم اسکو سو پچاس دے دیں گے لائن میں لگنا مشکل کام ہے۔ اور پھر انہوں نے سم دلادی جو چودہ سال گزرنے کے باوجود آج تک استعمال میں ہے۔ عبدالجلیل صاحب نہ صرف ایک سینئیر ہم کار بلکہ ایک محسن اور بڑے بھائی تھے اور یہ رشتہ آج تک برقرار ہے۔ جب بھی کوئی مسئلہ پیش آئے انکو بتادیں پھر اسکے بعد وہ آپکا مسئلہ نہیں رہتا انکا مسئلہ بن گیا اور وہ اسکا حل جہاں کہیں سے ہوا ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ میرے اکثر دوست جن کیساتھ پہاڑوں پہ جاتا ہوں سمجھتے ہیں کہ میں جوگاڑ لگانے کا ماہر ہوں۔ اگر وہ عبدالجلیل بھائی سے مل لیں تو انکی رائے یکسر مختلف ہوگی۔ جوگاڑ لگانے کے فن میں میں انکا ادنیٰ سا شاگرد بھی کہلاؤں تو میں مستخر محسوس کروں گا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کوئی فرمائش کی ہو یا کام بتایا ہو یا مسئلہ بتایا ہو اور عبدلجلیل بھائی نے مایوس کیا ہو۔ تاہم کچھ خواہشیں ہمیشہ ادھوری رہتی ہیں۔ ان کے حجرے میں ایک تجوری نما الماری تھی جو ہمہ وقت مقفل رہتی تھی۔ یہ عبدالجلیل بھائی کی ملکیت میں واحد چیز تھی جس تک ہماری رسائی باوجود کوشش کے ممکن ہوسکی۔ یار لوگوں نے اس تجوری کے متعلق طرح طرح کی باتیں مشہور کر رکھی تھیں۔ ایک خیال یہ تھا کہ اس الماری میں کچھ خاص قسم کے کُشتے اور انکی تراکیب محفوظ ہیں جن تک کسی کی رسائی نہیں۔ دوسرا گمان یہ تھا کہ اس الماری میں انکی جوانی اور نوجوانی کے کردہ و ناکردہ گناہوں کے راز پوشیدہ ہیں۔ ایک دوست نے یہ کہہ کر ہمارے تجسس کو دو آتشہ کیا کہ صفیہ کے سارے خطوط اسی الماری میں بند ہیں۔ کچھ دوستوں کی رائے تھی کہ عبدالجلیل بھائی ڈھکے چھپے حکیم ہیں اور انکی حکمت کا سارا خزانہ اسی آہنی تجوری میں مقفل ہے جس میں آب حیات کا مجرب نسخہ، سدا بہار جوانی کے راز اور کئی پوشیدہ امراض کے تیر بہ دف نسخے یہیں دفن ہیں۔ کسی زمانے میں انکی اس تجوری کے بارے میں میں نے ایک پورا مضمون لکھا تھا۔ لیکن بقول غالب یہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا، ہم آج تک ان سر ستہ رازوں سے پردہ نہ ہٹا سکے۔
گھر کے بارے میں ان سے بات کی تو دو دن کے اندر اندر اپنے پڑوس میں علامہ اقبال کالونی میں گھر نہ صرف ڈھونڈ نکالا بلکہ ہمیں وہاں منتقل بھی کرلیا۔ (جاری ہے)
کاش کہ یہ ایک ہی نشست میں کہانی پڑھی جا سکتی. بہت اعلیٰ بھائی
جواب دیںحذف کریںبلاگ کی کچھ اپنی حدود و قیود ہیں جسکی وجہ سے اتنی لمبی تحریر شائع نہیں ہورہی تھی جسکی وجہ سے اسے سلسلہ وار شائع کرنا پڑھ رہا ہے
حذف کریںپچھلے تمام حصے یہاں موجود ہیں۔